بڑھتی مہنگائی بے روز گاری اور صنعتی اداروں کی زبوں حالی
بڑھتی مہنگائی بے روز گاری اور صنعتی اداروں کی زبوں حالی پر غور و خوض کرنا، یہ بھی ہے کام حکومت مرصع ساز کا
کرونا وائرس کی پیریڈ کے ختم ہوتے ہی ملک کا ہر بہیمانہ معاشیاتِ طرزیات کا فنکار اور مشترکہ ، غیر مشترکہ اداروں، نے جہاں ایک اچھی کارکردگی کی طرف اپنا راستہ تلاش کرنا شروع ہی کیا، حالات زندگی میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں
سفر و حضر کی دشواریوں کا ازالہ ہوا ، ہر ادارے سے وابستہ اداکار نے کچھ نئے موسم کا نیا خواب دیکھنا شروع کیا ، ہر جوان ، بوڑھے ، بچے اپنی امید بہار میں کچھ رمق دمق پیدا کیں ، کسانوں سے لے کر ایئر کنڈیشنگ لوازمات وارنٹی کی معلومات ، رکھنے والے افراد تک ، یہ پیہم مژد رسائی ہو ہی رہی تھی ، کہ آنے والا دن اچھا دن ہے
حالات و اسباب میں سدھار آئیں گے ، معاملات حکومت میں نکھار آئے گا۔ لیکن ان ساری آرزوؤں اور عوامی سہولیات ، اور امور فائدہ عامہ کو پس پشت ڈال کو حکومت نے ان کے ہی کے روز مرہ مستعمل اشیاء خوردنی ، پر ٹیکس تھوپ دیا اور وہ ‘جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے” امیروں کی جاگیروں ، کمپنیوں ، اور وسائل باز یافت پر نہ کوئی ٹیکس عائد اور نا بقیہ قرض حکومت کو واپس مانگنے کی کوئی تدبیر بنائی گئی
بلکہ دن بہ دن ان کو مزید قرض دینے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے ۔ جب کہ خود حکومت ہند دن بہ دن قرض میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق ، 31 مارچ 2021 تک، ہندوستان پر 69.7 بلین ڈالر کا کل کثیر جہتی قرض تھا۔
اور یہ اب بڑھتے ہوئے 620.7 بلین امریکی ڈالر تک پہونچ چکی ہے ۔ لیکن اب بھی زمام اقتدار سنبھالے ہوئے افراد نیند کی خرگوشیاں اور سیاسی چپقلش لینے سے باز نہیں آرہے ہیں ۔
مہنگائی اور بے روزگاری ، آج اس ملک ہندوستان کا سب سے بڑا حساس مسئلہ ہے۔ مہنگائی سے ہر فرد تڑپ رہا ہے اور بے روزگاری نوجوانوں کے خوابوں و خیالات کے ساتھ کھیلواڑ کر رہی ہے ۔
اتنے بڑے قرض کے بوجھ تلے ڈبی ہوئی حکومت کو چاہیئے کہ دیش کے ہر ممکنہ مستعداد معدنیات ، ذرات ، افراد، اور ذرائع ابلاغ و ترسیلات کو بہتر طریقے سے استعمال کرکے اس کے افادات کو اپنی قوم و ملک کے لیے عام کرے لیکن اس کے بر خلاف گھریلوں پیداوار (Domestic items) اشیاء مثلاً ، دودھ ، دہی ، مکھن ، شہد ، لسسی ، پنیر ،اناج ، ماس ، مچھلی ، پر ڈیکس عائد کرکے ایک ، عام شہری کی زندگی دن بہ دن اجیرن بناتی ہوئی چلی جا رہی ہے۔
حتی کہ بینک کی ایک سلیپ سے لیکر ہوٹل کی چہار دیواری تک ، جو معاشی لحاظ سے ہر درمیان شہری کے کام آتی ہے ، ان سبھی ساری چیزوں پر مرکزی حکومت فنانس ایکٹ 1994 کے ذریعے سیکشن 66B کے تحت ، سروس ٹیکس فی الحال 15% کی شرح سے وصول کیا جانا طے پایا ہے۔ جس سے ساری چیزوں کی قیمت میں ایک بار پھر بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔
اور دیش کی بے روزگاری کی شرح میں ، کمی کے کوئی بھی اثرات نظر نہیں آ رہے ہیں ۔ ہندوستان میں بے روزگاری کی وجوہات ، گورنمنٹ کے جاری ایک رپورٹ کے مطابق بڑی آبادی ، پیشہ ورانہ مہارتوں کی کمی ، کام کرنے والی آبادی کی کم تعلیمی سطح۔
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- روزگار کی فراہمی حکومت ناکام
خاص طور پر نوٹ بندی کے بعد نجی سرمایہ کاری میں سست روی کا شکار محنت کش شعبے ، ادارہ جات ، ٹیکنالوجی اور اسکل ڈیویلپر کی کمی ، علاوہ ازیں ملک کی اکثریتی معیشیت زراعت پر منحصر ہے اور آۓ دن کھیتی میں کم پیداوار ہونے کے اسباب ، لیکن اسے بھی زیادہ کہیں مہنگائی اور بے روزگاری کو متاثر قانونی پیچیدگیاں، ناکافی ریاستی معاونت، چھوٹے کاروباروں سے کم انفراسٹرکچر، مالیاتی اور مارکیٹ کے روابط اس طرح کے کاروباری اداروں کو لاگت اور تعمیل کے حد سے زیادہ کے ساتھ ناقابل حکومتی اداروں عمل ، کر رہی ہیں ۔
اور اگر حکومت بے روزگاری اور مہنگائی کے پیچھے اپنی ناکامی چھوپاتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ کم خواندگی ، کم ٹکنالوجی ، اس کی سب سے بڑی وجہ ہے
تو دیش میں روزگاری کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے ، سکولوں اور کالجوں میں فراہم کی جانے والی تعلیم صنعتوں کی موجودہ ضروریات کے مطابق بھی نہیں ہے۔ اور ملک کی بہت بڑی افرادی قوت غیر رسمی شعبے سے وابستہ ہے ۔ آپ اسے مطلوبہ تعلیم یا مہارت کی کمی کہیئے یا کوئی اور وجہ ہے لیکن یہ اعداد و شمار روزگار کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہیں۔ حکومت ہی صرف اور صرف اس معاملے میں جواب طلب نہیں ہے بلکہ وہ رجعت پسند سماجی اصول بھی ہیں جو خواتین کو ملازمت لینے/جاری رکھنے سے روکتے ہیں۔ اور خواتین کا اپنی فن کا مظاہرہ کرنا ، جس کے یہاں معیوب گردانا جاتا ہے ۔
آج انہی ساری وجوہات کی بنا پر ، حکومت کو قرضے کے اضافی بوجھ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ بے روزگار افراد کو سماج دشمن عناصر کی تنقیدات کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے ۔ اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ بے روزگار لوگ منشیات اور شراب کے عادی ہو جاتے ہیں یا خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جس سے ملک کے انسانی وسائل کے لیے کافی نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔
اس شد و مد کے حالت میں حکومت ہند کے لیے بہتر اور مناسب یہی ہے کہ بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات کیے گئے ہیں , جیسے : Training of Rural Youth for Self-Employment, Integrated Rural Development Programme (IRDP), Jawahar Rozgar Yojana (JRY. اور جن صنعتی اداروں کو بنا گیا ہے اس کی مکمل طور سے دھیان دے کر ، صحیح طور سے عمل میں لائیں اور ہر شہری کو اس کے قابلیت کے انو سار اس سے کام لیں ، اور نا قابل چیزوں کو قابل بنانے والی مشینری کی حفاظت کریں ۔
شاہ خالد مصباحی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نیو دہلی