تفریح کے نام پر آوارگی کب تک

Spread the love

تحریر: غلام مصطفی نعیمی تفریح کے نام پر آوارگی کب تک ؟۔

تفریح کے نام پر آوارگی کب تک

سفر مالوہ (12 تا 15 اکتوبر) کے درمیان سات ربیع الاول کو شہر مندسور میں خطاب کرنا تھا۔سورج اپنی کرنوں کو سمیٹ کر دوسری دنیا کو روشن کرنے کے لیے رخت سفر باندھ رہا تھا اور میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ ہرے بھرے کھیتوں کے درمیان چوڑی سڑک پر سرپٹ دوڑتی بس نے مغرب سے پہلے ہی مندسور پہنچا دیا۔

بس اڈے پر ہمارے میزبان محترم وسیم میو محو انتظار تھے۔شہر کی مختلف گلیوں سے گزرتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں ان کے مکان پر پہنچ چکے تھے۔اسی دن ہندوؤں کا مذہبی تہوار گَربا  بھی تھا۔جس کی وجہ سے شہر میں اچھی خاصی بھیڑ بھاڑ اور رونق نظر آرہی تھی۔

گَربا ایک گجراتی تہوار ہے جو نَوْراتری کے موقع پر منایا جاتا یے۔یہ تہوار پہلے پہل صرف گجرات اور علاقہ مالوہ کے مدھیہ پردیش اور راجستھان وغیرہ میں منایا جاتا تھا مگر اب یہ تہوار تقریباً پورے شمال بھارت اور ممبئی وغیرہ میں نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔اس موقع پر ہندو خواتین سج دھج کر پوجا وغیرہ کرتی ہیں اور مٹی کے سوراخ دار گھڑے میں چراغ جلا کر ایک جگہ رکھ دیتی ہیں، پھر ساری خواتین مل کر اس کے ارد گرد ناچتی ہیں۔

اسی موقع پر ڈانڈیا )  بھی منایا جاتا ہے۔یہ بھی ناچ گانے ہی کا پروگرام ہوتا ہے مگر اس میں مرد وعورت مل کر ناچتے ہیں۔ناچنے کی صورت بھی ذرا الگ ہوتی ہے، سب کے ہاتھوں میں لکڑی کی چھوٹی چھوٹی سجی ہوئی ڈَنڈِیاں ہوتی ہیں۔مرد وعورت ناچتے ہوئے آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے ڈنڈیاں لڑاتے ہیں اور رات بھر ناچ رنگ میں مگن رہتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ یہ تہوار اپنے دائرے تک ہی محدود تھا مگر ہندی سنیما نے مختلف فلموں میں فلما کر اسے حد درجہ  اور مشہور کردیا۔ جس کی بنا پر یہ تہوار اب بہت بڑے پیمانے پر منایا جاتا ہے۔اس تہوار میں خواتین بالخصوص نوجوان لڑکیاں شامل ہوتی ہیں اس لیے فطری طور پر نوجوان لڑکے اس تہوار کے بڑے منتظر رہتے ہیں، اس پر فلموں نے گَربا اور ڈانڈیا کو فلمی رنگ دے کر، اس پر مختلف رومانی گانے فلما کر اسے حد درجہ پر کشش بنا دیا ہے

اس لیے بھی اس تہوار کے موقع پر چہل پہل معمول سے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے۔اب جہاں مرد وعورت، خصوصاً نوجوان لڑکے لڑکیاں مل کر ناچیں اور دھمال مچائیں وہاں ہنگامہ نہ ہو، ایسا تو تریتا یُگ (ہندوؤں کے زمانہ خیر) میں بھی ممکن نہیں تھا اب تو ویسے بھی کَل یُگ (برا زمانہ) چل رہا ہے، اس میں فتنہ نہ اٹھے ایسا بھلا کہاں ممکن ہے، اس لیے ان تہواروں کے مواقع پر چھیڑ چھاڑ اور دست درازی کی شکایتیں بھی آتی رہتی ہیں۔

افسوس ناک پہلواسے معاشرتی مغلوبیت سمجھیں، آوارگی کا شوق کہیں، یا پھر دین سے دوری کا نتیجہ، مگر یہ حقیقت ہے کہ بہت سارے مسلم نوجوان بھی گَربا اور ڈانڈیا میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔بعض جگہ تو مسلم نوجوان اتنے  اور فعال ہوتے ہیں کہ ان پروگراموں کی انتظامیہ کا حصہ تک بن جاتے ہیں۔

ان علاقوں میں مسلم آبادی کا تناسب حد درجہ کم ہے، آبادیاں مخلوط ہیں اس لیے مسلم جوانوں کا اٹھنا بیٹھنا ہندو نواجونوں کے ساتھ ہوتا رہتا ہے اس لیے ان کی شرکت پر کسی کی نگاہ ٹیڑھی نہیں ہوئی مگر جب سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت بڑھی تو بہت سارے ہندو افراد کو مسلم نوجوانوں کی شرکت کھٹکنے لگی اور وہ ان کی مخالفت پر اتر آئے۔

لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی چھیڑ چھاڑ کا ٹھیکرا بھی مسلمانوں کے سر ہی آنے لگا۔مگر مسلم جوانوں کو غیرت نہیں آئی۔شوق آوارگی میں انہوں نے گَربا وڈانڈیا میں جانا نہیں چھوڑا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ بہت سی جگہوں پر منتظمین نے ان تہواروں میں شرکت کے لیے ایسی شرطیں لگانا شروع کر دیں جنہیں پورا کرنا کسی بھی غیرت مند مسلمان کے لیے ناممکن ہے۔


کچھ مقامات پر مسلم نوجوانوں سے کہا گیا کہ گَربا اور ڈانڈیا میں شرکت کرنے کے لیے اپنی بہن کو ساتھ لائیں، کہ جب آپ ہماری بہن بیٹیوں کے ساتھ ناچنا چاہتے ہیں تو ہم آپ کی بہن کے ساتھ کیوں نہیں ناچ سکتے؟
کچھ جگہ شرکت کے لیے گائے کا پیشاب پینا لازم کیا گیا۔
بعض جگہ دیوی دیوتاؤں کی پوجا میں شرکت لازمی کی گئی۔
ان شرطوں کے پیچھے ان کا مقصد بالکل صاف ہے

۔:1؛ یا تو مسلمان ان شرطوں کی وجہ سے ان کے تہواروں میں آنا بند کردیں گے

۔2؛ یا ان شرطوں کو ماننے کی صورت میں مسلمانوں کی غیرت اور ایمان برباد ہوگا۔دونوں ہی صورتیں ان کے لیے فائدہ مند ہیں۔یہاں مسلم نوجوانوں کے لیے سوچنے کا وقت ہے کہ وہ وقتی تفریح اور جنسی لذت کی خاطر گَربا وڈانڈیا میں جانا بند کریں گے یا اپنے دین اور غیرت کو قربان کریں گے؟

مسلم نوجوان یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ابھی تو وہی ہندو لڑکیوں کے ساتھ ناچ گانا اور موج مستی کر رہے ہیں اگر انہوں نے اپنی روش نہیں بدلی تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم لڑکیاں بھی ان تہواروں میں شرکت شروع کردیں اور جو تماشا آپ ہندو لڑکیوں کے ساتھ کرتے ہیں وہی تماشا آپ کی بہن بیٹیوں کے ساتھ بھی شروع ہوجائے۔ کیوں کہ کوئی بھی برائی زیادہ دیر تک چھپتی ہے نہ رکتی ہے۔جب آپ خود ان


غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سوادِ اعظم دہلی

ان مضامین کو بھی پڑھیں

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *