دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ

Spread the love

تحریر: ڈاکٹر غلام زرقانی دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ بھارت سے اسلامی شناخت کے مٹانے کی ایک سازش ہے

دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ


یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے ، اس لیے مذہب اسلام کی نشو ونما ، ترقی واستحکام اور تحفظ وصیانت کے حوالے سے کسی طرح کے اقدامات حکومت سے متوقع نہیں ہیں ، بلکہ دینی تعلیم کے نظم ونسق سے لےکر آنے والی نئی نسلوں تک اسلامی تہذیب کی منتقلی کی تمام تر ذمہ داری اپنی مدد آپ کے تحت یہاں کے مسلمانوں کے کندھوں پر ہے ۔

اور کوئی شک نہیں کہ مسلمان اپنی مذہبی ذمہ داری بہت حدتک نبھابھی رہے ہیں ۔ مساجد، مدارس، مکاتیب اور اسلامی کتب کی نشرواشاعت سے لے کر فکر اسلامی کے استحکام کے لیے ہونے والے مذہبی اجلاس ، مباحثے اور مناظرے مسلمانوں کی باہمی رفاقت اور امداد واعانت سے ظہورپذیر ہوتے رہتے ہیں۔

آزادی ہند کے بعد وقف املاک سے حاصل شدہ آمدنی کا کچھ حصہ بعض دینی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے متعین کیا گیا۔ اس طرح ہندوستان کے کئی صوبوں میں وہاں کی حکومتوں کے ذریعہ مدرسہ بورڈ قائم ہوااورعلاقے کے معیاری مدارس ضروری کاروائی کے بعد منظورکرلیے گئے اور وہاں پڑھانے والے بعض اساتذہ کو تنخواہیں دی جانے لگیں ۔ نیز مدرسہ بورڈ کی سرپرستی میں طلبہ وطالبات کے امتحانات منعقد کیے گئے اور کامیاب ہونے والے افراد کی اسناد عصری جامعات اور سرکاری ملازمتوں کے لیے قابل قبول قرار دی گئیں ۔ یوں یہ کارواں گذشتہ کئی دہائیوں سے معمول کے مطابق رواں دواں ہے ۔

یہ درست ہے کہ ابتدائی مرحلے میں مدارس اسلامیہ میں صرف دینی علوم وفنون کی تدریس کے لیے اہتمام ہوا کرتے تھے ، پھر آہستہ آہستہ بعض عصری علوم بھی داخل نصاب کیے گئے ،جو بقدر ضرورت تک محدود تھے ، لیکن جب مدرسہ بورڈ سے مدارس اسلامیہ کا الحاق عمل میں آیا، توبورڈ کی شرائط کے مطابق حساب، سائنس، انگلش اور ہندی وغیرہ بھی شامل نصاب ہوئے ۔

چوں کہ مدرسہ بورڈ کے امتحانات میں متذکرہ مضامین کے پرچے بھی شامل تھے، اس لیے طلبہ وطالبات کے لیے انھیں حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا ۔ تاہم یہاں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ متذکرہ عصری علوم وفنون کو مدارس اسلامیہ میں ہمیشہ ثانوی حیثیت حاصل رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ نہ توعوام نے اور نہ ہی علما وعمائدین نےدینی پس منظر میں کسی قسم کی تشویش کا اظہار کیا۔

آگے بڑھنے سے پہلے پیش نگاہ رہے کہ مدارس اسلامیہ میں عصری علوم وفنون کی شمولیت کے حوالے سے تین طرح کے نظریات موجود ہیں ۔ پہلا نظریہ تویہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے قیام کامقصد دین اسلام کی نشر واشاعت ہے ، اس لیے یہاںصرف دینی علوم وفنون کے درس وتدریس کا ہی اہتمام ہوناچاہیے ۔

دوسراخیال یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں دینی علوم وفنون کے ساتھ ساتھ ایسے عصری علوم وفنون کی شمولیت بھی ہونی چاہیے ، جو بنیادی مقاصد کے حصول میں معین ومدد گار ہوں ۔جب کہ تیسرا مطمح نظر یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں ایسے علوم وفنون کی تعلیم کا نظم ونسق بھی ہوناچاہیے، جو فارغ التحصیل علما وفضلا کے لیے عصری میدانوں میں کامیابی کی راہیں کشادہ کرسکے ۔

 

آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ تیسری فکر کے نتیجے میں طلبہ وطالبات عصری میدانوں میں کامیابی کے لیے زیادہ حساس ہوجائیں گے ، جو ان کے دلوں میں اسلامی علوم وفنون میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے عزائم سے پہلے مرحلے میں عدم دل چسپی کا باعث ہوگا، پھرکیاعجب کہ دوسرے مرحلے میں وہ اسلامی علوم وفنون کے حصول سے ہی انھیں بیزار کردے ۔

خیال رہے کہ یہ بات میں صرف مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہاہوں ، بلکہ مدارس اسلامیہ کےذمہ داروں کی تشویش کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں کہ اس کے آثار اب دکھائی دینے لگے ہیں ۔ دس بیس سالوں پیشتر مدارس اسلامیہ میں پڑھنے والے طلبہ محسوس کرتے تھے کہ انھیں دین متین کی خدمت کرنی ہے ، جب کہ اب بہت بڑی تعداد میں طلبہ مدارس اسلامیہ کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ انھیں عصری میدانوں میں مہارت حاصل کرکے اپنی اقتصادی حالت بہتر سے بہتر کرنی ہے ۔

پہلی رائے عصر حاضر کے تقاضوں کے پیش نظر نئی پود کے لیے مفید ثابت نہیں ہوسکتی۔ ظاہرہے کہ انھیں تاحین حیات مدارس اسلامیہ کی چہار دیواری میں نہیں رہنا ہے ، بلکہ اسی فانی دنیا میں انھیں اپنے شب وروز گزارنے ہیں ، اس لیے دینی علوم وفنون کے ساتھ ساتھ ایسے علوم کی شد بد بھی ضروری ہے ، جوکامیاب زندگی گزارنے میں معین ومددگار ثابت ہوسکے ۔ اور کہنے کی بات نہیں کہ یہ ضروری تقاضے دوسری فکر سے بہ آسانی پورے ہوجاتے ہیں ۔

اس لیے دوسری رائے ہی بہتر معلوم ہوتی ہے ، جس کے نتیجے میں طلبہ وطالبات دینی علوم وفنون سے بھی بہرہ ور ہوں گے اور عصری علوم وفنون سے بھی پورے طورپر نابلد نہیں رہ جائیں گے۔

اب ذرا بات کرتے ہیں یوپی مدرسہ بورڈ کے حالیہ ہدایت نامے کے حوالے سے ۔

ذرائع ابلاغ کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ یوپی بورڈ سے ملحقہ مدارس اسلامیہ پر لازم ہے کہ وہ عصری درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے مضامین بھی داخل نصاب کریں ۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکاہے کہ ملحقہ مدار س اسلامیہ کے نصاب میں بعض عصری مضامین توداخل نصاب ہیں ہی، اب مزید عصری مواد کی شمولیت کا براہ راست نتیجہ یہ ہوگا کہ دینی علوم وفنون حاشیے پر چلے جائیں گے ۔

مزید یہ کہ عصری مضامین کی زیادتی کے نتیجے میں عصری علوم وفنون کے اساتذہ کی بحالی بھی ناگزیر ہوگی۔ اس طرح آپ بجا طورپر کہہ سکتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ میں دینی اساتذ ہ کی تعداد بھی کم سے کم ہوتی چلی جائے گی۔ یوں ایک وقت ایسا آئے گا کہ مدارس اسلامیہ صرف نام کی دینی درسگاہیں ہوں گی ، جب کہ عملی طورپر وہ عصری دانشگاہوں میں تبدیل ہوجائیں گی ۔
صاحبو! مدارس اسلامیہ کے فارغین پر ہزار تنقید وتبصرے کے باوجود یہ حقیقت بہر کیف تسلیم کرنی ہوگی کہ اگر ہندوستان میں اسلام زندہ ہے ، توبظاہر انھیں علاقائی مدارس دینیہ کے دم سے ہے ۔

یقین نہیں آتا توتھوڑی دیر کے لیے عالم تصورات میں محسوس کریں گے کہ ہندوستان میں دینی مدارس کا وجود نہیں ہے ۔ اب دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہماری نئی نسل کو اسلامی تہذیب وتمدن سے کون آشنا کرے گا؟۔

انہیں قرآن کی تعلیم دینے والے کہاں سے آئیں گے ؟ نماز ، روز ہ ، حج وزکواۃ کے مسائل سمجھانے والے کون ہوں گے؟ نکاح وطلاق، جمعہ ، عیدین ، نماز جنازہ اور تمام تر اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے والے کہاں سے مہیا کرائے جائیں گے؟ ۔

اور پھر مساجد میں امامت کرانے والے ، اذانیں دینے والے ، دینی موضوعات پر گفتگوکرنے والے معاشرے میں کہاں سے پیدا ہوں گے؟ ۔

اس لیے کہنا دیا جائے کہ اور بجاطورپر کہنا دیا جائے کہ ہندوستان میں مدارس اسلامیہ ہمارے لیے بہت عظیم نعمت ہیں ، جنھیں ہر حال میں اپنے بنیادی مقاصد سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندہ رہنا چاہیے

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

85 thoughts on “دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *