جب مجھے شرمندہ ہونا پڑا

Spread the love

از قلم : مشتاق نوری :: جب مجھے شرمندہ ہونا پڑا

میری دانست کے مطابق آپﷺ کے بعد یہ دعوی صرف حضرت علی کو زیبا تھا کہ کہے “سلونی عما شئتم” یا “سلونی قبل ان تفقدونی”۔ویسے علم و فن کے اس سر چڑھتے ہنگامے میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ روز تحقیق و دریافت کے نئے در وا ہو رہے ہیں۔

روز کسی نابغۂ روزگار کے ہاتھوں نئے آسمان فکر و آگہی سر ہوتے ہیں ایسے میں ہمہ دانی کا دعوی کسی بھی عقل مند کو زیب نہیں دیتا۔اگر کسی نے نخوت علم کے بہکاوے میں آ کر کیا بھی ہوگا تو منہ کی کھائی ہوگی۔ہر سوال کا جواب بنا توقف کے دینے کا زعم ایک زعم فاسد ہے۔لاکھ تبحر عملی رہے ممکنات جہان کے کسی بھی موضوع پر بات کرنے کا دعوہ بشری استعداد کی حد بندی سے ماورا قضیہ ہے۔

ہمہ دانی کا بھرم پالنا شیطنت کی پیروی کرنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے حد درجہ محتاط اکابرین نے کئی مسائل میں لا ادری و لا اعلم کہ کر خود کو عقل کل کے زعم سے بری رکھا ہے۔ طبقۂ علم و دانش، حلقۂ عقل و خرد اور قبیلۂ فہم و ذکا کے نام یہ قدرت کا انتباہی الارم ہے کہ بحیثیت انسان تم بہت بڑے عالم علوم و ماہر فنون ہو سکتے ہو مگر قطعا اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم سے بڑا اور کوئی ہو نہیں سکتا۔”فوق کل ذی علم علیم” قرآن کا ایک واضح اشاریہ ہے کہ ہر جانکار سے اوپر کوئی بڑا جانکار متوقع ہے۔ذی علم اور علیم کے مابین یہی فرق ہے۔

بعض دفعہ ایسا بہت ممکن ہے کہ ایک ماہر فقیہ کے ذہن سے چھوٹے چھوٹے دینی مسائل محو ہو جائیں۔یا ایک ماہر طبیب جو بڑی بیماریوں کے نسخے لکھتا ہے نزلہ زکام جیسے ہلکے موسمی اثرات کی دوائیں تجویز کرنے میں خطا کر جاۓ۔مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فقیہ فقہ سے،طبیب طب سے جاہل ہو گیا ہے۔یہ وقتی غفلت ہے بس۔

بطور تحدیث نعمت یہ لکھنے کا حق بنتا ہے کہ راقم شروع سے بہت اسمارٹ طالب علم رہا ہے۔

اس لیے اپنا نظریہ یہ تھا کہ میں اسی کو حیطۂ تحریر و کلام میں لاتا ہوں جو پڑھ چکا ہوں۔کسی سنی سنائی بات یا عبارت کو نقل کرنے یا بولنے کا نہ عادی ہوں نہ قائل ہوں۔اگر میں نے کسی سے کوئی ایسا لفظ سن لیا جس کا مجھے علم نہیں تو میں دل ہی دل اس کا احسان مند ہوتا ہوں اور موقع ملتے ہی لغات و معاجم لے کر اس لفظ کی تلاش و دریافت شروع کر دیتا ہوں۔

اب تو موبائل نے ایسے کافی مسئلے حل کر دیے ہیں)یہ کوئی خود ستائش نہیں بلکہ ایک حق بیانی ہے کہ آج بھی میں ایسے الفاظ و جمل کو استعمال کرنے کے خلاف ہوں جو صرف شنیدہ ہیں دیدہ و خواندہ کی منزل سے نہیں گزرے۔ اس بات کے عملی ظاہرے میں یہاں اپنے ایک مشاہدے کا ذکر مفید رہے گا۔ایک دفعہ مظفر پور آئی ہاسپیٹل میں آنکھوں کے علاج کے لیے جانا ہوا۔

اس میں ڈاکٹرز کے جتنے بھی بطور معاون کام کرتے ہیں سب گریجوئیٹ یا اس سے بھی آگے کے ہوتے ہیں۔

ایک لڑکا جو اس سلسلے میں میری رہنمائی کر رہا تھا، ڈاکٹر سے بات کرتے ہوۓ Opthalmologist لفظ کا اپتھلمولسٹ تلفظ کر دیا جس پر ڈاکٹر نے نہ صرف اسے ڈانٹ پلائی بلکہ یہ بھی کہا کہ تم جس شعبے میں کام کرتے ہو تجھے اس کے اصل لفظ کا سہی علم بھی نہیں ہے یہ افسوسناک ہے۔

مذکورہ اصول کی رعایت خاص کر اس شخص کے لیے اور بھی ضروری ہے جو ایک بہتر لکھاری یا ادیب بننا چاہتا ہے۔خطا فی الفکر ہو کہ خطا فی اللفظ دونوں گہرے مطالعہ کا متقاضی ہیں۔

آپ ادیب یا قلمکار ہوں اور آپ کی مرقومہ عبارت و خط میں املا یا ساخت کی خامی پائی جاتی ہے یا کسی دخیل الفاظ کا غلط تلفظ کر لیا ہے تو اس سے آپ کی حیثیت پر حرف آتا ہے۔میں نے سوشل میڈیا پر کئی معروف لکھاری کی تحریروں میں یہ خامی دیکھی ہے (بہت ممکن ہے میری تحریروں میں بھی ہو۔

مجھے نہ زعم دانائی ہے نہ ہمہ دانی کا بھرم) بطور مثال ایک صاحب نے لکھا کہ سرکار نے فلاں کمپنی کو یہ “کونٹیکٹ” دے دیا ہے۔واضح رہے کہ کانٹیکٹ(contact) بمعنی رابطہ یا لگاو اور کانٹریکٹ (contract) بمعنی ٹھیکہ یا معاہدہ مختلف الفاظ ہیں۔

 

عدم علم کے سبب صرف شنیدہ پر بھروسہ کرکے کوئی اس کو الٹ پلٹ دے تو یہ اس کی ناواقفیت کی دلیل ہوگی۔

اسی طرح ایک صاحب کی چھ سطری تحریر میں “فیکچر” کو تین بار مستعمل دیکھا۔یہ بھی عدم علم کے نتیجے میں غلط لکھا گیا ہے۔

اگر اسے لغت سے پڑھ کر لکھا جاتا تو اس کی شکل فریکچر (fracture) ہی ہوتی۔ ۲۰۱۳ء کی بات ہے ادارۂ شرعیہ پٹنہ کی لائبریری میں فقہی اسٹرکچرز پر لکھی گئی پاکستان کے محمود احمد غازی کی “محاضرات فقہ”پڑھنے کا کئی بار موقع ملا ہے۔

ان کے لکھنے کا انداز مجھے پسند تھا۔محاضرات پر ان کی کئی کتب کی سیریز اس وقت مارکٹ میں ہے۔جیسے محاضرات فقہ، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت، محاضرات قرآن۔مجھے ان کتب کی شدید طلب لاحق تھی۔

اتفاقا مظفر پور کے ایک کتب خانے میں پتا کرنے گیا تو صاحب کتب خانہ نے کہا آرڈر دے دیں ہم منگوا دیں گے۔دکان میں دو تین پڑھے لکھے لوگ بیٹھے تھے ایک نے پوچھ لیا کہ حضرت محاضرات کا کیا معنی ہے۔

یہ اچانک جو پوچھا گیا تو مجھے بھی اچانک جواب دینا چاہئے تھا مگر میں کچھ بتا ہی نہیںسکا۔اس سے مجھے بے حد شرمندگی ہوئی۔میں جو ابھی کتاب پڑھنے کا دعوے دار تھا یکلخت دعووں کی پول کھل گئی۔سب ملیا میٹ ہو گیا۔میری معلومات کا سارا زعم تتر بتر ہو کے رہ گیا۔

وجہ بس اتنی تھی کہ میں نے وہ کتاب کئی بار پڑھی تھی مگر کبھی اس طرف ذہن گیا ہی نہیں کہ محاضرات کے معنی و مفہوم پر کچھ غور کر لیا جاتا۔اسے میری علمی سستی کہیے یا پھر جہالت۔ ۲۰۱۱ء میں مجھے پٹنہ کالج کے شعبۂ عربی میں گریجوئیشن کے لیے اپلائی کرنا تھا۔

مگر یونیورسٹی قانون کے مطابق مائگریشن کی ضرورت تھی۔اس کے لیے میں لکھنو مدرسہ بورڈ گیا۔اور مائگریشن جاری کرنے کی اپیل لگائی۔اگلے دن جب آفس پہنچا تو ایک کرتا پاجامے والے سینئر آفیسر نے مجھ سے پوچھ لیا کہ مائگریشن کا کیا مطلب ہے۔تقریبا دس لوگ بیٹھے تھے۔

سب مجھے تاک رہے تھے انہیں امید تھی کہ لڑکا بتا دے گا۔مگر میں ہکے بکے لاجواب رہ گیا۔کچھ بتا نہیں سکا۔خدا کی قسم اس وقت بھی مجھے اس قدر ندامت ہوئی تھی کہ آج بھی سوچ کر نادم ہو جاتا ہوں۔ ایک پرھے لکھے آدمی کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ جن نئے الفاظ سے ان کا پالا پڑ رہا ہے ان کے معنی و مفہوم پر توجہ دے لے۔ان کے درست تلفظ کو جان لے۔

کبھی ہم درسیات یا مطالعہ میں کئی کتاب پڑھ لیتے ہیں مگر کتاب کے معنی مطلب پر دھیان ہی نہیں دیتے۔

یہ لا ابالی پن ہے جو جہالت کے زمرے میں آتا ہے۔ چلتے چلتے عرض کر دیں کہ “محاضرات” جمع ہے اس کا معنی ہے خطبات، لکچرز، یاد داشت یا تاریخ کی باتیں۔اسی طرح migration یا emigration دونوں کا مطلب ہے ہجرت کرنا، نقل مکانی کرنا، ایک تعلیمی بورڈ سے دوسرے بورڈ کو چلے جانا۔کاش یہ معانی میں نے پہلے معلوم کر لیے ہوتے تو ندامت کے تکلیف دہ پل نہیں جھیلنے پڑتے۔ایک اسمارٹ طالب علم کے لیے یا ایک معروف محقق و قلمکار کے لیے الفاظ و آداب کی پرکھ بھی اتنی اہم ہے۔

تسلیم لکھنوی کے لفظوں میں۔ کیوں خرابات میں لافِ ہمہ دانی واعظ کون سُنتا ہے تِری ہرزہ بیانی واعظ دفترِ وعظ کے نقطے بھی نہ ہوں گے اتنے جتنے ہیں دل میں مِرے داغِ نہانی واعظ

از : مشتاق نوری

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *