گھڑا جب پاپ کا بھرتا ہے ایک دن پھوٹ جاتا ہے
از قلم : سید سرفراز احمد ,بھینسہ گھڑا جب پاپ کا بھرتا ہے ایک دن پھوٹ جاتا ہے
اقتدار کی مسند پر بیٹھے حکمرانوں کا سب سے اہم کام ہوتا ہے ہ وہ اپنی رعایا کو خوشحال رکھے انکے مسائل حل کرے ان کی پریشانیوں کو دور کرے تمام مذاہب کو یکساں دیکھے جمہوری حق کی آزادی دیں یہی تو جمہوریت کی خوب صورتی ہے
لیکن یہ سب اوراق تک محدود ہوگۓ ہیں اقتدار کے نشہ میں چور حکمران یہ سب بھول جاتے ہیں کہ انکا اصل کام کیا ہے
بس اپنی تانا شاہی کے زریعہ عوام کو ہراساں کرنا مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھانا ظلم و ستم کےزریعہ انتقام لینا قانون کو برہنہ کرکے اس کے وقار کو مجروح کرنا یہ سب ایک جمہوری ملک میں ہونا جمہوریت کا مذاق بنانے کے مترادف ہے
لیکن یہ مذاق ہمارے بھارت میں ہر روز کا معمول بن چکا ہے آئین کو بے حس طریقہ سے کچلا جارہا ہے نا انصافی کو تو پیروں تلے روندا جارہا ہےلیکن یہی حکمران جنھیں عوام نے منتخب کرتے ہوۓ تخت تک پہنچایاتھا وہی آج عوام سے فریب کررہے ہیں اقتدار کی طاقت کا ناجائز استعمال کررہے ہیں لیکن انھیں اسی جمہوریت کی وہ خوبی کوبھی یادرکھنا ہوگا کہ جس جمہوریت نے انھیں صاحب مسند بنایا ہے وہی جمہوریت اسی مسند سے ہٹانے کا بھی کام کرسکتی ہے۔یوگی سرکار یوپی میں جمہوری سرکار نہیں ہے بلکہ من مانی سرکار چلارہی ہے جو بھارت جیسے اتنے بڑے جمہوری ملک کیلئے ایک سیاہ داغ کی مانند ہے
یوپی میں اسمبلی انتخابات سے قبل بھی یوگی نے جس طرح یکطرفہ طور پر بلڈوزر کی کاروائی کی اور مکانات کو ڈھا دیا گیا انھوں نے ظلم کی حد پارکردی تھی لیکن یہ سلسلہ تھما نہیں انہی کے نقش قدم پر مدھیہ پردیش ریاست نے بلڈوزری دکھائی پھر دہلی کے جہانگیر پوری میں غریبوں کی بستی کو اجاڑ دیا گیا
پھر ابھی پریاگ راج کے جاوید محمد کو تشدد کی آڑ میں گھیرتے ہوۓ 12/جون بروز اتوار کو انکے عالی شان مکان کو ایک جھٹکہ میں سپاٹ کردیا یہ وہی جاوید ہے جنکا جرم یہ ہیکہ انھوں نے پریاگ راج میں گستاخ رسول کے ہورہے احتجاج میں عوام کو پر امن رہنے کی سوشیل میڈیا پر ہدایت دیتے رہے
منظم اور قانونی دائرے میں احتجاج درج کروانے کی اپیل کرتے رہے صبر وتحمل کا مظاہرہ کرنے کی مسلمانوں سے درخواست کرتے رہے لیکن یوگی سرکار کو یہ جرائم سے بھی بڑھکر نظر آرہے تھے تب ہی انھیں تشدد کا ماسٹر مائنڈ قرار دے کر ناجائز الزامات لگاکر گرفتار کرلیا جاتا ہے اور انکے مکان پر غیرقانونی بلڈوزر کی طاقت آزمائی جاتی ہے ۔
یہ دراصل یوگی سرکار کی انتقامی کاروائی ہے کیونکہ جاوید محمد کی دخترفرحین فاطمہ جوجے این یو کی سابقہ طالبہ ہے جس نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑھ چڑھکر حصہ لیا تھا جو جرات اور حوصلوں کی اعلی صفات سے متصف ہے جنکا کوئی کام قانون کے مغائر نہ رہا
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
حالاں کہ شریعت ترمیمی قانون کا احتجاج جو نہ غیر قانونی تھا نہ آئین کے مخالف تب ہی جب سے لے کر آج تک یوگی سرکار فرحین فاطمہ کے خلاف کچھ نہیں کرسکی لیکن اب جیسے ہی پریاگ راج کا تشدد برپا ہوتا ہے تویوگی سرکار نے گرم لوہے کا موقع پاکر ہتھوڑا مارنے کا کام کردیا ہے اور پریاگ راج تشدد کے بہانے باپ کو گھسیٹتے ہوۓ بیٹی فاطمہ کا انتقام لے لیاجارہا ہے تاکہ ان پر غیر قانونی طریقہ سے قانونی کاروائیاں کی جاسکے
حالاں کہ یوگی سرکار تشدد برپا کرنے والوں کی نشاندہی کرنا چھوڑ کر معصوموں کو گھسیٹ رہی ہے جنھیں ذہنی دماغی ازتیں دیکر اپنا خوف انکے اور اقلیتوں کے اندر سرائیت کرنا چاہتی ہے تاکہ انھیں دیکھکر کسی اور کی سرکار کے مخالف آواز اٹھنے کی مجال بھی نہ ہو جو جمہوری حق کو چھین نے کی کوشش ہے ۔
کیا اگرحکومتیں اگر اس طرح کی کاروائی کریں گی تو پھر عدلیہ کے تصور کو کیوں برقرار رکھا جاہا ہے؟
کیوں ملک کی عدالتیں حکومتوں کو اپنے شکنجہ میں نہیں رکھنا چاہتی؟اتنی کھلی آزادی حکومتوں کو آخر کیوں دی جارہی ہے؟اگر ایسے ہی عدلیہ انھیں کھلے عام چھوڑ تے رہے گی تو یہ ایک پل میں جو دل چاہے وہ کرلیں گے لیکن ایسے میں کچھ سابقہ چیف جسٹس جسمیں سپرم کورٹ اور مختلیف ریاستوں کے ججس و وکلاء شامل ہے ان تمام نے آواز اٹھاکر یہ ثابت کر دکھایا کہ انصاف پسند افراد اس ملک میں آج بھی موجود ہیں
جنھوں نے ایسے معاملات پر سپرم کورٹ کو پہل کرنے اور از خود نوٹس لینے کی درخواست کی لیکن سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ کیا اب عدلیہ کو بھی یاد دہانی کرانی ہوگی؟کیوں عدلیہ ایسے ظلم وبربریت کے خلاف سختی نہیں کررہی ہے ؟
کیا واقعی قانون اندھا اور انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہے اگر کوئی مجرم بھی ثابت ہوچکا ہے تب بھی سرکاریں جمہوری ملک میں تھوڑا ہی سزا دی سکتی ہیں اگر ایسا ہے تو یہ حق عوام کو بھی دے دیا جاۓ عدلیہ کے نظام کو برخواست کردیا جائے جو حکومتیں خود کہتی ہیں کہ قانون کو کوئی ہاتھ میں نہیں لے سکتا
اگر کوئی قانون ہاتھ میں لے گا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجاجائے گا حالانکہ جو بول رہے ہیں وہ خود اس پر عمل پیرا نہیں ہےتو عوام پر گرفت کیوں کی جارہی ہے اگر عوام پر سرکار کاروائی کرے گی تو مجرم سرکار کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کون بھیجے گا؟ اس طرح سے حکومتیں اگر مجرمین کو معصوموں کوسزا دیں گی اور ظالموں کی
پشت پناہی کریں گی تو وہ ملک کو جمہوری ملک کس حیثیت سے کہا جاۓ گا ؟ ۔میرا تو ماننا ہیکہ آنے والی نسلوں کو آج کے دور کے مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ذیادتی بلڈوزری طاقت کی بناء پر گھروں کو انہدام کرنا سیاسی طاقت کی بل پر معصوموں کو ہراساں کرنا ان سب سے واقفیت کروانا چاہیے اور وہ انصاف پسند مورخین ایسے ظلم کو رقم کرتے جائیں
اوروہ سیکولر حکمران جو انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنا چاہتے ہوں وہ اس دور کوتعلیم کے تاریخی نصاب میں شامل کریں تاکہ آنے والی نسلیں اس باب کا بغور مطالعہ کریں اور سچائی کو جان سکیں
جس انسان کے نزدیک ایک خاندان کا تصور ہی نہ ہو جس کو کبھی اہل وعیال کی محبت ہی نصیب نہ ہوئی ہو وہ بھلا ایک بیوی بیٹا بیٹی اور ایک باپ ہونےکا درد اور تکلیف کوکیسے سمجھ سکتا ہے غفلت کی چادر اوڑھے حکمرانوں کو اس بات کا علم نہیں کہ جب کسی مظلوم کی بددعا دل سے نکلتی ہے تو وہ آسمان کو چیرتے پھاڑتے
اس حقیقی خدا تک پہنچ جاتی ہے اور جب پاپ کا گھڑا بھرتے بھرتے ڈھل کرآتا ہے تو ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ وہ پھوٹ بھی جاتا ہے پھر جب اسکی لاٹھی چلنا شروع ہوجائے گی تو کوئی اسے روک بھی نہیں سکتا ۔
مشہور و معروف شاعرہ لتا حیاء کےان اشعار کے ذریعہ یہی پیغام دینا چاہتاہوں
تم آئینہ ہو اور میں پتھر سہی مانا
نہ کیول آئینہ پھتر بھی اکثر ٹوٹ جاتا ہے
ستالو تم شریفوں کو مگر اتنا بھی مت بھولو
گھڑا جب پاپ کا بھرتا ہے ایک دن پھوٹ جاتا ہے
سید سرفراز احمد ,بھینسہ
Pingback: مہاراشٹر کا سیاسی بحران اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ⋆ سید سرفراز احمد
Pingback: اس نا خدا کے ظلم و ستم ⋆ اردو دنیا سید سرفراز احمد
Pingback: ہندوستانی سماج میں ایک مثالی بستی کا تصور ⋆ ازقلم:-سید سرفراز احمد
Pingback: اسلام میں خدمت خلق مطلوب بھی ہے اور مقصود بھی ⋆ نعیم الدین فیضی برکاتی
Pingback: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ⋆ اردو دنیا