دہلی میں دو طوفان

Spread the love

دہلی میں دو طوفان ودود ساجد (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

30 مئی 2022 کو دہلی میں جو بھیانک طوفان آیا تھا محکمہ موسمیات نے اس کی رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ بتائی ہے۔ سڑکیں بالکل خالی ہوں تب بھی اس رفتار سے نئی دہلی کی کسی بھی سڑک پر وزیر اعظم کے قافلہ کی کاریں بھی نہیں دوڑ سکتیں۔چند لمحوں میں اس طوفان نے بڑی تباہی مچا ڈالی۔نئی دہلی کے وی آئی پی علاقوں میں سو‘سو سال پرانے بھاری بھر کم درخت تک جڑ سمیت اکھڑ گئے۔

جس وقت باہر طوفان آیا میں اندر ایک بڑے سے ہال میں بیٹھا ایک دوسرے ’طوفان‘ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔اس کی رفتار اور تباہی کا اندازہ کرکے روح سہم جاتی ہے۔ مجھ سمیت کوئی 60-70 صحافی وزیر داخلہ امت شاہ کا انتظار کر رہے تھے۔امت شاہ نے ہی اندر آکر بتایا تھا کہ تاخیر سے آنے کی وجہ یہ بھیانک طوفان تھا۔ میں وزیر داخلہ کے آنے سے پہلے جس طوفان کا مشاہدہ کر رہا تھا اس میں وزیر داخلہ کے آنے کے بعد مزید شدت آگئی تھی۔

مجھے جس بڑے سے ہال میں لے جاکر بٹھایا گیا تھا وہ دراصل دہلی میں ’دین دیال اپادھیائے مارگ‘پر واقع بی جے پی کے صدر دفتر کا ہال ہے۔یہاں الیکٹرانک میڈیا کی دنیا کے بڑے بڑے چہرے پہلے سے ہی بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے کچھ ہی دیر پہلے بی جے پی/وزیروں کی پریس کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔ چند ایک سے میرا تعارف کرایا گیا‘ ایک دو نے ہونٹوں پر مسکراہٹ بھی بکھیری۔

مودی حکومت کے آٹھ سال پورے ہونے پرمنعقد ہونے والی اس غیر رسمی ملاقات میں مجھے باصرار بلانے والوں نے بتایا تھا کہ ’اردوایڈیٹر‘ کے طور پر صرف آپ کو بلایا گیا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ایک دو اردو والے بھی کہیں بیٹھے ہوں۔ہاں نیوز 18 کی اردو سروس کے ہیڈ تحسین منور بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے پاس بیٹھے تھے۔میری آنکھوں کی سیدھ میں وزیر داخلہ امت شاہ بیٹھے تھے۔

میرے دائیں‘ بائیں اور پیچھے جتنے بھی صحافی تھے تقریباً سبھی یکساں نظریہ کے حامل نظر آتے تھے۔وزیر داخلہ کے آنے سے پہلے تقریباً سبھی ’شولنگ‘ اور گیان واپی جیسے موضوعات پر بہت دلچسپی‘ سرگرمی اورگرم جوشی سے بات کر رہے تھے۔لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ غیر جانبدار میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں۔میرے سامنے اور وزیر داخلہ کے پیچھے بی جے پی کے کئی کارکن قطار میں کھڑے تھے جن میں تین ترجمان سمبت پاترا‘ سید ظفر اسلام اور شہزاد پونا والا بھی تھے۔

28-29 مئی 2022 کو دہلی سے دور دیوبند میں جمعیت علماء کی مجلس عاملہ کا دو روزہ اجلاس منعقد ہوا تھا۔اس میں جمعیت کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے مسلمانوں کا ’حوصلہ‘ بڑھانے کیلئے دونوں دن’زوردار‘ تقریرکی تھی۔یہ تقریر آج کل مختلف حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔لہذا وزیر داخلہ کے آنے سے پہلے یہاں بھی بعض اینکر اس تقریر کا ذکر کر رہے تھے۔میرے پیچھے بیٹھاہوا ایک ’جوشیلا‘ اینکر بولا: “یہ مدنی کو کیا ہوگیا؟” میرے پاس بیٹھے ہوئے اینکر نے اس طرح تڑپ کر جواب دیا جیسے وہ اسی سوال کا انتظار کر رہا تھا: “یہ تو Extremism (انتہا پسندی) کی طرف جارہا ہے۔”

میرے دائیں طرف والا بولا: “یہ تو ایسا نہیں تھا‘ سنتُلت(متوازن) بولتا تھا۔” چوتھا بولا: “ارے یہ سب اندر سے ایک ہیں‘ یہ کٹرواد (انتہا پسندی) کی طرف لے جارہا ہے مسلمانوں کو۔” پہلے والا بولا: “پھر اب ہوگا کیا؟۔” دوسرا بولا: “مار کاٹ ہوگی۔” حتمی طورپر ایک اینکر بولا: “کچھ نہیں ہوگا‘ یہ سب نورا کشتی ہے‘ جو کچھ بولا ہے سرکارکی مرضی سے بولا ہے۔”

میں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا یہ مہذب انسانوں کی محفل نہیں ہے‘ اچانک وزیر داخلہ بھی نمودار ہوگئے۔میری دلچسپی یہ جاننے میں تھی کہ وزیر داخلہ کے کیا خیالات ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ کچھ صحافی وزیر داخلہ سے گزشتہ آٹھ سال کی حکومت کے دوران امن وامان‘ نظم و نسق‘ داخلی سلامتی‘ بے روزگاری اور دوسرے اہم موضوعات سے متعلق سوالات کریں گے۔اسی دوران وزیر دفاع راجناتھ سنگھ بھی آگئے۔

میرے پیچھے بیٹھی ایک خاتون صحافی وزیر داخلہ سے مخاطب ہوکربولی: “سر!یہ بنگال میں کیا ہورہا ہے؟ میں ابھی وہاں سے لوٹی ہوں۔یہ تو کھلے طورپر ’ہندو ورودھی‘ سرکار ہے۔یہ بھاجپا کے لوگوں کونہیں یہ تو ہندئوں کو مار رہی ہے۔”

 

وزیر داخلہ نے گردن ہلائی۔ میرے قریب بیٹھا ایک صحافی جو دیکھنے میں نسبتاً معقول لگ رہا تھا بولا: “امت بھائی! اب توبی جے پی کے ’کاریالیہ‘ پورے دیش میں کھل گئے ہوں گے؟” جواب آیا ابھی کچھ اضلاع باقی رہ گئے ہیں۔ ایک ’نیم سادھو‘ صحافی نے پوچھا کہ: ” گیان واپی کا کیا ہورہا ہے امت بھائی؟” وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ یہ معاملہ مدعیان اور عدلیہ کے درمیان کا ہے‘ سرکار اس میں کہیں نہیں ہے‘سرکار قانون کے مطابق کام کرے گی۔

صحافی نے لقمہ دیا: “قانون تو 1991 والا ہے۔” (اس کا اشارہ عبادتگاہوں کے تحفظ کے قانون 1991 کی طرف تھا جس کی رو سے کسی بھی عبادتگاہ کی اس صورت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی جو 15 اگست1947 کو تھی)۔۔۔

صحافی نے کہا کہ اس قانون کو آپ ختم کیوں نہیں کردیتے؟ وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ یہ معاملہ بھی عدالت میں ہے‘ ہم اس سلسلہ میں کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

گیان واپی پر امت شاہ کے جواب سے شاید یہ سارے اینکر مطمئن نہیں تھے۔ لہذا ایک دوسرے صحافی نے مورچہ سنبھالا۔بولا: “سر! سارے فساد کی جڑ کانسٹی ٹیوشن کا ’پری ایمبل‘ ہے۔آپ ’ڈیموکریٹک‘ کا لفظ نکال کیوں نہیں دیتے؟”

وزیر داخلہ نے جواب دیا کہ کانسٹی ٹیوشن کے پری ایمبل سے چھیڑ چھاڑ کا کوئی ارادہ نہیں۔ اس صحافی نے دلیل دی: سیکولر شبد (لفظ) تو (1976میں آئین کی 42 ویں ترمیم کے ذریعہ) پارلیمنٹ نے شامل کیا تھا‘ اسے تو آپ (ختم) کرہی سکتے ہیں؟۔ وزیر داخلہ نے پھر زور دے کر کہا کہ ہم اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے۔

امت شاہ کا یہ بیان بہت اہم تھا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ نام نہاد ’قومی میڈیا‘ اس بیان کو اہمیت نہیں دے گا۔ اگلے روز یہ بیان صرف ’انقلاب‘ کی پہلی خبر تھا۔

میں بغور جائزہ لے رہا تھا کہ کیا بی جے پی والے خود کچھ کم ہیں جو میڈیا والے انہیں برافروختہ اور مشتعل کر رہے ہیں۔اوپر سے وزیر داخلہ جیسا لیڈر‘ جس نے سی اے اے اور این آر سی جیسے جارحانہ موضوعات کو چھیڑ کر پورے ملک میں اضطراب پھیلادیا تھا۔’ مدعی سست اور گواہ چست‘ والی مثال یہاں پوری طرح صادق آتی ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جب مرکز میں بی جے پی نے عنان حکومت سنبھالی اور شرپسندوں نے سر اٹھایا تو لال کرشن اڈوانی جیسے لیڈر بھی بعض حلقوں کو ’اچھے‘ لگنے لگے تھے۔30 مئی کی اس شام مجھے بھی میڈیا کا یہ زہرآلود چہرہ دیکھ کر امت شاہ ’اچھے‘ لگنے لگے۔

میں سوچ رہا تھا کہ کیا مجھے غلطی سے بلالیا گیا۔سارے وہی چہرے تھے جو ہر روز چینلوں پر مسلم بحث کاروں کو ذلیل ورسوا کرتے ہیں۔دوتین تو ایسے لگ رہے تھے جیسے انہیں کچھ بڑی اندرونی موذی بیماریوں نے گھیر رکھا ہو۔ابھی میں کسی نتیجہ پر پہنچتا کہ وزیر داخلہ سے معمولی فاصلہ پر بیٹھے ہوئے ایک صحافی نے ایک غیر متوقع سوال کرڈالا۔اس نے ملک میں جاری ماحول کے تناظر میں پوچھا تھا کہ ’’ مسلمانوں کے خلاف اتنا زہریلا ماحول بنایا جارہا ہے‘ آخر اس سے نپٹنے کیلئے حکومت کیا کر رہی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ وزیر داخلہ کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا۔وہ اس کی جرح کے آگے خاموش ہوگئے۔اس اکیلے باہمت صحافی کو سلام۔ مجھے اس کانام اتل اگروال بتایا گیا تھا۔

اس کا سوال ختم ہوتے ہی سارے چہرے اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔ اچانک ایک سوال آیا: “سر! دیکھئے نا۔ ہم کچھ بولتے ہیں تو ہمارے خلاف ایف آئی آر ہوجاتی ہے۔آپ کچھ کیجئے ناسر!” اس نے جیسے ہی یہ سوال کیا میں نے امیش دیوگن‘ سدھیر چودھری اور امن چوپڑا جیسے اینکروں کی طرف دیکھا جو میری بائیں جانب بیٹھے تھے۔ان کے خلاف مختلف معاملات میں مختلف مقامات پر ایف آئی آر درج ہیں۔امیش دیوگن کو حضرت خواجہ اجمیری کی شان میں گستاخی کے مقدمہ کا سامنا ہے۔امن چوپڑا کو راجستھان میں ایک مندر کے انہدام کی خبر کو غلط رخ پر پیش کرنے کا الزام ہے۔حال ہی میں دہلی ہائی کورٹ نے امن چوپڑا کو راجستھان پولیس کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

صحافی کا یہ سوال ایسا تھا کہ سب کی توجہ وزیر داخلہ پر مرکوز ہوگئی۔سارے اینکروں نے اپنے آگے رکھی ’ڈوسے‘ کی تھالی سے ہاتھ اٹھالیا اور ہمہ تن گوش ہوگئے لیکن وزیر داخلہ نے جو جواب دیا اس نے ان سب کے چہروں کا رنگ چھین لیا۔ امت شاہ نے کہا: “دیکھنا پڑے گا‘اگر کچھ قانون کے خلاف بولا ہے تو ایف آئی آر ٹھیک ہے۔میڈیا کی بھی حدود طے ہیں۔میڈیا کو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔”

انہوں نے ان جملوں کو مختلف انداز میں دو بار دوہرایا۔یہی وہ وقت تھا جب کچھ ’گستاخوں‘ کا چہرہ دیکھنے کے لایق تھا۔اس کے بعد یہ محفل برخاست ہوگئی اور ہر روز زہر اگلنے والے اینکر ایک ایک کرکے اٹھنے لگے۔وزیر داخلہ نے اینکر’سمت اوستھی‘ اور دیپک چورسیا کی طرف دیکھا‘ وہ بھی ہاتھ جوڑ کر یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ سر چھ بج گئے ہیں۔ میں نے زندگی بھر سیاستدانوں اور وزراء سے نہ اتنی بے تکلفی برتی کہ انہیں’امت بھائی‘ پکارنے لگوں اور نہ اتنی مرعوبیت کا شکار ہوا کہ انہیں سر کہہ کر پکارنا پڑے۔اگلے دن کے اخبارات بھی دیکھے اور اسی رات کے چینل پروگرام بھی‘ کہیں بھی وزیر داخلہ کا یہ بیان نہیں ملاکہ’میڈیا کی بھی حدود طے ہیں۔میڈیا کو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔

بہت دنوں کے بعد ایسے جوشیلے اینکروں کو ایک ساتھ دیکھا تھا۔ میں راستہ بھر سوچتا رہا کہ جن اینکروں کی ذہنیت کا یہ حال ہے اور جن کے افکار اتنے زہر یلے ہیں ان کے شو میں ہر شام ہمارے مسلم چہرے کس طرح جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ایسے صحافی جو وزیر داخلہ کو اس ملک کا سیکولر کردار ختم کرنے اورعبادتگاہوں کے تحفظ کے قانون کو کالعدم کرنے کا مشورہ دیتے ہوں اورجن کے دماغوں میں اسلام اور مسلم دشمنی کا زہر بھرا ہوا ہو‘ وہ اپنے پروگراموں میں ان مسلم نمائندوں اور اسلامی اسکالروں کو معقول بات کہنے دیں گے؟

اپنے تین دہائیوں سے زیادہ کے صحافتی سفر میں جو تبدیلی اس ملک کے قومی میڈیا میں آج دیکھ رہا ہوں وہ 30 مئی کو دہلی میں آنے والے قدرتی طوفان سے کم خطرناک نہیں ہے۔ کیا ان چینلوں پر جاتے رہنے کی ضد کرنے والے مسلم دانشوروں اور ’اسلامی اسکالروں‘ کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے؟ اب تو اللہ کے رسول اورامہات المومنین کی شان میں گستاخیاں ہونے لگی ہیں۔۔ اور یہ اسلام کے نمائندے اب بھی ان شیطانوں کے سامنے زانوئے ادب طے کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔۔

مجھے نہیں معلوم کہ ‘ اینکروں کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے باوجود ان چینل مافیائوں کا ان چینلوں سے کیا مفاد وابستہ ہے۔ لیکن ان کے منہ کو ’ڈبیٹ‘کا ذائقہ لگ چکا ہے۔وہ جانا نہیں چھوڑیں گے اور جانے کی ہزار تاویلیں پیش کریں گے۔ لیکن آپ بھی ان چینلوں کی ٹی آر پی میں فروغ کا سبب بن رہے ہیں۔ آپ تو اپنے حصہ کا کام کرسکتے ہیں۔آپ ان چینلوں کو دیکھنا چھوڑدیں۔

مجھے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے تازہ بیان پر یقین یا شبہ کرنے کی عجلت نہیں ہے۔لیکن کیا ان کے بیان کی روشنی میں ان سے مذاکرات کے بارے میں نہیں سوچا جاسکتا؟

مجھے اندیشہ ہے کہ جو نظریہ اس ملک کے تمام سرکاری اداروں کے ’رگ وپا‘ میں پیوست کردیا گیا ہے اورحکومت چلانے والے نظام کو جس طرز پر ڈھال دیا گیا ہے ہماری اگلی نسلیں اس کی حساسیت سے نابلد ہوکر ان ’نظریہ سازوں‘ سے بخوشی سمجھوتہ کرلیں گی۔کیا ہمارے ’بڑے‘ اب بھی متحد ہوکر کوئی بصیرت آمیز قدم اٹھانے کے ’موڈ‘ میں نہیں ہیں؟۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *