تاریخی مقامات کی حفاظت حکومت ہند کرے
تحریر : افتخاراحمدقادری برکاتی :: تاریخی مقامات کی حفاظت حکومت ہند کرے
تاریخی مقامات کی حفاظت حکومت ہند کرے
معزز قارئین!فرقہ پرست طاقتوں اور آر ایس ایس ذہنیت رکھنے والوں کی نظروں سے مدارسِ اسلامیہ،مساجد،خانقاہوں ان مقدس مقامات کی اہمیت کس طرح اوجھل ہو سکتی ہے کہ جہاں سے علم کے چشمیں پھوٹتے ہیں-اسلامی تحریکات واحیاء دین کے شعور کو بیدار کیا جاتا ہے- عام مسلمان دینی وعصری تعلیم کی طرف راغب ہوتا ہے۔
جہاں ان میں نئی روح پھونکی جاتی ہے-یہیں سے دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں پورے آب و تاب کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیتی ہیں-یہیں سے عزم وحوصلہ میسر آتا ہے-کہ کس طرح زراعت وحرفت، صنعت وتجارت کی طرف پیش قدمی کریں اور اس میں درپیش مسائل سے عہد بر آ ہونے کی ہمت و خوداعتمادی انہیں تعلیمی اداروں مدارسِ اسلامیہ، مساجد و خانقاہوں سے ملتی ہے -اور یہیں قائد و رہنما پیدا ہوتے ہیں- جو پوری ملتِ اسلامیہ کا رخ احکام شرعیہ کے مطابق متعین کرتے ہیں-لہٰذا ضروری ہوجاتا ہے کہ ان پر روک لگا کر مسلمانوں کو مزید مفلوج ومعزور کیا جائے-اب فرقہ پرست طاقتوں نے ان مقامات پر اپنے ناپاک خیالات کا اظہار کردیا ہے کہ جن مقدس مقامات کے بارے میں مسلمانوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا-ابھی تک تو ان کی نگاہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ مساجد پر لگی تھیں- مگر اب بات مساجد سے نکل کر مقدس خانقاہوں تک آن پہنچی ہے اب سلطان الہند حضرتِ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ الله تعالیٰ علیہ کے آستانے پر بھی انہیں اپنے معبودانِ باطل نظر آنے لگے جب کہ یہ بالکل بے سروپا بات ہیں حقیقت کا اس سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ! اس ضمن میں ہندوستان کی آزادی کے سات سال بعد جیسے ہی ان فرقہ پرست طاقتوں کو موقع ملا 1954/ عیسوی میں سب سے پہلے راجستھان میں مساجد و مدارس کی تعمیر نو پر ایک بل پاس کرکے پابندی عائد کردی گئی تھی- چوں کہ اس وقت مفلوک الحالی کا دور تھا اس وقت مسلمان ہر لحاظ سے بچھڑے ہوئے تھے اس لیے اس وقت اُنہوں نے اس بل کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھائی لیکن کسی نہ کسی احتجاجی کاروائی کی بناپر 1998/ عیسوی میں کچھ ترمیمات کے ساتھ اس بل میں نرمی لائی گئی۔
اس کے بعد دھابہ بولا گیا صوبہ مدھ پردیش میں اور 1984/عیسوی میں یہی قصہ دہرایا گیا-لیکن ان دونوں صوبوں میں مسلمانوں نے کچھ زیادہ احتجاج نہیں کیا تھا-فرقہ پرست طاقتوں نے اپنے اسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے ہندوستان کی سب سے بڑی آبای والے صوبہ اتر پردیش جہاں اس وقت انہیں کی سرکار،انہیں کا وزیر اعلیٰ،انہیں کا گورنر اور انہیں کی حکومت تھی یہاں بھی اسی طرح کا بل پیش کرکے منظور کرالیا گیا-یہ ایک ایسی خبر تھی کہ یوپی مذہبی عمارات ومقامات ریگولیٹری بل 2000/عیسوی کو مرکزی حکومت ہری جھنڈی دکھانے جارہی تھی۔
اس خبر کے مطابق ایک ماہ کی لمبی چھان بین کے بعد اس متنازعہ بل کی حمایت میں مبینہ پختہ حقائق اور ناقابلِ تردید جوازوں کا پلندہ وزیراعظم کے دفتر کو ارسال کردیا گیا تھا-جہاں سے اسے ایوان صدر بھیجنے کی تیاری کی گئی پھر خبر کے مطابق اپنے جواب میں حکومت نے اسی نوعیت کے مدھ پردیش اور راجستھان میں جاری قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں اس پر کبھی کسی عدالت یا قانون ساز نے اعتراض نہیں کیا۔
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
اس وقت اس متنازعہ بل کو یوپی اسمبلی میں پاس ہونے کے بعد گورنر کے پاس بھیجا گیا تھا-جس نے اسے صدر جمہوریہ ہند کے پاس بھیج دیا تھا بعد میں صدر جمہوریہ نے صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے تبصرے کے ساتھ اسے مرکزی سرکار کو کچھ وضاحتوں کے لئے بھیج دیا تھا-پھر وزیراعظم کے دفتر سے یہ بل وزارتِ داخلہ کو بھیجا گیا تھا- اس وقت کے وزیرِ داخلہ لال کرشن ایڈوانی نے کئی مرتبہ یہ الزام لگایا کہ نیپال سے ملی ہوئی ہندوستان کی سرحد پر جو اسلامی مدارس ہیں انہیں آئی،ایس،آئی اپنے اڈے کے طور پر استعمال کررہی ہے۔
اس وقت آئینی صورت حال یہ تھی کہ صدر جمہوریہ اس بل پر دستخط کرنے کے پابند ہوچکے تھے اور پھر ان کے دستخط ہوتے ہی اس بل نے قانونی شکل اختیار کر لی جیسا کہ اس وقت خدشات ظاہر ہو رہے تھے کہ اسی قانون کو آڑے لے کر آنےوالے وقت میں حکومت نہ صرف دینی مدارس و مساجد بلکہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی مقدس مقامات اور ان کے اعمال و افعال کو بھی اس قانون کے ذریعے محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔
اور جبرا اپنا قبضہ جمائے گی-اس بل کے نفاذ کے بعد نہ کسی مذہب کی عمارت کی تعمیر بغیر اجازت کے ممکن ہوگی- اور نہ کسی پرانی مذہبی مقامات خواہ وہ مسجد ہو یا مدرسہ یا خانقاہ اس کی مرمت یا ضروری توسیع ترمیم کی جاسکے گی۔
لیکن فرقہ پرست طاقتوں اور آر ایس ایس ذہنیت رکھنے والوں کو اس بات کا شدت سے احساس ہورہا ہے کہ شاید اب ان یہ پانسا الٹا پڑگیا ہے۔
اور برسوں سے لگائی ہوئی محنت جو انہوں نے مسلمانوں کو ہر طبقہ سے کمزور و مفلوج بنانے میں لگادی تھی رائیگاں ہوتی نظر آ رہی ہے، ویسے تو یہ فرقہ پرست طاقتیں کئی تاریخی مساجد پر اپنا دھابہ بول چکی ہیں-جو ہندوستان جیسے جمہوری ملک کے شایانِ شان نہیں۔
اس وقت جب یہ متنازعہ بل پاس ہوا تھا تو ایک بات قابلِ غور تھی وہ یہ کہ اس متنازعہ بل کے احتجاج کے موقع پر مسلم جماعتوں کا جو اتحاد و اتفاق نظر آیا وہ واقعی قابلِ دید تھا۔
اس وقت ہر مسلک اور ہر فرقہ کے لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے اس متنازعہ بل کے خلاف احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن موجوہ وقت میں سب سے بڑی کمی ہمارا آپس میں متحد نہ ہونا ہے- اگر آج بھی ہم متحد ہو جائیں تو محنت رنگ لاسکتی ہے کیوں کہ اجتماعیت میں بڑی قوت ہے۔
اتحاد سارے امراض کی شفا ہے اور اگر کہیں اسی بہانے مسلمانوں کو کوئی قائد و رہنما میسر آگیا تو ان فرقہ پرستوں کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا پھر ان میں اتنی ہمت نہیں کہ کسی مسجد کے آگے تلوار طمنچہ لے کر بھیڑوں کی طرح گودے، پھر ان میں اتنی سکت کہا رہ جائے گی کہ یہ کسی مسجد کی مینار پر چڑھ کر اپنا بھگوا پرچم لگا کر فرقہ وارانہ فساد کراسکیں- یا کسی مسجد کی سروے کی مانگ کرسکیں۔
ان سب حرکتوں کو دیکھ کر ہندوستان کے امن و قانون کی بنیادیں لرز اٹھی ہیں اور جذبات کے طوفان میں ہوش وہواس اور فہم وفراست انسانیت دوستی کی بہت سی قدریں تنکے کی طرح بکھرتی اور ہوا میں ہر طرف اڑتی نظر آرہی ہیں- اس ہنگامی حالات کا فائدہ اٹھا کر کچھہ فرقہ پرست لوگ لاک قلعہ،قطب مینار،اور تاج محل کو اپنے عہد غلامی کی یادگار سمجھ کر انہیں نیست و نابود کر ڈالنے کے درپے ہیں-کوئی بعید نہیں کہ ان کا اگلا نشانہ سپریم کورٹ،پارلیمنٹ،اور پریزیڈنٹ ہاؤس کی عظیم الشان عمارتیں ہوسکتی ہیں۔
حکومت ہند سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ دستورِ قانون کی بالادستی اور امن وامان کی بحالی کے لئے ہر ممکن قدم اٹھاکر ہندوستان کی عالم گیر بدنامی اور اس کی پیشانی پر بد نما داغ کو لگنے سے بچانے کی کوشش کرے- کیونکہ فرقہ پرست طاقتوں کی قانون شکنی وسرکشی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ملک سے انتظام و قانون کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے-اگر حکومت ان فرقہ پرست طاقتوں کے آگے جھک گئی اور قانون کا مذاق اڑانے والوں کو لگام نہیں دی گئی تو لاقانونیت کی یہ آگ تاج محل،لال قلعہ،گیان واپی مسجد،متھرا کی عید گاہ تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ پارلیمنٹ کا وقار بھی خاکستر ہو سکتا ہے۔
اگرصبر و تحمل کے لحاظ سے مسلمانوں کے کردار کا جائزہ لیا جائےتو آب زر سے لکھے جانےکےقابل ہے مسلمانوں نے انتہائی صبر و تحمل سے ہمیشہ صرف حکومتوں کے حفاظتی اقدامات کا انتظار کیا ہے- قانون اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے طور پر اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا- اور ہمیں یقین ہے کہ ان نازک ترین اور انتہائی اشتعال انگیز حالات میں بھی مسلمان اپنے صبر و تحمل اور بصیرت و فراست ایمانی کی روایت کو برقرار رکھیں گے- اگر حالات بہت زیادہ مجبور کر دیں تو اپنے جذبہ بے اختیار کی تسکین کے لئے حکومت وقت کے خلاف صف آرا ہوں- اور اپنے احتجاج و مظاہرہ کا رخ صرف اسمبلی وپارلیمنٹ تک محدود رکھیں-
اور دستوری وقانونی جد وجہد تیز تر کردیں- ویسے ہمیں یقین ہے کہ خداوند قدوس کی خفیہ تدبیریں اپنے گھر کی حفاظت کے لیے ضرور حرکت میں آئیں گی- اور ہیمں صرف اسی کا سہارہ ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں اور شر پسند عناصر کے لوگ ان مساجد کا وجود ختم کرکے مندر کی تعمیر کے لئے کمر بستہ ہیں- اس کام کو کرنے کے لیے انہوں نے اپنی پوری طاقت داؤ پر لگا دی ہے۔
یہ لوگ ہندوستان کے دستور وآئین اور اس کے سیکولرزم کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دینا چاہتے ہیں-اس سے پہلے جو کچھ ہوا وہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے،لیکن اب مرکزی حکومت کو چاہئے کہ بلاوقت ضائع کرے یوپی کی بھاجپا حکومت کو لگام دے کہ وہ ان فرقہ پرستوں کو اس حرکت سے باز آنے کی تنبیہ کرے-اور یہ طاقتیں سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کریں- اسی طرح وشو ہندو پردیشد کو بھی اس کا پابند بنائے کہ کہ وہ کسی متنازعہ زمین پر کوئی ناجائز تعمیر نہ شروع کرے-ساتھ ہی ان مساجد کے تحفظ کے لیے ضرورت کے مطابق مرکزی فورس تعینات کرکے ان پاک مقدس مقامات کی حفاظت حکومت ہند کرے۔
آخیر میں سبھی انصاف پسند اور سیکولر پارٹیوں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ملک کے اتحاد و سالمیت کے پیشِ نظر اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کو بالائے طاق رکھ کر جرآت کے ساتھ میدان میں آئیں اور فرقہ پرست طاقتوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب کا مل جل کر مقابلہ کریں- ورنہ اس نازک موقع پر شرپسند لیڈروں کو اگر کھلی چھوٹ دے دی گئی تو اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا – اور آنے والی نسلیں ان کی اس کوتاہی اور غلطی کو کبھی معاف نہیںکرے گی۔
تحریر : افتخاراحمدقادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اترپردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com