شہادت بابری مسجد کا مثبت رد عمل
شہادتِ بابری مسجد کا مُثبَت رد عمل
بابری مسجد (أَعَادَهُ اللّٰهُ تَعَالی إِلَينَا مَعَ زيَادَةِ الْعِزِّ وَ الشَّرف) کو جب کافروں نے شہید کر دیا تب مسلمانوں نے بہت احتجاج وغیرہ کیے مگر اس سے جانی اور مالی نقصان کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آیا
اس وقت مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ اس ایک مسجد کے بدلے پورے ملک کے طول و عَرض میں ہزاروں مسجدیں بناتے اور سب کا نام بابری مسجد رکھ کر انھیں آباد کرتے
تو کافر گورنمنٹ وغیرہ کو بھی مسجد سے مسلمانوں کی سچی محبت کا احساس ہو جاتا اور آئندہ کسی مسجد کی شہادت سے پہلے ہزار بار سوچنا پڑتا
در اصل کافروں کو دشمنی تو صرف دین اسلام سے ہے اور ان کی تکلیف مسجد میں گونجنے والی اذان سے ہے چاہے وہ کہیں کی بھی مسجد ہو
اب بھی زیادہ تاخیر نہیں ہوئی ہے بس کرنا یہ ہے کہ جس کے پاس بھی ضرورت سے زائد کوئی جگہ ہے وہ عہد کر لے کہ اپنی اس جگہ میں اللہ عز و جل کی رضا کے لیے مسجد ضرور بنائے گا اور اس کے لیے تیاری کرتا رہے پھر جب میسر ہو خصوصًا بابری مسجد کی شہادت والی تاریخ آئے نہایت تزک و احتشام سے مسجد کی بنیاد ڈالے اور اسے مکمل کرکے آباد کرے
ہمارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا :
جو اللہ کے لیے ایک مسجد بنائے گا اللہ تعالی جنت میں اس کے لیے اسی طرح (ایک گھر) بنائے گا (صحیح مسلم، باب فضل بناء المساجد و الحث علیھا ص٢١٦، ٢١٧، حدیث ١١٩٠)
ام المؤمنين حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں :
اللہ عز و جل کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا ہے (صحیح ابن حبان، ج٤، ص٥١٣، حدیث ١٦٣٤)
مجدد ملت سیِدی اعلی حضرت امام احمد رَضا خان قادِری بریلوی حَنَفی متوفی ١٣٤٠ھ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
ہر شہر میں ایک مسجدِ جامع بنانا واجب ہے اور ہر محلہ میں ایک مسجد بنانے کا حکم ہے (فتاوی رضویہ ج٨ ص٨٨ مسئلہ ١١٣٨)
عــــــزیـــــز مـصبــاحی