گاندھی جی حق گوئی اور بے باکی کی مثال

Spread the love

گاندھی جی حق گوئی اور بے باکی کی مثال

ازقلم : ڈاکٹر روبینہ

اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ تعلیم و تربیت،مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدرآباد

مہاتما گاندھی کی زندگی کا بنیادی اصول “ستیہ” یعنی سچائی تھا۔ انہوں نے ہمیشہ کہا کہ سچائی خدا ہے اور اس سے بڑا کوئی اصول نہیں۔ ان کے لیے سچائی کا مطلب تھا ہر حال میں دیانت داری، شفافیت اور انصاف کی پیروی کرنا۔ گاندھی جی کی حق گوئی اور بے باکی کا فلسفہ یہ تھا کہ اگر آپ سچ بول رہے ہیں تو آپ کو کسی چیز کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا ماننا تھا کہ سچائی کو ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں فتح حاصل ہوتی ہے، چاہے راستہ کتنا ہی دشوار کیوں نہ ہو۔ گاندھی جی کی حق گوئی اور بے باکی کا پہلا بڑا مظاہرہ جنوبی افریقہ میں ہوا، جہاں وہ بحثیت وکیل کے کام کر رہے تھے۔ 1893 میں، گاندھی جی نے ہندوستانیوں کے حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی اور نسل پرستی کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ایک مشہور واقعہ اس وقت پیش آیا جب انہیں ایک سفید فام مسافر نے ٹرین سے زبردستی نکالا۔

ایک دن وہ پٹراماریٹزبرگ سے ڈربن جانے والی ٹرین مںا سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے پہلے درجے کا ٹکٹ خریدا تھا۔ جب ٹرین پٹراماریٹزبرگ سے روانہ ہوئی تو ایک گورے مسافر نے اعتراض کان کہ ایک “کلوٹا” (یینن کالارنگ کا آدمی) پہلے درجے مںت سفر نہںت کر سکتا۔ریلوے حکام نے گاندھی جی سے کہا کہ وہ تسر ے درجے مںت چلے جائں”۔ گاندھی جی نے انکار کر دیا کوجنکہ انہوں نے پہلے درجے کا ٹکٹ خریدا تھا۔ اس پر انہں۔ زبردستی ٹرین سے اتار دیا گای اور ان کا سامان پلٹے فارم پر پھنکر دیا گاا۔اس واقعے نے گاندھی جی کو گہرا صدمہ پہنچایا، لکن انہوں نے اپنے حقوق کے لے لڑنے کا فیصلہ کیا

انہوں نے نہ صرف اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ اس تجربے نے انہںر جنوبی افریقہ مںہ نسلی امتا ز کے خلاف لڑنے کی ترغبن دی۔ہ واقعہ گاندھی جی کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ انہوں نے اپنی بہادری اور ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے حقوق کے لےے کھڑے ہوئے۔

یہ واقعہ ان کی غرر تشدد پر مبنی مزاحمت کی تحریک کی ابتدا تھی، جو بعد میں ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد مںئ ایک اہم کردار ادا کرنے والی تھی۔جب گاندھی جی ہندوستان واپس آئے تو انہوں نے برطانوی راج کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی قیادت میں ہونے والی تحریکوں جیسے کہ “چمپارن ستیہ گرہ”، “عدم تعاون تحریک”، اور “نمک مارچ” میں ان کی سچائی اور بے باکی کا واضح اظہار ہوا۔ گاندھی جی نے ہمیشہ اپنی تحریکوں میں تشدد کو رد کیا اور سچائی و عدم تشدد کو اپنانے کی تلقین کی۔

ان کا مشہور قول تھا، “میری زندگی ہی میرا پیغام ہے”، جو اس بات کا اظہار تھا کہ وہ سچائی پر مبنی زندگی کو عملی طور پر اپنا کر دکھا رہے تھے۔چمپارن تحریک ایک نمایاں مثال ہے جہاں گاندھی جی نے بغیر کسی ڈر کے برطانوی حکومت کے خلاف کسانوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے سچائی اور انصاف کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت کو کسانوں کے مطالبات ماننے پر مجبور ہونا پڑا۔گاندھی جی کی کی قیادت میں “نمک مارچ” جو 1930 میں برطانوی حکومت کے نمک پر ٹیکس کے خلاف کیا گیا تھا۔ گاندھی جی نے اعلان کیا کہ یہ ٹیکس غیر منصفانہ ہے اور ہندوستانیوں کو اس کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔

انہوں نے سچائی کی بنیاد پر اس قانون کو چیلنج کیا اور ہزاروں افراد کے ساتھ 240 میل پیدل چل کر سمندر کے کنارے پہنچے اور نمک بنایا۔ یہ ایک بے باک قدم تھا کیونکہ انہوں نے براہ راست برطانوی حکومت کی پالیسی کو چیلنج کیا۔گاندھی جی ہمیشہ سچائی کے ساتھ رہتے تھے اور کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی صرف الفاظ تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے تھے کہ سچائی ہی انسان کو باوقار اور طاقتور بناتی ہے۔گاندھی جی نے کبھی بھی اپنے اصولوں کو کسی مصلحت یا ذاتی مفاد کے لیے ترک نہیں کیا۔

اس کی ایک مثال چوری چورا کا واقعہ 1922 ہے جب گاندھی جی نے “چوری چورا” کے مشہور واقعے کے بعد غرت تعاون تحریک کو واپس لنےت کا فصلہع کاے۔ یہ ایک ایسا فصلہ تھا جس نے بہت سے لوگوں کو حراان کر دیا اور کئی لوگوں کو ناراض بھی کای۔چوری چورا مںو، مظاہرین نے تشدد کا مظاہرہ کا۔

اور ایک پولسی اسٹشنو کو آگ لگا دی جس مںک 22 پولس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ گاندھی جی کے اہنسا (غرں تشدد) کے اصول کے خلاف تھا۔گاندھی جی نے اس تشدد پر گہری افسوس کا اظہار کان اور اپنی غلطی کا اعتراف کاو کہ وہ لوگوں کو اہنسا کے اصول پر عمل کرنے کے لےے مکمل طور پر تالر نہںد کر سکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس تحریک کو جاری رکھنے کے بجائے اپنی غلطی کی سزا برداشت کرنا چاہتے ہں ۔اس فصلے پر بہت سے قومی رہنماؤں نے تنقدا کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فصلہ آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچائے گا۔

لکن گاندھی جی اپنے فصلےص پر قائم رہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی قمتن پر تشدد کو برداشت نہںک کر سکتے، چاہے اس کا مطلب ان کی مقبولت مںئ کمی ہی کومں نہ ہو۔یہ واقعہ گاندھی جی کی اخلاقی بہادری اور ایمانداری کا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے ایک مشکل فصلہپ لای، جو ان کے لےل ساصسی طور پر نقصان دہ تھا۔ لکنی گاندھی جی نے دکھایا کہ ان کے لیے اصول ساوسی فائدے سے زیادہ اہم ہںک ۔

ان کی زندگی میں کئی ایسے مواقع آئے جب انہیں آسان راستہ اختیار کرنے کا موقع ملا، لیکن انہوں نے ہمیشہ مشکل اور سچائی پر مبنی راستے کو ترجیح دی۔ یہی وہ اصول تھے جو ان کی شخصیت کو بے مثال بناتے ہیں۔گاندھی جی نے اپنی سچائی اور بے باکی کو کبھی بھی سیاسی یا ذاتی مفادات کے لیے استعمال نہیں کیا۔

انہوں نے ہمیشہ عوامی مفاد کو مقدم رکھا۔ وہ سچائی کے لیے مرنے کو تیار تھے اور اس کا اظہار اس وقت ہوا جب انہیں بار بار جیل بھیجا گیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر ان کی بات سچی ہے تو جیل جانا کوئی خوف ناک چیز نہیں۔ وہ ہمیشہ سچائی کو سامنے لانے کے لیے تیار رہتے اور کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔

آج کی سیاست میں جہاں مفادات اور طاقت کی لڑائی عام ہے آج کے سیاسی رہنماؤں کے لیے گاندھی جی کی زندگی ایک بہترین مثال ہے کہ سچائی اور بے باکی کے اصولوں پر چل کر ہی عوام کا اعتماد جیتا جا سکتا ہے۔ ان کی تعلیمات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ سیاست کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ عوام کی خدمت اور انصاف کی فراہمی ہے۔آج جب دنیا مختلف مسائل کا سامنا کر رہی ہے

گاندھی جی کی حق گوئی اور بے باکی کے اصول پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں جھوٹ، بدنظمی، اور بدعنوانی عام ہیں، گاندھی جی کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ سچائی اور دیانت داری کے ساتھ زندگی گزارنا کس قدر ضروری ہے۔ ان کی سچائی کی پیروی ہمیں اپنی زندگی میں انصاف، امن، اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔گاندھی جی کی حق گوئی اور بے باکی کی تعلیمات کو آج کے تعلیمی نظام میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ہمیشہ زور دیا کہ تعلیم کا مقصد صرف علم حاصل کرنا نہیں بلکہ انسان کو سچائی اور انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے والا بنانا ہے۔ اگر ہم اپنے تعلیمی اداروں میں گاندھی جی کی تعلیمات کو رائج کریں، تو نئی نسل کو حق گوئی، بے باکی، اور دیانت داری کے اصولوں پر زندگی گزارنے کی ترغیب ملے گی۔ گاندھی جی کا ماننا تھا کہ نوجوانوں کو ہمیشہ سچ بولنا چاہیے اور کسی بھی حال میں غلط راستے کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔

ان کی تعلیمات نوجوانوں کو اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ وہ زندگی میں کبھی بھی اصولوں سے سمجھوتہ نہ کریں اور ہمیشہ سچائی کے ساتھ کھڑے رہیں۔نوجوان نسل کے لیے گاندھی جی کی تعلیمات ایک اہم سبق ہیں اگر نوجوان اپنی زندگی میں سچائی اور انصاف کے اصولوں کو اپنا لیں، تو وہ نہ صرف اپنی ذاتی زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں بلکہ معاشرتی تبدیلی کے عمل میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

گاندھی جی کی حق گوئی اور بے باکی نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان کی تعلیمات نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر، نیلسن منڈیلا، اور دیگر عالمی رہنماؤں کو عدم تشدد اور سچائی پر مبنی تحریکوں کی طرف مائل کیا۔ ان کی سچائی اور بے باکی نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ انصاف اور دیانت داری کی راہ پر چلنا ہی حقیقی کامیابی کا راستہ ہے۔

گاندھی جی کی حق گوئی اور بے باکی ایک ایسی طاقت تھی جس نے نہ صرف انہیں ایک عظیم لیڈر بنایا بلکہ ہندوستان کو آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا حق گوئی اور بے باکی کا فلسفہ نہ صرف ان کی اپنی زندگی کا حصہ تھا بلکہ یہ ایک عالمی تحریک بن چکا ہے۔

ان کی سچائی اور بے باکی نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف کھڑے ہونے کے لیےسچائی اور دیانت داری سب سے مضبوط ہتھیار ہیں گاندھی جی کی زندگی ایک عملی مثال ہے کہ سچائی، دیانت اور بے باکی سے نہ صرف ذاتی زندگی میں کام یابی حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ قوموں کی تقدیر بھی بدلی جا سکتی ہے۔ ان کی تعلیمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

آج کے دور میں جب جھوٹ، فریب، اور ناانصافی عام ہیں، گاندھی جی کی تعلیمات ہمیں ایک بہتر راستہ دکھاتی ہیں۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی کا فلسفہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سچائی ہی وہ طاقت ہے جو ظلم کو شکست دے سکتی ہے اور انسانیت کو کامیابی کی طرف لے جا سکتی ہے۔

One thought on “گاندھی جی حق گوئی اور بے باکی کی مثال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *