نصاب میں تبدیلی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے

Spread the love

درسِ نظامی : نصاب میں تبدیلی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے !

از قلم : ڈاکٹر غلام زرقانی

روئے زمین پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالیں ، توآپ کو ایسی بے شمار کمپنیاں مل جائیں گی ، جو صدیوں پہلے قائم ہوئی تھیں اور اب تک اسی طرح رواں دواں ہیں ، بلکہ بعض توایسی بھی ہیں ، جن کے داخلی عناصر ہی نہیں ، خارجی چمک دھمک تک میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ظاہرہے کہ جب تجربہ شدہ طریقہ کار مفید اور منافع بخش ہے ، تواس میں کسی بھی طرح کی تبدیلی دانشمندی سے تعبیر نہیں کی جاتی ۔ ب

عینہ یہی حال ہندوپاک کے مدارس اسلامیہ میں جاری درس نظامی کے نصاب کا ہے ۔

تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ ہندوستانی سرزمین پر پیغام اسلامی کی پہلی کرن پہنچنے سے لے کر آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر تک دین اسلام کی چمک دھمک سرکاری نصرت وحمایت سے قائم رہی ، تاہم کیا اس حقیقت سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے کہ سلطنت مغلیہ کے خاتمے کے بعد برطانوی دور کے کم وبیش سو سال اور آزادی کے بعد سے اب تک پچھتر سال ، یعنی گذشتہ تقریبا دو سو سالوں سے ہندوستان میں اگرشجراسلام تروتازہ ہے ، توا سے سینچنے میں براہ راست سب سے زیادہ فعال ومتحرک کردار انھیں مدارس اسلامیہ کا ہے، جہاں درس نظامی کے مطابق درس وتدریس کا سلسلہ قائم ہے؟

تاہم افسوس یہ ہے کہ ادھر چند سالوں سے عام مسلمان ہی نہیں ، بلکہ درس نظامی سے منسلک طلبہ واساتذہ بھی یہ کہتے سنے جارہے ہیں کہ اس میں عصر حاضر کے تقاضے کے مطابق تبدیلی ہونی چاہیے ۔

دل پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر کے لیے اندازہ لگائیے کہ ایک ثابت شدہ مفید تجربے میں تبدیلی کی کوشش کس قدر تشویشناک ہے ۔ یہ بات توسمجھ میں آتی ہے کہ کسی ایسی چیز میں تبدیلی کی جائے ،جومفید نہ رہ گئی ہو، لیکن جو چیز پرانی سہی ، لیکن اب بھی اپنے مقاصد واہداف کماحقہ پوری کررہی ہے ، اسے چھوڑنے کی بات کرنا کہاں کی دانش مندی ہے ؟

اور پھر یہ بھی تودیکھیے کہ اگر کوئی چیز زمانے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے حیز وجود میں آئی ہو ،تو اس میں توضرور گاہے بگاہے تبدیلی ہونی چاہیے ، لیکن جو چیز ایک ایسے دین کے استحکام وترقی کے لیے وجود میں آئی ہو، جو کسی بھی زمانے کے تقاضے پر منحصر نہیں ہے ، بلکہ یہ آخری دین ہے اور اسے قیامت تک زندہ رہنا ہے ، لہذا اس کے تقاضے کسی بھی عہدسے بلند تر ہیں ۔

خیال رہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ درس نظامی میں کسی جزوی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے ، بلکہ مدعائے سخن صرف اس قدر ہے کہ اس میں کوئی ایسی بڑی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے ، جو دینی درسگاہوں کے بنیادی مقاصد واہداف پر اثر انداز ہوجائے ۔

یہ توہم بھی کہتے ہیں کہ عالم دین بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور اسے یہیں اپنے شب وروز گزارنے ہیں ۔ اس لیے بجاطورپر اسے اُن علوم وفنون سے واقفیت بھی ہونی چاہیے ، جن سے قدم قدم پر سابقہ پڑتارہتاہے ۔

مثال کے طورپر کمپیوٹر سے معلومات اخذ کرنے اور اسے چلانے کی تربیت، ہندی زبان میں لکھنے پڑھے کی صلاحیت، حساب وکتاب سے متعلق سلیقہ مندی ، نیز عالمی زبان ہونے کی حیثیت سے انگریزی زبان سمجھنے اور کسی حدتک اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی پر قدرت وغیرہ ایسے علوم ہیں ، جو دنیا میں کسی بھی شخص کے باوقار زندگی گزارنے کے لیے ناگزیر ہوچکے ہیں ۔

لہذا اگر کسی دینی مدرسے میں یہ سہولتیں نہیں ہیں ، توارباب حل وعقد کو اس بنیادی ضرورت کی تکمیل کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ درس نظامیہ سے فراغت حاصل کرنے والے ہر اعتبار سے کام یاب ہوسکیں ۔

ویسے بھی قرآن مقدس کی ہدایت کے مطابق ملت اسلامیہ کے ہر ایک فرد پر نہیں ، بلکہ ایک گروہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دینی علوم میں کمال حاصل کریں اور عام لوگوں کے دینی مسائل میں بوقت ضرورت رہنمائی کرسکیں ۔ اطمینان قلبی کے لیے یہ آیت کریمہ پڑھیے ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ(سورہ توبہ ، آیت: ۱۲۲) یعنی ’ یہ توہونہیں سکتا کہ راہِ خدا میں سارے کے سارے مسلمان بیک وقت نکل پڑیں ، توپھر ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین میں فہم وبصیرت حاصل کرنے کے بعد جب اپنی قوم کی طرف واپس پلٹے ، توانھیں عذاب الٰہی سے ڈرائے تاکہ وہ برائی سے بچیں۔

آپ محسوس کررہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے دینی علوم وفنون پر دسترس حاصل کرنے کی ذمہ داری ہر مسلمان پر عائد نہیں کی ہے ، ورنہ توشب وروز سامنے آنے والی ہزاروں دوسری ضروریات کے لیے ہمارے معاشرے میںماہرین نہیں ملتے ، نہ علاج کرنے کے لیے ڈاکٹر دستیاب ہوتے ، نہ مکان کا نقشہ بنانے والے آرکٹکٹ ملتے ، نہ تعمیر کرنے والے انجنئیردکھائی دیتے ۔

اس لیے سچی بات یہی ہے کہ ناگزیر دینی تعلیم کا حصول توہر مسلمان کے لیے ضروری ہے 

لیکن دینی علوم وفنون میں دسترس حاصل کرنے کی ذمہ داری ہر علاقے کے چندافراد پر عائد ہوتی ہے اور کہنے دیجیے کہ یہی چند افراد ہندوستان کے دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں اور دینی علوم وفنون میں کمال حاصل کرکے اپنے اپنے علاقوں کے مسلمانوں کی دینی رہنمائی میں فعال ومتحرک کردار ادا کرتے ہیں ۔

لگے ہاتھوں ایک تکلیف دہ بات بھی سن لیجیے کہ اِدھر دس پندرہ سالوں میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل کسی عالم دین نے صوبائی یا مرکزی سطح پر ہونے والے مقابلہ جاتی میدان میں کامیابی حاصل کرلی ، تواسے اس طرح سے پیش کیا جاتاہے کہ جیسے صحیح معنوں میں یہی ترقی ہے اور مدرسہ اب اپنے ہدف تک پہنچا ہے ۔

میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیں ایسے طلبہ کی پذیرائی نہیں کرنی چاہیے ، بلکہ یہ کہنا چاہتاہوں کہ اس حوالے سے بھی ہمیں کمال احتیاط سے کام لینا چاہیے ، تاکہ وہ طلبہ جودن رات محنت ومشقت کے ساتھ دینی علوم وفنون میں کمال حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ،اُن کے جذبات مجروح نہ ہوں ۔

صاحبو! متذکرہ بالا گفتگو سے یہ امر بھی صاف ہوگیا کہ ذرائع ابلاغ اورارباب سیاست کے اس اعتراض میں کس حدتک جان ہے کہ مدارس اسلامیہ سے ڈاکٹر ، انجنئیر، پائلٹ اور عصری میدانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے کیوں فارغ نہیں ہوتے ؟

ظاہرہے کہ یونیورسٹی کے شعبہ زبان وادب اور شعبہ دینیات سے توقع یہی کی جاتی ہے کہ متعلقہ شعبوں میں دسترس رکھنے والے پیدا ہوں ، اس لیے صاف صاف سن لیا جائے کہ مدارس اسلامیہ کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہی ہے کہ یہاں سے علوم دینیہ کے ماہرین پیدا ہوں اور معاشرے کی دینی ضروریات پوری کریں ۔

اور کہنے دیجیے کہ گذشتہ دو سو سالوں سے یہ کوشش بارآورثابت ہورہی ہے ، اس لیے تقاضائے دانش مندی یہی ہے کہ اسے اِسی حال میں باقی رکھا جائے۔ ہاں یہ ضرور ہونا چاہیے کہ عصر حاضر کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایسے نئے ادارے جگہ جگہ کھولے جائیں ، جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم وفنون کی تعلیم بھی دی جائے ۔

از قلم : ڈاکٹر غلام زرقانی

سربراہ اعلی : – جامعہ فیض العلوم جمشیدپور ،جھارکھنڈ۔

ghulamzarquani@yahoo.com

17 thoughts on “نصاب میں تبدیلی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *