نفرت کے سرغنہ
نفرت کے سرغنہ
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
از قلم : ودود ساجد
پچھلے ہفتہ دو تین خبریں بڑی اہم تھیں۔لیکن کسی ایک پر بھی لکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔موضوع سے متعلق مواد پڑھے بغیر لکھا جا سکتا تھا مگر میں اس کا عادی نہیں ہوں۔ لہذا دوسری غیر معمولی مصروفیات کے سبب پچھلے ہفتہ کا مضمون نہ لکھ سکا۔
22 ستمبر کو سپریم کورٹ کے ایک جری جج‘ جسٹس کے ایم جوزف کی دو رکنی بنچ نے ملک میں نفرت انگیز بیانات کیلئے چینلوں کو ’سب سے بڑا ذریعہ‘ قرار دیا۔اس سے ایک دن پہلے یعنی 21 ستمبر کو ملک کی پانچ نامور شخصیات نے آر ایس ایس کے سربراہ سے اپنی ایک مہینہ پرانی ’ملاقات‘ کو افشا کیا تھا۔
جس روز سپریم کورٹ نے مذکورہ تبصرہ کیا اسی روز آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے دہلی کی ایک مسجد اور مدرسہ کا دورہ کیا۔اسی روز ملک بھر میں ایک تنظیم کے دفاتر اور دوسرے ٹھکانوں پر چھاپوں اور گرفتاریوں کی خبر بھی آئی۔
28ستمبرکی صبح شاید سورج طلوع ہونے سے پہلے اس تنظیم کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی عاید کر دی گئی۔ موخرالذکر واقعہ پر ابھی انتظار کرنا چاہئے کیونکہ اس تنظیم کے سیکریٹری نے پابندی عاید ہونے کے بعد حکومت کی اطاعت کرنے اور تنظیم کی ساری اکائیوں کو کالعدم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
-
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- سپریم کورٹ کا امتحان
- باون گز کا قاتل
دینی مدارس کا سروے
مذکورہ چاروں ’واقعات‘ انوکھے ہیں۔سپریم کورٹ میں اس سے پہلے بھی مختلف بنچوں میں ’نفرت انگیز بیانات‘ اور چینلو ں کے منافرت آمیز رویہ پر بحث ہوئی ہے۔اظہار رائے کی آزادی کے نمایاں علمبردار جج‘ جسٹس چند ر چوڑ نے تو نومبر 2020 میں ارنب گوسوامی کی ضمانت کی اپیل پر سماعت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ میں چینلوں پر ہونے والی بحث اور ان کے پروگراموں کو ذاتی طور پر پسند نہیں کرتا۔ مختلف مواقع پر مختلف جج حضرات اسی طرح کے خیالات ظاہر کرتے رہے ہیں۔
سدرشن ٹی وی کے ذریعہ ’یوپی ایس سی جہاد‘ جیسے زہریلے پروگرام کوٹیلی کاسٹ کرنے کے خلاف سماعت کرتے ہوئے بھی جج حضرات نے اسی طرح کے تبصرے کئے تھے۔لیکن جو تازہ تبصرہ جسٹس کے ایم جوزف نے کیا ہے وہ ان سب پر بھاری ہے۔ انہوں نے چینلوں کو نفرت پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ چینل نفرت انگیزی کی اجازت دیتے ہیں اور بحث میں شرکت کرنے والوں کو خاموش کرادیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو دو ہفتوں کے اندر چینلوں کی نگرانی کیلئے پیش لا کمیشن کی سفارشات پر اپنا رد عمل سونپنے کا حکم دیا ہے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ لا کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے کی درخواست بی جے پی کے لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے دائر کی ہے۔اس کے علاوہ بھی مختلف عرضی گزار ہیں جن میں صحافی قربان علی اور جمعیت علمائے ہند وغیرہ شامل ہیں۔ جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ ہم چینلوں پر نفرت انگیز تقریروں اور بیانات سے نپٹنے کیلئے موجودہ قانون کی اہلیت کا بھی جائزہ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ ’اینکر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔نفرت انگیز بیانات اور تقریروں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘
جسٹس جوزف نے منافرت انگیزی کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے مضبوطی اورسختی کے ساتھ نہیں نپٹا جارہا ہے۔عدالت نے کہا کہ ’ہیٹ اسپیچ‘ مختلف تہوں میں ہوتی ہے۔اس کے ذریعہ آپ کسی کی جان لے سکتے ہیں۔ اس کے مختلف راستے ہیں۔ آہستہ آہستہ یا کسی اور طریقے سے۔ وہ (چینل/اینکر) ہمیں اپنے کچھ اعتقادات میں جکڑے رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اینکر کسی خاص معاملہ پر اپنی رائے سامنے رکھ سکتا ہے لیکن وہ پینل میں شریک بحث کاروں کی رائے کو انہیں یا ان کے مائک کو خاموش کرکے کچل نہیں سکتا۔۔
انہوں نے پوچھا کہ سامعین کے حق کا کیا ہوگا؟ وہ آوازوں کی بوچھار اور گڑگڑاہٹ کے درمیان کیا سنیں گے اور کیسے ذہن بنائیں گے؟ جسٹس جوزف نے کہا کہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ آئین کی تمہید میں شامل ایک اہم قدر ہے۔ آخر ہمارا ملک کدھر جارہا ہے؟ سیاسی پارٹیاں نفرت انگیز بیانات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔‘
اس سلسلہ میں اب مرکزی حکومت کا جواب آنا ہے۔اسی وقت علم ہوگا کہ وہ نفرت کے ان سرغنائوں سے کس طرح نپٹنے کا ارادہ رکھتی ہے جن سے خود بی جے پی کو فائدہ ہورہا ہے۔ جسٹس جوزف نے ’سیاسی پارٹیوں‘ کا نام لے کر اسی طرف اشارہ کیا بھی ہے۔جسٹس جوزف کے ساتھ بی جے پی اور مرکزی حکومت کا ایک ’تاریخی رشتہ‘ ہے۔ مارچ 2018 میں اتراکھنڈ کی کانگریس حکومت کو مودی حکومت نے دفعہ 356 کے تحت برخاست کرکے وہاں صدر راج نافذ کر دیا تھا۔
اس وقت اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ایم جوزف ہی تھے۔معاملہ ان کی بنچ میں پہنچا تو انہوں نے بہت سخت تبصرہ کرتے ہوئے صدر راج کے نفاذ کے فیصلہ کو پلٹ دیا تھا۔گوکہ بعد میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ پر بھی روک لگادی تھی۔ 2018 میں دوسرے چار ججوں کے ساتھ جسٹس جوزف کو بھی سپریم کورٹ میں لانے کی سفارش کی گئی تھی۔لیکن مرکزی حکومت نے جسٹس جوزف کی فائل کو واپس کردیا تھا۔لیکن سپریم کورٹ کالجیم اپنے فیصلہ پر قائم رہا اور آخر کار چار مہینوں کے لیت ولعل کے بعد انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
یہ الگ بحث ہے کہ ان چار مہینوں کی تاخیر کا جسٹس جوزف کی سینیارٹی پر انتہائی منفی اثر پڑا لیکن اس سے یہ تو ظاہر ہوہی گیا کہ وہ کن صلاحیتوں اور اقدار کے مالک ہیں کہ مرکزی حکومت انہیں سپریم کورٹ آنے سے نہ روک سکی اور کالیجم انہیں نظر انداز نہ کرسکا۔
دوسری خبر آر ایس ایس کے سربراہ سے پانچ مسلم دانشوروں کی ملاقات کی تھی۔حیرت ہے کہ میڈیا کو از خود اس ملاقات کا علم نہ ہوسکا اور وہ اس کی خبر بروقت شائع نہ کرسکا۔ یہ خبر ایک مہینہ بعد اسی وقت سامنے آسکی جب ان پانچ میں سے ایک‘نجیب جنگ نے ایک انگریزی اخبار سے گفتگو کرلی۔ اسی روز انقلاب سے سینئر صحافی شاہدصدیقی نے بات کی اور اس ملاقات کی تفصیلات شائع ہوئیں۔
اس ملاقات پر حسب روایت اچھی اور بری آراء سامنے آئیں۔تیسرے ملاقاتی (سابق چیف الیکشن کمشنر) ایس وائی قریشی کے مطابق موہن بھاگوت نے ان سے مسلمانوں کی دو شکایتیں کیں: وہ گائے کا ذبیحہ کرتے ہیں اور وہ ہمیں کافر کہتے ہیں۔ انہوں نے ایک انگریزی روزنامہ میں جو مضمون لکھا اس کی روشنی میں‘ایسا لگتا ہے کہ بھاگوت کی ان دونوں شکایتوں کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جاسکا۔
موہن بھاگوت کو بتایا جانا چاہئے تھا کہ عمومی طور پر کوئی مسلمان گائے کا ذبیحہ نہیں کرتا۔ یہ مسئلہ آج سے حساس نہیں ہوا ہے۔ یہ آزادی سے بھی بہت پہلے سے حساس مسئلہ ہے۔ مسلمان اس حساسیت کو سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ آخری مغل شہنشاہ‘ بہادرشاہ ظفر تک نے اس پر برادران وطن کی دلجوئی کا معاملہ کیا تھا۔
موہن بھاگوت سے کہاجاتا کہ ملک کی بہت سی ریاستوں میں مختلف قوانین کے تحت ایسے واقعات سے نپٹنے کا پورا التزام موجود ہے۔ انہیں بتایا جاتا کہ بعض ریاستوں میں تو کھلے طور پر گائے کا ذبیحہ ہوتا ہے اور وہاں یہ کام مسلمان نہیں کرتے۔ ایسی ایک ریاست کا ایک ممبر پارلیمنٹ مرکزی حکومت میں محکمہ قانون کا وزیر ہے۔ یہ وزیر ایک سے زائد مرتبہ گائے ذبیحہ سے متعلق بی جے پی کی رائے سے مختلف اپنی رائے ظاہر کر چکا ہے۔
موہن بھاگوت کو یہ بھی بتایا جاتا کہ لفظ کافر کوئی گالی نہیں ہے۔اس کا مطلب ہے ایک خدا کا انکار کرنے والا۔ یہ اصطلاح مومن کی ضد یعنی Opposit ہے جس کا مطلب ہے ایک خدا کو ماننے والا۔
پھر ان سے پوچھا جاتا کہ کیا واقعی کوئی ادنی سے ادنی مسلمان بھی کسی ادنی سے ادنی ہندو بھائی کو جان بوجھ کر اس کے گھر آکر کہتا ہے کہ تم کافر ہو؟ یا کوئی قابل ذکر مسلمان خود آپ کے پاس کبھی آیا ہو اور آپ سے کہنے کی جرات کی ہو کہ آپ کافر ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ان باتوں سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
مجھے نہیں معلوم کہ موہن بھاگوت جیسے اتنے بڑے ذہین‘ دانش ور اور اتنی بڑی تنظیم کے سربراہ نے اتنی چھوٹی بات کی ہوگی لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ ایسی باتیں کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ اگر فی الواقع انہوں نے یہ باتیں کہی بھی تھیں تو ان کا جواب وہ نہیں تھا جو دیا گیا۔وہ کہتے کہ اس ملک کے شرپسندوں نے گائے کے نام پر کتنے بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔
وہ کہتے کہ بھاگوت جی آپ کے وعدے اور ہدایت کے باوجود بابری مسجد کی طرز پر دوسری مسجدوں کا قضیہ اچھالا جارہا ہے۔ ایس وائی قریشی صاحب نے یہ بھی لکھا کہ ہم نے بھی (گائے اور کافر کے جواب میں) ان سے کہا کہ آپ کے لوگ ہمیں جہادی اور پاکستانی کہتے ہیں۔اس جوابی وار پر ہنسنے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے؟
ان سطور کے ذریعہ میں آر ایس ایس سے گفتگو اور مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کی کوئی تجویز پیش نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس سے بھی بات کیجئے وہ گفتگو اور مذاکرات کی شدید ضرورت کا اعتراف کرتا ہے۔جب ایسا ہے تو پھر کیوں مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی قائدین مل کر ایک بار نہیں طے کرلیتے کہ اگر گفتگو کرنی ہے تو مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی طرف سے ایک متحدہ محاذ بناکر چند ٹھوس مسائل پر مدلل انداز میں کی جائے۔
میرا خیال ہے کہ گزشتہ 4 جولائی 2021 کوغازی آباد میں منعقد ایک کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر اس سلسلہ میں جس انفرادی کوشش کے ذریعہ اجتماعی گفتگو اور مذاکرات کی بنیاد ڈالی گئی تھی وہ اس ضمن میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک طرف جہاں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہم سب ہندوستانی ہیں اور سب کا ڈی این اے ایک ہے وہیں کتاب کے مصنف خواجہ افتخار احمد نے مسلمانوں کے عقیدہ توحید و رسالت اور احکام شریعت کا پوری قوت کے ساتھ جراتمندانہ دفاع کیا تھا اور جتادیا تھا کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن اپنے عقیدہ سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔۔
اس پروگرام میں دونوں کی تقریر ایک ایک گھنٹے سے زیادہ کی تھی۔ لیکن اس پروگرام میں موہن بھاگوت نے گائے کے ذبیحہ اور کافر والی شکایت نہیں کی تھی۔اگر فی الواقع یہ دونوں اشوز ان کیلئے اتنے ہی اہم تھے تو وہ اس پروگرام میں ضرور اٹھاتے۔ یہ پروگرام منعقد ہی اس لئے ہوا تھا کہ اس میں دونوں فرقوں کے درمیان پھیلی ہوئی غلط فہمیوں یا ایک دوسرے کی شکایتوں کے ازالہ کی ابتدا کی جائے۔
میرا خیال ہے کہ اب مسلم قائدین اور تمام علماء وصلحاء کو اس ضمن میں کوئی لائحہ عمل ضرور ترتیب دینا چاہئے۔گفتگو کرنی ہے تب بھی اور نہیں کرنی ہے تب بھی۔لیکن یہ خیال رہے کہ تقریباً تمام بڑے ملی قائدین آر ایس ایس کی قیادت اور حکومت کے نمائندوں سے اور بعض معاملات میں خود وزیر اعظم سے مختلف مواقع پر مل چکے ہیں۔ جب الگ الگ ملنے میں کوئی تکلف نہیں ہے تو پھر سب کو اکٹھا ہوکر ملنے میں کیا قباحت ہے؟
Pingback: نفرت کے فروغ میں بالی وڈ کا کردار ⋆ عادل فراز