مہاراشٹر کا سیاسی بحران اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
از : سید سرفراز احمد ,بھینسہ :: مہاراشٹر کا سیاسی بحران اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
مہاراشٹرا کا سیاسی بحران اُدھر ڈوبے ادھر نکلے اِدھر ڈوبے ادھر نکلے
سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جسمیں یہ کہا نہیں جاسکتا کہ کب کیا ہونے والا ہے کبھی بھی کوئی بھی سیاستداں ہواؤں کی طرح رخ بدل سکتا ہے جسکے بعد صرف یہی کہا جاسکتا ہیکہ ایسے کیسے ہوگیا ؟ کبھی کبھی تو گلی کے سیاستداں کو دہلی کی بھی ہوا کھانے کا موقع مل جاتا ہے پھر دیکھیئے اس سیاستداں کو آسمان میں ہواؤں سے باتیں کرنے کی سوچتا ہے تارے توڑ لانے کی باتیں کرتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اب وہ اپنی من چاہی باتوں سے وفا کرے یا بے وفائی لیکن وعدوں اور دعوؤں میں شیرنی کے ساتھ نمک کی ملاوٹ بھی ضرور کرتا ہے
لیکن اس سے بڑھکر سیاست میں جو سب سے بڑی چیز بطورِ راز پوشیدہ ہے وہ ہے سیاسی چال بازی, سیانے کہتے ہیں کہ سیاست ہی ایک واحد شعبہ ہے جسمیں قدم جمانے کیلئے تعلیم دھن دولت کی نہیں بلکہ چال بازی کی ضرورت ہوتی ہے اتفاق سے وہ سیانے بھی سیاست سے وابستگی رکھتے ہیں خیر اسمیں کوئی تعجب کی بات بھی نہیں ہے کہ وہ جوکہہ رہے ہیں اس کو ہم دیکھ بھی رہے ہیں اور بھارت کی جمہوریت یہ مواقع بھی فراہم کرتی ہیں کہ کبھی بھی کسی بھی حکمران کو گدی سے اتارکر کسی کو بھی اسکی جگہ پر بٹھایا جاسکتا ہے
شاید اسی لیے راحت اندوری نے صحیح کہا تھا جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے موجودہ مہاراشٹرا کا سیاسی بحران بھی کچھ اسی طرح کی بھر پور عکاسی کررہا ہے الٹ پھیر کی گفت و شنید جاری ہے پل پل اعداد و شمار کے قصیدے پڑھے جارہے ہیں چال بازیاں اپنے بامِ عروج پر پہنچ چکی ہیں
سیاسی شعبدہ گری میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانے کی ہر ممکنہ سعی کی جارہی ہے کسی سیاستداں کا دل دماغ سوچھ بوجھ سے عاری ہورہا ہے تو کوئی اسی دل دماغ سے سیاسی منطق کے زریعہ منصوبہ بندی کررہا ہے بہر حال مہاراشٹرا کا سیاسی بحران عوام کو کشمکش میں الجھاکررکھاہے ۔
مہاراشٹرا کی سیاست میں شروع سے ہی بھاجپا کا اہم رول رہا ہے کیوں کہ بھاجپا اور شیوسینا کا ہندوتوائی رشتہ گٹھ بندھن سے بھی مضبوط رہا ہے جو ایک دوسرے کے وفاق سے یا رضامندی سے مہاراشٹرا پر قبضہ جماتے تھے لیکن ہوا یوں کہ ہر بار اقتدار کی گدی پر بھاجپائی چہرہ گدی کا حق دار رہا
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- گھڑا جب پاپ کا بھرتا ہے ایک دن پھوٹ جاتا ہے
لیکن کبھی سینا کو قیادت کا موقع نصیب نہیں ہوا تھا بس سینا کو ہتھیلی میں جنت پر اکتفاء کرنا پڑ رہا تھا اور ایک کہاوت مشہور ہیکہ کوا چلا ہنس کی چال شائد سینا کو یہ سمجھ میں آگیا تھا کہ بھاجپا اسکے ساتھ کیا چال چل رہی ہے
بہر کیف سابقہ میں بھاجپا نے فڈنویس کی قیادت میں پانچ سالہ معیاد مکمل کی تھی جس کے بعد 2020 کے اسمبلی انتخابات میں بھاجپا 106 کی اکثریت پانے کے باوجود شرد پوار کی سیاسی حکمت عملی نے بھاجپا مخالف مہا وکاس اگھاڑی کو تشکیل دیتے ہوۓ ادھو ٹھاکرے کو مہاراشٹرا کے وزیر اعلی کے عہدے تک پہنچایا شرد پوار نے مبہم طریقے سے سینا اور بھاجپا کے 25 سالہ طویل ہندوتوائی رشتہ کو آگے بڑھنے سے روکا اور بھاجپا کو منہ کی کھانی پڑی ۔
ادھو ٹھاکرے کے وزیر اعلی بنتے ہی بھاجپا اپنےسیاسی پینتروں کا استعمال کرنے لگی کیوں کہ بھاجپا کے ساتھ وہ ہوا تھا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ شاید بھاجپا نے اپنے خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا جس کی وجہ سے بھاجپا کا خواب ادھورا رہ گیا کیوں کہ شرد پوار نے دن میں تارے دکھا دیئے
اور یہ ثابت کردکھایا کہ سیاست اور سیاسی دانائی میں بھاجپا ان سے بہت کمسن ہے جسکے بعد سے بھاجپا کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تب ہی سے بھاجپانے سینا کانگریس این سی پی (مہا وکاس اگھاڑی) مخلوط حکومت کو گرانے کا پیچھا کرتی رہی
لیکن ناکام رہی اسی تگ ودو میں نصف معیاد مکمل ہوگئی ۔ بھاجپا کی طاقت سیاسی چال بازیوں سے ذیادہ دولت پر منحصر ہے اسی لیئے وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے دوپیوں کا سہارا لیتی ہے ایسے ہی مہاراشٹرا میں بھاجپا کوایک تو اقتدار کے ہوس کی تڑپ دوسرا مہاراشٹرا میں کھوئی ہوئی ساکھ کو واپس لانے کی کوشش نے مہاراشٹرا کی سیاست میں بھونچال مچا رکھا ہے ا
چانک ہی سینا کے ارکان اسمبلی ایکناتھ شنڈے کی سرپرستی میں راتوں رات گجرات کے شہر سورت پہنچ جاتے ہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو اسکی بھنک تک نہیں لگی آخر خفیہ ایجینسیاں کس کام پر مامور تھیں؟
کیوں وزیر اعلی کو اس بات علم نہیں ہوسکا؟
ایکناتھ شنڈے اور اراکین اسمبلی کو کونسی لالچ نے ممبی سے سورت اور سورت سے گوہاٹی تک پہنچایا؟
یقیناً اگر شنڈے اور ارکان اسمبلی کوپارٹی کے داخلی معاملات پرکچھ ناراضگی ہوتی تو بات چیت کے زریعہ حل کرلیا جاسکتا تھا
لیکن جسطرح سے باغی بنکر رفو چکر ہونا ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر یہ ثابت کررہا ہیکہ یہ صرف دولت کی لالچ نے انھیں باغی بننے پر مجبور کیا ہے شنڈے نے دعوی کیا کہ 40 ارکان اسمبلی میرے ساتھ ہیں سنجے راوت نے دعوی کیا کہ 21 ارکان اسمبلی ہمارے رابطے میں ہے ادھو ٹھاکرے نے یہاں تک کہہ دیا کہ جتنا بھروسہ شرد پوار مجھ پر کرتے ہیں میرے اپنے پارٹی کے لوگ بھی نہیں کرتے
مجھے خود پتہ نہیں چلا کہ میری اپنی پارٹی کے لوگ خفیہ منصوبے بنارہے ہیں انھوں نے تمام ارکان اسمبلی کو واپس آجانے اور وہ خود وزیر اعلی کا عہدہ چھوڑنے کی بھی بات کہی ہے سنجے راوت نے باغی شنڈے و ارکان اسمبلی سے کہا کہ ہم مہا وکاس اگھاڑی چھوڑنے تیار ہیں آپ تمام واپس آجائیں ایسا لگتا ہے کہیں نہ کہیں یہ سیاسی تدبیر بھی شرد پوار کی ہی ہوگی
کیوں کہ وہ جس اعتماد سے کہہ رہے ہیں کہ مہا وکاس اگھاڑی کو کوئی خطرہ نہیں ہے ضرور وہ اسکا حل بھی تلاش کر رکھے ہوں کیونکہ مہاراشٹرا میں ان سیاسی شعبدہ گروں کے درمیان مخلوط حکومت کی نصف معیاد کی تکمیل کرنا بھی جوۓ شیر لانے کے مترادف ہے جسکا سہرا شرد پوار کو ہی جاتا ہے ۔
باغی ایکناتھ شنڈے نے جمعرات کی رات ایک ویڈیو میں دعوی کیا کہ ابھی انکے ساتھ 46 ارکان اسمبلی ہیں اور انھوں نے بھاجپا کے ساتھ جانے کا واضح اشارہ بھی دیا جو اگھاڑی اتحاد کیلئے مشکلیں کھڑی کرسکتا ہے لیکن بھاجپا اپنی نچلی درجہ کی سیاست سے باز نہیں آتی وہ پھوٹ ڈالو حکومت کرو کے فارمولہ پر عمل پیرا رہتی ہے
لیکن اس صورتحال کے بعد سے ادھو نے سبق ضرور حاصل کیا ہوگا کہ سیاست میں کوئی بھی وفادار نہیں ہوتا اس سیاسی بحران کے بعد دوٹوک کہا جاسکتا ہیکہ بھاجپا نے باغی شنڈے کی فوج کو ادھو کے خلاف ورغلانے کا کام ضرور کیا ہے
کیوں کہ ان ڈھائی سالوں میں ادھوسرکار نے جسطرح کاطرز عمل پیش کیا ہے وہ بھاجپا کے منصوبوں کے بالکل مختلیف رہا ہے ادھو نے تمام طبقات کے ساتھ انصاف کی حکمرانی کی ہے تب ہی بھاجپا یہ سب ہضم نہیں کرپارہی ہے لیکن یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہیکہ کسی بھی پارٹی کے ارکان اسمبلی ہو یا ارکان پارلیمنٹ وہ باغی بہت ہی آسانی سے اور جلدی بن جاتے ہیں وہ اپنی پارٹی کو ایک پل میں فراموش کردیتے ہیں ۔
موجودہ مہاراشٹرا کے سیاسی بحران کی یہ بھی ایک شکل ہوسکتی جسکا قابل غور پہلو یہ ہے کہ ملک کی ہر سیکولر پارٹی میں ہندوتوا نظریاتی رکھنے والے کئی کئی چہرے موجود ہیں جنھوں نے سیکولر جماعتوں کو تباہ و برباد کردیا ہے جو سیکولرزم کے نام پر ووٹ تو بٹور لیتے ہیں اور اقتدار تک پہنچ بھی جاتے ہیں پر وقت آنے پر اپنا اصلی چہرہ دکھاتے ہیں
جو بظاہر سفید کھادی کے پوشاک میں نظر آتے ہیں لیکن اندرونی زعفرانی زہنیت رکھتے ہوئے آر ایس آیس کی ایماء پر کام کرتے ہیں سیکولر پارٹیوں کو ایسے افراد سے چوکنا رہنا ہوگا
اورعوام کو بھی ایسے سیاسی لیڈروں کو پہچاننا ہوگا جو سیکولرزم کے نام پر اپنی گدی کی راہ ہموار کرلیتے ہیں جو جمہوریت اور سیکولرزم کو اپنے مفادات کی تکمیل تک ہی رکھتے ہیں جو کبھی بھی مستقل ایک پارٹی کے بن کر نہیں ہوتے بلکہ ادھر سے ادھر دربہ در بھٹکنا ان کا اہم مشغلہ ہوتا ہے وہ بھلا عوام کی کیا خاک خدمت کرسکتے اور نہ ہی ایک اچھے سیاسی قائد کہلا سکتے
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ مہاراشٹرا کے سیاسی بحران کو کون حل کرے گا بھاجپا کا پھوٹ ڈالو حکومت کرو فارمولہ کام کرے گا یا اگھاڑی اتحاد ,یہ توآنے والا وقت طئے کرےگا
لیکن یہ وقت منجھے ہوئے سیاستداں شرد پوار کی سیاسی بصیرت کا بھی امتحان لے رہا ہے ۔
سید سرفراز احمد ,بھینسہ
Pingback: ہندوستانی سماج میں ایک مثالی بستی کا تصور ⋆ ازقلم:-سید سرفراز احمد
Pingback: اسلام میں خدمت خلق مطلوب بھی ہے اور مقصود بھی ⋆ نعیم الدین فیضی برکاتی
Pingback: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ⋆ سید سرفراز احمد