اس نا خدا کے ظلم و ستم

Spread the love

اس نا خدا کے ظلم و ستم

سید سرفراز احمد

جس ملک کی یکجہتی کی مثالیں پوری دنیا میں دی جاتی تھی جس کو گنگا جمنا کی تہذیب کا حوالہ دیا جاتا تھا بلکہ یہاں کے فطری نظاروں کو کبھی جنت گمان سے تو کبھی قومی اتحاد سے تشبیہ دی جاتی تھی بین المذاہب کی بھائی چارگی کے قصیدے زبان کا ورد ہوا کرتے تھے

تمام مذاہب کے لوگ ایکدوسرے کے تہواروں میں جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوا کرتے تھے مذکورہ بھارت موجودہ بھارت سے بالکل برعکس ہوچکا ہے محبت کی جگہ نفرت تہذیب کی جگہ مذہب اخوت کی جگہ تفریق امن کی جگہ تشدد انصاف کی جگہ انتقام۔

الغرض کے ملک کے مفاد اور دستور کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے ملک میں بہت کم افراد ایسے باقی رہ گئے ہیں جوجمہوریت کی بقاء ملک میں امن و سکون اورقومی سلامتی کی کوشش کرنا چاہتے ہوں بھارت کی یہ دو تصویریں انتہائی کم عرصہ میں مثبت پہلو سے گھٹ کر منفی پہلو کی طرف آگے بڑھ چکی ہے جو تہوار پہلے خوشیوں کا آپسی رواداری کا حصہ ہوا کرتے تھے وہ آج نفرت کا عروج پر بیوپار کررہے ہیں حالانکہ کوئی بھی تہوار خوشیوں کا اظہار کرنے کا دن ہوتا ہے لیکن آج یہی تہوار شر اور فساد کا حصہ بنتے جارہے ہیں ۔

جس طرح سے ملک میں رام نومی جلوس میں ایک ہی وقت میں سات تا آٹھ ریاستوں میں تشدد برپا کیا گیا اسی طرز پر گربا میں بھی شدت پسندی اور نفرت کا جم کر ڈنکا بجایا گیا بلکہ یوں کہا جائے تو بھی کوئی مغالطہ نہ ہوگا کہ ہمیشہ کی طرح انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے جانبدار رویہ کا بھر پور استعمال کیا گیا ملک کی دو ریاستیں گجرات اور مدھیہ پردیش کی جو خبریں سامنے آئی وہ سن کر اور ویڈیو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے

3 /اکٹوبر بروز پیر گجرات کے کھیڑا ضلع کے سپرٹنڈنٹ آف پولیس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ گربا کے دوران مسلم نوجوانوں نے گربا پنڈال میں گھس کر خواتین سے بحث وتکرار کرتے ہوئے حملہ کردیا اور پتھر بازی کی جس میں نو خواتین زخمی ہونے کا دعوی بھی پیش کیا جس کے بعد مقامی پولیس نو جوانوں کو گرفتار کرلیتی ہے

 

اور انھیں واپس اس مقام پر لاکر ہندو طبقہ کے افراد کے سامنے دس مسلم نوجوانوں کو ایک ایک کرکے برقی کھمبے سے باندھ کر مار پیٹ کرتے ہوئے حیوانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور ان مسلم نوجوانوں سے ہندو طبقہ کے ہجوم سے معافی مانگنے لگایا جاتا ہے

ہندو طبقہ کا ہجوم بھارت ماتا کی جئے نعرے لگا کر خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے اب ذرا ہم اس پورے واقعہ پر نظر ڈالتے ہیں پہلے تو وہاں کی مقامی پولیس کے پاس ان مسلم نوجوانوں کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے بلکہ وہ صرف الزام لگاکر ان نوجوانوں پر بھڑاس نکال رہی تھی دوسری بات اگر واقعی یہ مسلم نوجوانوں نے اگر گربا میں پتھراؤ کیا تو انھیں عدالتی تحویل میں دے دیا جاتا اور آگے کی کاروائی عدالت کرتی

لیکن پولیس نے انھیں واپس ہندو طبقہ کے ہجوم میں لاکر انھیں پیٹا جاتا ہے درد ناک ازیتیں دی جاتی ہیں اور معافی مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے پولیس کی اس حرکت نے کئی سوال کھڑے کردیئے بلکہ اس حد تک محسوس کروادیا اور شک کے دائرے میں ڈال دیا کہ کہیں پولیس ایک فرضی کیس بناکر مسلم نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیجھنے کا منصوبہ تو نہیں بنا رکھا تھا؟

کیوں کہ واقعی یہ ملزم اگرمجرم ہوتے تو پولیس کو قانونی کاروائی کرنا چاہیئے تھا لیکن پولیس نے ایسا نہیں کیا بلکہ پولیس نے بجائے غیر جانبدارانہ روش اختیار کرنے کے جانبدارانہ کاروائی کی جو گربا کے نام پر مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کی ایک بہت بڑی سازش کا حصہ ہوسکتا ہے۔

ایسے ہی گجرات کے وڑودرہ میں فرقہ وارانہ تصادم کا واقعہ پیش آیا پولیس کے مطابق میلاد النبی کے پیش نظر برقی کھمبے پر جو مندر کے روبرو واقع ہے مسلم افراد نے مذہبی جھنڈا لگایا جسکے بعد ہندو طبقہ کی عوام کو ٹھیس پہنچی

اور انھوں نے اس پر اعتراض کیا جس کے بعد مسلئہ آگے بڑھا اور دونوں گروپوں میں پتھراؤ اور تصادم ہوا خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے مطابق دونوں طبقات سے 40 افراد کو گرفتار کرتے ہوئے مقدمہ درج کرلیا گیا لیکن سوال تو ضرور اٹھتے ہیں

کیوں کہ جس مسلئہ کو مسلئہ بنایا گیا دراصل وہ کوئی مسلئہ ہی نہیں ہے مذہبی جھنڈا برقی پول پر لگایا گیا نہ کہ کسی کی ملکیت پر, کیا ہندو طبقہ کی جانب سے گنیش تہوار ہو یا درگا یا رام نومی ہر بار سرکاری املاک پر بھگوا جھنڈوں کی چھاؤنی میں تبدیل کردیا جاتا ہے لیکن کبھی کسی مسلم فرقہ کی جانب سے نہ ہی اعتراض جتایا گیا اور نہ ہی شکایت کی گئی پولیس نے جسطرح سے معاملہ کو پیش کیا ہے جس سے صاف عیاں ہورہا ہیکہ اس تصادم کا مجرم ہندو طبقہ ہے لہذا پولیس کو جانبدار طریقہ سے کاروائی کرنی چاہیے۔

اسی طرح یہی گربا کے نام پر بروز اتوار مدھیہ پردیش کےمندسور مقام پر گربا کے دوران مسلم نوجوانوں پر پتھراؤ کرنے کا الزام لگایا گیا اس ضمن میں مقامی بجرنگ دل کے کارکنوں کی شکایت پر 19مسلم نوجوانوں پر مقدمہ درج کرلیا گیا جسمیں سے 7 کو گرفتار بھی کرلیا گیا

مزید ضلع انتظامیہ اور پولیس مشترکہ کاروائی کرتے ہوئے تین مسلم نوجوان جنمیں ظفر ,رئیس , اور سلمان کے انتہائی عالیشان مکانات کو غیر قانونی بتاکر بلڈوزر چلاکر مسمار کردیا گیا پولیس کے مطابق یہ بتایا جارہا ہیکہ موٹر گاڑی کے کٹ مارکر چلانے کے بعد تنازعہ بڑھا اور پتھراؤ ہوا چلیے مان لیتے ہیں کہ پتھراؤ ہوا یا کوئی تنازعہ ہوا

لیکن پولیس کی جانبداری کھل کر سامنے آرہی ہے کوئی بھی تنازعہ ایک طرفہ نہیں ہوتا بلکہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے پولیس نے ایک ہی مسلم طبقہ کے افراد کو گرفتار کرکے یہ کھلا ثبوت دے دیا ہیکہ پولیس کا رول غیر جانبدار نہیں ہے

بلکہ جانبدار ہے دوسری اہم بات بھاجپائی حکم رانوں کی ریاستوں میں ہی نظم و نسق میں کوتاہی کیوں ہوتی ہے ؟تیسری اہم بات پولیس اور انتظامیہ کو کس نے حکم دیا کہ وہ ملزمین کے گھروں پر بلڈوزر کی کاروائی کریں؟جو مکانات اگر غیر قانونی تھے تو انتظامیہ اب تک کیوں سورہی تھی؟

اب کسی تنازعہ کو مذہبی رنگ دے کر انتقامی کاروائی کرنا کیا دستوری رو سے درست ہے؟۔

یہ تو کھلے عام فرقہ پرستی کی بہترین مثال پیش کی جارہی ہے اگر پولیس ہی اسطرح سے مذاہب میں امتیاز کرتے ہوئے کاروائی کرے گی تو عوام کس پر اعتماد کریں ؟اور یہ بلڈوزری کلچر دستور اور ملک کی جمہوریت کو آہستہ آہستہ معدوم کررہا ہے کیونکہ مدھیہ پردیش میں بلڈوزر چلانا روز کا معمول بن چکا ہے

بالخصوص اگر جب اسطرح کے کوئی تنازعات پیش آتے ہیں تو صرف اور صرف مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھاجاتا ہے اور ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اسی طرح بروز ہفتہ کو مدھیہ پردیش کے اجین میں اس وقت ہنگامہ برپا ہوگیا

جب بجرنگ دل کے کارکنوں نے گربا پنڈال میں مسلم نوجوانوں کو جم کر مارا اور پیٹا بجرنگ دل کا ماننا ہیکہ یہ لوگ لو جہاد کیلئے آتے ہیں ہماری لڑکیوں کو اپنے جھانسہ میں پھنسا لیتے ہیں جبکہ مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نے گربا پنڈال میں داخلہ کیلئے ووٹر شناختی کارڈ کو لازمی قرار دیا جبکہ یہ بھی ایک منظم سازش ہی کا حصہ ہے

جب گربا پنڈال میں ہر ایک کو ووٹر شناختی کارڈ کی تفتیش کرنے کے بعد ہی بجرنگ دل کے ہی لوگ اندر جانے کی اجازت دیتے ہیں تو یہ مسلم نوجوانوں کو کس نے اندر چھوڑا؟سوال اہم یہ بھی ہیکہ یہ لوگ جتنی آسانی سے الزامات کی جھڑی لگادیتے ہیں اتنی ہی آسانی سے انکے پاس ایک بھی ثبوت موجود نہیں ہوتا ہے

اگر واقعی یہ مسلم نوجوان کسی مقصد کے تیئں اس گربا میں آئے تھے تو بجرنگ دل کو تشدد کرنے کی زمہ داری کس نے دی؟کیا وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں؟

کیا وہ یوں ہی کسی بھی انسان پر الزام تراشی کرتے ہوئے مار پیٹ کرسکتے ہیں؟نہیں بلکہ بجرنگ دل پر ہی سب سے بڑی کاروائی ہونی چاہیئے جنھوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے قانون کا کھلے عام مذاق بنایا ہندو توا تنظیم کے یہ الزامات دراصل سب مضحکہ خیز باتیں ہیں بس کسی بھی طرح سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو ہندو راشٹر کے منشاء کا اصل ایجنڈہ ہے۔

ان واقعات نے اپنے پیچھے بہت کچھ سوال چھوڑے ہیں جسکے جواب ان ریاستوں کی انتظامیہ اور پولیس کو دینا ہوگا ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ گجرات میں انتخابی بگل بجا نہیں ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کا بگل ضرور بج گیا ہےانتخابات کی تیاری زور و شور سے چل رہی ہے کیونکہ عآپ نے مودی اور شاہ کی جوڑی کو گجرات میں پریشان کر رکھا ہے آئی بی کی رپورٹ میں کیجریوال کی سبقت کی پیشن گوئی کی گئی اور مدھیہ پردیش میں بھی اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں

دونوں ریاستوں میں بھاجپا چاہتی ہے کہ وہ اپنا دبدبہ قائم رکھے لیکن انتخابی مہم چلانے کے لیے بھاجپا کےہاں کوئی خاص مدعا نہیں ہے کہ جس سے وہ رائے دہندوں کو اپنی جانب پر کشش بناسکے بھاجپا کا یہ وسیلہ رہا کہ وہ فرقہ پرستی کو بنیاد بنا کر اکثریتی طبقہ کا ووٹ حاصل کرکے اپنی گدی کی راہ ہموار کرلیتی ہے جس نفرت کا بیج بھاجپا یا اسکی ماتحت بھگوا تنظیموں نے بویا ہے وہ سماج میں آج بھی الگ الگ شکلوں میں ابھرتا رہتا ہے

دل چسپ پہلو یہ بھی ہیکہ ایک ہی وقت میں دونوں ریاستوں میں فرقہ پرستی کےواقعات رونما ہونا اور پولیس و انتظامیہ کی کی جانبدارانہ کاروائی نے کسی بڑی سازش کا حصہ ہونے کی کھلی دلیل ہے

جب سے برقی پول کو باندھنے کا ویـڈیو وائرل ہورہا ہے تب سے مختلیف گوشوں سے پولیس پر کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے دوسری اہم بات بھاگوت نے دسہرہ وجے دشمی کے موقع پر جو کہا کہ کچھ لوگوں کی جانب سے ہندو توا کا ڈر مسلمانوں میں بٹھایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہیکہ ہندوتوا اقلتیوں پر پر ظلم کرے گی ہندوتوا آئے گی تو مسلمانوں کو مارا جائے گا یہ ڈر اور خوف پھیلا یا جارہا ہے

انھوں نے کہا کہ یہ نہ سنگھ کی فطرت ہے نہ ہندوؤں کی بھاگوت کا یہ بیان دراصل سوائے سیاسی منطق کے اور کچھ نہیں ہے کیوں کہ جس طرح سے مدھیہ پردیش اور گجرات میں جو ظلم اور تشدد برپا کیا گیا کیا یہ بھاگوت کو نظر نہیں آتا؟بھاگوت کو ادے پور کا واقعہ یاد ہے

لیکن تازہ ترین واقعات کیا وہ نہیں دیکھ رہے ہیں وہ کون سا طبقہ تھا جو پیر کے دن اعجاز انصاری نامی نوجوان کو چھتیس گڑھ اور جارکھنڈ سرحد پر درندہ صفت بھیڑ نے لنچنگ کرتے ہوئے بکری لے جانے کا الزام لگاکر کلہاڑی سے مارڈالا اقلیتوں پر ذیادتی نہ آر ایس ایس کی فطرت ہے نہ ہندوؤں کی تو یہ کونسے ہندو اور سنگھ ہے جو ظلم کی حدیں پار کررہے ہیں وہ بھاجپا کس کی ہے جو پچھلے آٹھ سالوں سے مسلمانوں پر اس ملک کی زمین تنگ کررہی ہے

محض بھاگوت کا یہ بیان جھوٹ کا پلندہ ہے کیوں کہ یہ منہ سے خوشبو بکھیرنے کا ہنر تو رکھتے ہیں لیکن عمل سے اپنے نظریہ کی تکمیل کی طرف پیشرفت کررہے ہیں کیونکہ آر ایس ایس کا نظریہ ہی اقلیتوں پر مظالم ڈھانا ہے اور انکی تربیت بھی اسی تقاضہ کو پورا کررہی ہے گجرات اور مدھیہ پردیش کے واقعات کیلئے وہاں کی حکومت اور پولیس زمہ دار ہے جن کی کھلی چھوٹ نظم و نسق میں تساہلی سے ریاستوں کاامن چین و سکون غارت ہوتا جارہا ہے

اور یہی مدھیہ پردیش حکومت اپنے آپ کو عدالت کی جگہ لیتے ہوئے غیر قانونی طور پر مکانات کی تعمیر کابہانہ بناتے ہوۓ بلڈوزر چلاکر تین مسلم گھروں کو ایک جھٹکہ میں ملبے کا ڈھیر بنادیتی ہےکیا یہ انصاف کا قتل نہیں ہے ؟اگر عدالت انھیں ایسے ہی کھلی چھوٹ دیتی رہیں گی تو عدلیہ کا تصور بے معنی ہوکر رہ جائے گا

اور حکومتیں اپنی مرضی کے فیصلے اور انصاف کے تقاضوں کونا انصافی کے ترازو سے جانچے گی لہذا اس بلڈوزر کلچر اور حکومت کےغیر دستوری کاروائیوں کے خلاف عدلیہ سخت نوٹس لیتے ہوئے ان واقعات کی تحقیقات کروائیں اور شرپسندوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے تاکہ عوامی املاک اور جانوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے ۔

سید سرفراز احمد,بھینسہ

ادارہ اردو دنیا کا متفق ہونا ضروری نہیں 

2 thoughts on “اس نا خدا کے ظلم و ستم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *