ناموس رسول آواز دے رہا ہے
ناموس رسول آواز دے رہا ہے
اگر آج نبی کے نام پر اپنا سب کچھ داو پر لگانے والے کوئی ہیں تو وہ صرف اور صرف فلسطین کے غیور و جسور مسلمان ہیں۔دین سے گہرے تعلق اور رسول سے حب شدید کا رشتہ ان کا جگ ظاہر ہے۔پچھلے ایک دہائی سے اپنی بربادی جھیلنے والے غازہ کے غیرت مند مسلمان، ادھر سال بھر میں شبانہ روز اپنوں کی لاشوں کے لاشے اٹھا رہے ہیں مگر ان کے ایمان و ایقان میں کہیں بھی تزلزل نہیں دکھا۔جگر پاروں کی ٹکڑے ٹکڑے چن چن کر دفنایا مگر ان کے حوصلے پست نہیں۔ایک آن کے لیے بھی قبلۂ اول سے دست برداری کا خیال بھی کسی فلسطینی کے من میں نہیں بھٹکا۔ہر دن کسی نہ کسی کا اپنا پیارا بم اور بارود کے اٹھتے شعلوں میں گم ہو جاتا ہے مگر واہ رے غازہ کے شیر دل اسلامیان تم نے دنیا کے ہر مسلمان کو غیرت اسلامی کے ساتھ جینا، شہادت کی تڑپ کے ساتھ ڈٹ جانا سکھا دیا۔مگر افسوس کہ ہم یہ درس ایمانی سیکھ کر بھی نہ سیکھ سکے۔
باقی پوری دنیا میں مذہب و مسلک کے نام پر بس بھیڑوں کی ایک بھیڑ ہے جس میں اپنی راہ چننے کی قوت و صلاحیت بالکل بھی نہیں ہوتی۔اپنی کوئی سمجھ شعور اور عقل و ہوش نہیں۔بھیڑوں کا ریوڑ ادھر ہی چل پڑتا ہے جدھر گڈریا ہانک دیتا ہے۔ہماری اوقات تو ان بھیڑوں سے بھی گئی گزری ہے۔ایمان کا ضعف تو پہلے سے ہی تھا۔ اب دلوں میں وہن جیسا مرض پیدا ہو جانا ذلت و رسوائی کو دعوت دینے جیسا ہے۔
ہندوستان کے حالات کتنے خراب ہو گئے ہیں یہ ہر کوئی بھلی بھانتی جانتا ہے۔آئے دن شان رسول میں بد تمیزیاں گستاخیاں کرنا عام ہو گئی ہیں۔اس کا بس ایک سبب ہے کہ دشمنان دین کو معلوم ہے کہ آج کے مسلمان مصلحت بیں ہو گیے ہیں۔ڈرپوک صوفیوں نے جہاد کا مفہوم بدل دیا ہے۔صوفیوں باباؤں نے امن و شانتی کا ایسا پاٹھ پڑھایا ہے کہ اب انہیں لگتا ہے کہ ہر حال میں امن قائم رکھنا بس انہی کی ذمے داری ہے۔یہ ناموس رسالت کے لیے بھی حکمت و مصلحت کا کوئی نہ کوئی بہانہ تراش ہی لیں گے۔یہ عزت رسول کے لیے اٹھیں اب ناممکن ہی لگتا ہے۔یہ فروعی مسائل میں باہم جم کر دنگل کھیلیں گے۔مگر آن رسول کے دفاع و شان محمدی کے تحفظ کی بات آئے تو یہ جلسوں کی بھیڑ میں چیخ پھاڑ کی رسیا قوم دبک کر کہیں بیٹھ جائے گی۔رات بھر ملا و پیر دو شعر سنا کر جنت کا سنز باغ دکھا کر خوش ہو لیں گے۔
غیرت ایمانی مر گئی ہے۔آؤ جنازہ پڑھ لو۔ہم چلتے پھرتے لاش ہیں۔جب حرارت ایمان ہی سرد پڑ گئی ہے تو ایک مومن کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔اس قوم کے سرکردہ افراد ہر بار کی طرح اس بار بھی مصلحت کا کفن اوڑھ کر سو جائیں گے۔کسی پر حکومت کا خوف طاری دکھے گا تو کسی کو پولیس کے ڈنڈے کا ڈر ستا رہا ہوگا۔وہ سارے لوگ جو جلسوں میں خود کو اولاد رسول کے لاحقے سابقے کے ساتھ پروموٹ کروا کر قوم سے من بھر خراج وصولتے ہیں وہ بے حس و حرکت اپنے عشرت کدوں میں مست مگن ہوں گے یا پھر مریدی حلقوں میں اپنے ہاتھ کو غوث کا ہاتھ بتا کر بیعت و ارادت کا جال پھینک رہے ہوں گے۔ان میں سے کسی کو بھی حضور کی گستاخی سے اتنا خاص مطلب نہیں ہوگا۔یقین نہ آئے تو درجن بھر شیخوں پیروں کے نمبر ڈائل کر کے دیکھ لیں وہ کہیں نہ کہیں عوام کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں پھنسائے بیٹھے ملیں گے۔
یقین مانیں! اگر اس بار اس حرام الدہر کو ہم کیفر کردار تک پہنچانے کا کام نہ کر سکے تو پھر گستاخیوں کا سیلاب ہمارے گھروں کے دروازے توڑ کر داخل ہو جائے گا۔یہ طوفان بد تمیزی ہے اگر اسی وقت بند نہ باندھا گیا تو نہ ہم مسلمان کہلانے لائق رہیں گے نہ خدا و رسول کو منہ دکھا پائیں گے۔نہ ہمیں تاریخ معاف کرے گی نہ رسول۔
آج بنام کلمہ ہر گروہ ہر جماعت ہر شعبے کو نکلنا ہوگا۔آج ایک خدا ایک رسول ایک کلمے کے نام پر متحدہ آواز بلند کرنی ہوگی۔آج ملک کے سپریم کورٹ کو اور دنیا بھر کو خصوصا عرب ممالک کے سربراہوں کے کانوں میں یہ بات گھسیڑنی ہوگی کہ تم جس مودی کے لیے ریڈ کارپیٹ بچھاتے ہو، تم جس کے لیے دوستی کی باہیں پھیلاتے ہو، تم جس مودی سے بغل گیر ہو کر خود کو معیاری لیڈر سمجھنے لگتے ہو، تم جس مودی کے کہنے پر اپنی پاک زمین کو مندر کے لیے وقف کر دیتے ہو اسی نے اپنے ملک میں اپنا سامراج بنائے رکھنے کے لیے یہ سارے نفرت کے پجاری ولید بن مغیرہ کے بھائی بہنوں کو پال رکھا ہے۔اسی کی حکومت نے حضور کے خلاف بھونکنے والے کتوں کو بڑھاوا دے رکھا ہے۔کیا تمہارے اندر ذرا بھی کلمے کا پاس نہیں ہے؟ کیا تم اپنی حکومت اور تجارت کے مقتل میں رسول سے وفاداری کے نیک جذبے کو بھینٹ چڑھا چکے ہو؟کیا تمہارے لیے یہ سب نارمل ہے؟ تم آخر کیا ہو؟ تم مسلمان ہی ہو یا یہودی ہو؟ یا پھر ظاہر کو مسلمان اور باطن کو یہودی کر رکھا ہے؟ تم کلیئر کرو نا کہ تم امت کے درد و کلفت میں شامل کیوں نہیں ہو؟ تم فلسطین کے درد و غم میں کیوں شامل نہیں ہو؟
ہند کی زمین ہر لمحے کے ساتھ مسلمانوں کے لیے غیر محفوظ ہوتی جا رہی ہے۔رسول کے خلاف اس سے زیادہ اور ہرزہ سرائی کیا ہوگی۔ہم کتنے بے بس اور نکمے ہیں کہ آئین و قانون کے دائرے میں بھی اپنی بات رکھتے ہوئے خوف کھاتے ہیں۔کیا یہ مسلمانی ہے؟سات ہزار کی فوج سے اندلس کی ڈیڑھ لاکھ افواج کے دانت کھٹے کر دینے والی قوم کے لوگ آج ڈر سے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔اگر ہم رسول کے نام پر متحد نہ ہوئے تو یاد رکھیں ہم اسی طرح ٹکڑوں میں کاٹ دیئے جائیں گے۔
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
مشتاق نوری
۵؍اکتوبر ۲۰۲۴ء