تیری یہ ستم ظریفی کی کہیں نظیر نہیں ملتی

Spread the love

تیری یہ ستم ظریفی کی کہیں نظیر نہیں ملتی

کسی بھی شعبہ میں عوام سےحکومت کا آمرانہ رویہ سماج کے لیے نفع بخش نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ایک عوامی حکومت کا یہ فرض بنتا ہیکہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ناکہ ظلم و ذیادتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے حسی کی روش اختیار کرے۔

اگر عوامی مسائل ہوں تو ان کو حل کرنے کی کوشش کی جائے یا کسی سماجی برائی سے روکنا ہو تو ان میں شعور بیدار کیا جائے یا متبادل طریقے اپنائے جائیں تب ہی سماج کی اصلاح ممکن ہے ورنہ اسکے برعکس ظلم وستم کا رویہ اختیار کیا جائے گا تو وہ سماج بجائے برائیوں سے نجات کے مزید غرق ہوتا جائے گا جس سے دوسرے پیچیدہ مسائل بھی پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور ایسی حکمرانی رعایا کے نزدیک ناکام ہوجاتی ہے ۔

ہمارے ملک کی ریاست آسام چند سالوں سے ملک کی سیاست میں سرخیوں کے ساتھ اپنا دم بھر رہی ہے جہاں کے وزیر اعلی بی جے پی کے ہیمنت بسوا سرما ہے جن کی کارکردگی اور شخصیت دن بہ دن کٹر ہندوتوا کے طور پر ابھر رہی ہے ریاست آسام ہمیشہ سے سنگین حالات سے دوچار رہا ہے۔

 

کبھی بنگلہ دیشی نژاد ہندوستانی مسلمانوں پر ظلم وجبر کیا جاتا رہا یا این آر سی کا ڈھونگ رچا کر مسلمانوں پر ذیادتی کی گئی مدارس اسلامیہ پر غیرقانونی الزامات عائد کرتے ہوئے بلڈوزر چلائے گئے اور ابھی آسام حکومت کی کابینہ نے23/جنوری کو چائلڈ میارج ایکٹ 2006 کے نفاذ کی منظوری دی

جس کا حکومت نےبڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ریاست آسام میں کم عمر لڑکیوں سے شادی کرنے پر مردوں پر pocso قانون Protection of Children from Sexual Offences کے تحت 14 سے 18 سال کی درمیانی عمر کی لڑکیوں سے کی جانے والی شادیوں(یعنی مرد حضرات)پر مقدمہ چلا کر جیل بھیجا جارہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق ابھی تک لگ بھگ 2500 افراد کو جیل میں ڈالا گیا 4000 سے زائد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں پولیس کے مطابق 8000 تک کے ملزمان کی فہرست تیار کی جاچکی ہےجس میں ہندو مسلم طبقہ کے افراد کے علاوہ مذہبی پیشوا بھی شامل ہیں جنھوں نے کم عمری کی شادیاں کروائی ہیں جب کہ آسام کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا سرما نے 28/جنوری کو کہا کہ ریاست میں آئندہ چھ ماہ میں سینکڑوں شوہروں کو گرفتار کیا جائے گا۔

کیوں کہ 14 سال سے کم عمر کی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلقات رکھنا جرم ہے، چاہے وہ قانونی طور پر شادی شدہ شوہر ہی کیوں نہ ہو نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کی رپورٹ کے مطابق آسام میں زچگی اور بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے، جس کی بنیادی وجہ بچپن کی شادی ہے کیونکہ ریاست میں رجسٹرڈ ہونے والی اوسطاً31.8فیصد شادیاں ممنوعہ عمر میں ہوتی ہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مہم آئندہ حکومت کی معیاد تک یعنی 2026 تک جاری رہے گی ۔

 

اگر انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا جائے توآسام حکومت کا یہ فیصلہ ایک بد بختانہ فیصلے کے مترادف ہے سب سے بڑا اور اہم سوال یہی ہیکہ کیا خواتین سے کم عمری میں شادی کرنے کے عوض میں مردوں کو جیل میں ڈالنے سے مسلئہ حل ہوجائے گا؟۔

ایک عام آدمی کا جواب بھی نفی میں آئے گا بلکہ یہ بھی کہے گا کہ نئے نئے مسائل پیداہوں گے جیل جانے والے شوہر کے بیوی بچوں کی کفالت کون کرے گا؟

ان کی پرورش اور دیکھ بھال کون کرے گا؟کسی بھی خاندان کا مضبوط ستون باپ ہوتا ہے حکومت اگر اسی کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دے گی تو کیا اسکا گھر اور خاندان نہیں اجڑے گا؟

کیا یہ حکومت کا اپنی رعایا کے ساتھ ظلم نہیں کہلائے گا؟

اس سے متعلق دو ہی اہم باتیں ہوسکتی ہیں یا تو یہ سب باتیں حکومت کی سمجھ سے پرے ہےیا پھر حکومت جانتے بوجھتے اس کام کو انجام دینا چاہتی ہے آسام ایک ایسی ریاست ہے جہاں اگر چہ کہ خواندگی کا کل تناسب 72 فیصد ہے لیکن ایسے بھی علاقے موجود ہیں

جہاں تعلیم کا دور دور تک فقدان نظر آتا ہے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جو فسادات کی نذر ہوجاتے ہیں جس کے بعد وہ آبادی مختلیف مسائل کا شکار ہوجاتی ہے خط غربت کی زندگی گذارنے والے خاندان تعلیم کا انتظام نہیں کرسکتے

ایسے خاندانوں کو صرف اپنی لڑکیوں کی شادی کی فکر لاحق ہوتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح محنت مزدوری کرتے ہوئے وہ اپنی لڑکیوں کی شادی کرواکر فراغت حاصل کرلیں آسام کے یہی علاقےمعاشی پسماندگی کا بھی شکار ہیں جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے

اگر آسام میں مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہیکہ مسلمانوں کا تعلیمی تناسب 61.92ہے جو دیگر طبقات کے مقابلہ کم ہےجبکہ آسام کی کل آبادی کا35 فیصد تناسب مسلمان ہیں لیکن حکومت کی جانب سے تعلیمی مواقع فراہم نہیں کیے جاتے معاشی پسماندگی کو دور نہیں کیا جاتا نظم ونسق کی پابندی نہیں کی جاتی

اگر ایسی حکومت تعلیم ,معیشت,یا دیگر امور کو مضبوط نہیں بناسکتی تو انھیں ضرورت ہے کہ وہ پہلے اپنی رعایا کے بنیادی مسائل پر توجہ دیں لیکن آسام حکومت ان سب مسائل پر غور خوص کرنے کے بجائے قانون کی لاٹھی کاغیر انسانی رویہ کے طور پراستعمال کررہی ہے ابھی چائلڈ میارج ایکٹ کے

خلاف جو گرفتاریاں ہورہی ہے ان گرفتاریوں کی رپورٹ بتارہی ہے کہ اسمیں اکثریتی تناسب مسلمانوں کا ہے ایسے میں کئی سوالات بھی اٹھتے ہیں کیاآسام حکومت مسلمانوں کے خلاف سازش کے طور پر اس کام کو انجام دے رہی ہے؟

آسام کے ایم پی بدر الدین اجمل نے آسام حکومت پر الزام بھی لگایا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف کوئی نئی سازش ہے۔

جس میں 90 فیصد سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا جائے گا لیکن ہمارا ماننا ہیکہ یہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہو یا نہ ہولیکن جس طریقے سے گرفتاری ہورہی ہو کیا وہ طریقہ ایک جمہوری ملک کے لیے مناسب فیصلہ ہے؟۔

ملک کا ہر شہری یہی کہے گا کہ یہ ایک جابرانہ نظام کا حصہ ہے کئی خاندانوں کی خواتین اپنے شوہروں کی گرفتاری کی وجہ سے بلک بلک کر رو رہی ہیں حکومت کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کررہی ہیں سوال پوچھ رہی ہیں کہ ہمارا گھر کون چلائے گا؟۔

لیکن آسام کی بے حس حکومت اپنی تانا شاہی میں مگن ہے جنھیں نہ اپنی رعایا کا درد نظرآرہا ہے نہ ان کی مشکلات,بات تو یہ بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آسام حکومت شادی شدہ مردوں کو جیل میں ڈال کر ان کی ازدواجی زندگی کو کیوں تباہ کرنا چاہتی ہے؟

اگر حکومت اس کم عمری شادی پر روک لگانا چاہتی ہوتو وہ گذرے ہوئے کل سے آگے بڑھ کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں جس کیلئے تین نکات انتہائی اہم ہے پہلا نکتہ یہ کہ ایسے علاقے جہاں تعلیمی طور پر پسماندگی کا شکار ہوں وہاں تعلیم کو مروج کریں تعلیم سے متعلق عوام کو آسانیاں فراہم کریں تاکہ عوام میں تعلیم کے زریعہ قانون کے متعلق شعور بیدار ہوسکے

دوسرا نکتہ یہ کہ سماج میں کم عمر میں کی جانے والی شادی پر شعور بیداری مہمات چلائیں عوام کو قانون سے متعلق معلومات فراہم کریں اور کم عمر میں شادی کرنے پر ہونے والے نقصانات سے واقفیت کروائیں

تیسرا اہم نکتہ ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہیکہ کم عمر کی شادی پر پابندی کے اثرات سماج میں مرتب ہوں تو اس کا اطلاق ہونے والی شادیوں سے کیا جائے نہ کہ گذری ہوئی شادیوں کو نشانہ پر لیا جائے حکومت شادی کے رسم و رواج کو ادا کرنے والے مذہبی پیشواؤں سے گفت و شنید کی جائے انھیں سرکاری طور پر اس چائلڈ میارج ایکٹ کا پابند بنائے پھر بھی باوجود اس کے اسکی خلاف ورزی ہوتی ہوتوجب قانون کا استعمال کیا جائے۔

لیکن حکومت ان سب کو درکنار کرتے ہوئے اپنے من چاہے فیصلے صادر کررہی ہے حکومت کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ وہ ایک جمہوری نظام کی حکومت چلارہی ہے جو آج اقتدارمیں ہے کل نہیں بھی ہوسکتے کمسن عمر میں لڑکیوں کی شادی جو قانونی طور پر جرم ہے

جس کا رپورٹ میں اوسط ہر سو میں 32 لڑکیوں کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے تو حکومت سے سوال یہ ہےکیا دیگر سنگین جرائم کا تناسب ریاست میں اس سے ذیادہ نہیں ہے؟پھر کیوں حکومت دیگر جرائم کے تدارک کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنارہی ہے ایسے نامناسب فیصلے ناکام حکمرانی کی بھی تصدیق کررہے ہیں کہا جاتا ہے حکومت اپنی رعایا کا اعتماد حاصل کرتے ہوئے چلائی جاتی ہے

اگر اسکے برعکس ہوتو وقت آنے پر رعایا انھیں دھول بھی چٹادیتی ہے بہر کیف ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آسام حکومت کی یہ ستم ظریفی کی کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

سید سرفراز احمد,بھینسہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *