ٹھاکرے کو دیوار سے لگانے کی کوشش
ٹھاکرے کو دیوار سے لگانے کی کوشش
مشرف شمسی
شیو سینا کا نام اور انتخابی نشان فریز یعنی سرد خانے میں ڈال دیا گیا یا منجمد کر دیا گیا ہے ۔ حالاں کہ یہ کاروائی الیکشن کمیشن نے کیا ہے لیکن اس کاروائی کے ذریعے مودی اور شاہ نے سبھی علاقائی جماعتوں کو ایک سندیش ضرور دے دیا ہے کہ اگر کوئی بھی جماعت اُنھیں حکومت سے بے دخل کرنے کی بات سوچتی بھی ہے تو اس کا حشر ٹھاکرے اور شیو سینا جیسا ہوگا یعنی پوری کی پوری پارٹی کو دیوار سے لگا دیا جائے گا ۔
انتخابی نشان اور پارٹی کا نام فریز ہو جانے کے بعد ٹھاکرے پریوار کے سامنے نئے سرے سے پارٹی کو کھڑا کرنے کا چیلنج ہے۔ٹھاکرے پریوار کے سامنے اس چیلنج کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ٹھاکرے اب بی جے پی کے ساتھ جا نہیں سکتے ہیں لیکن اب بھی بی جے پی کی جانب سے یہ کوشش ضرور ہو رہی ہو گی کہ کسی طرح ٹھاکرے اُن کے ساتھ آ جائیں۔
-
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- سپریم کورٹ کا امتحان
- باون گز کا قاتل
2024 کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے ٹھاکرے کو بی جے پی کے ساتھ لانا اسلئے بھی ضروری ہے کہ بنا ٹھاکرے کے بی جے پی مہاراشٹر میں گزشتہ لوک سبھا چناؤ کے مقابلے نصف سیٹ بھی جیت لیے تو یہ اُن کے لئے بڑی کامیابی ہوگی۔مہاراشٹر میں کل 48 لوک سبھا سیٹیں ہیں اور گزشتہ لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی اور شیو سینا مل کر 43 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔
لیکن ٹھاکرے پریوار کا بی جے پی سے الگ ہو کر چناؤ لڑنے کا مطلب ہے کہ بی جے پی کے نمبر میں بڑا سیندھ لگ سکتا ہے اور بی جے پی کے لیے 2024 کے لوک سبھا چناؤ میں اکثریت حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا ۔
جہاں تک شیو سینا کا انتخابی نشان اور پارٹی کا نام منجمد کیئے جانے کا امکان صرف شیو سینا کے اعلی رہنماؤں کو ہی نہیں تھا بلکہ گزشتہ آٹھ سال سے ملک میں مودی اور شاہ کی سیاست کا اے بی سی بھی جانتے ہیں اُنھیں بھی معلوم تھا کہ ایسا ہونے والا ہے۔اسلئے ٹھاکرے اور اسکی پارٹی اسکے لیے پہلے سے تیار تھی۔
لیکن شیو سینا کے انتخابی نشان اور پارٹی کے نام کو منجمد کر دیے جانے سے اگر بی جے پی اور شندے گروپ خوش ہیں تو اُنھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ شیو سینا کا مطلب ہی ہوتا ہے ٹھاکرے پریوار ۔ٹھاکرے کے بنا شیو سینا کا وجود ہی نہیں ہے ۔ساتھ ہی شیو سینا کیڈر کی بنیاد پر بنی ایک پارٹی ہے۔
انتخابی نشان اور پارٹی کا نام چھین لیے جانے کے باوجود ٹھاکرے کے نام پر ووٹ ملتے ہیں اور ملیں گے اس میں کسی طرح کی شک کی گنجائش نہیں ہے ۔ٹھاکرے مہاراشٹر کی سیاست کا ایک مضبوط کھمبا ہیں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
انتخابی نشان اور پارٹی کا نام منجمد کیئے جانے سے ٹھاکرے کے تئیں مراٹھی مانوس کی ہمدردی میں اور اضافہ ہوگا۔جب ٹھاکرے ،کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس ایک ساتھ مل کر چناؤ میں بی جے پی سے مقابلہ کرنے اُترے گی تو یقیناً بی جے پی کے لیے مشکل کھڑی ہوگا۔۔
شیو سینا کو جس طرح سے تقسیم کیا گیا اور اب شیو سینا سے پارٹی کا نام اور چناؤ نشان چھین لیا گیا ہے اس سے حزب اختلاف کی دوسری علاقائی پارٹیاں الرٹ پر آ گئی ہیں ۔ خاص کر نتیش کمار کی جنتا دل یو اور تلنگانہ کی چند شیکھر راؤ کی پارٹی میں کسی بھی طرح کی شگاف نظر آئی تو اُسے بکھیرنے میں وقت نہیں لگے گا ۔
اس لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کو بی جے پی کی گھیرا بندی سے پہلے اپنا قلعہ مضبوط کرنا ہوگا۔کیونکہ بی جے پی کے پاس بےتحاشہ پیسہ ہے اور ساتھ میں جانچ ایجنسیاں جس کی مدد سے اچھے اچھے کی کمر توڑی جا سکتی ہے اور جا رہی ہیں ۔اس لیے 2024 کے لوک سبھا چناؤ سے پہلے بی جے پی ہر طرح کے ہتھکنڈے کا استعمال کرے گی تاکہ اس مخالف حالات میں بھی اُسے کسی بھی طرح اکثریت حاصل ہو جائے۔
لیکن 2024 کے چناؤ سے پہلے حزب اختلاف کی سبھی پارٹیاں خاص کر کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس کی ذمےداری بنتی ہے کہ وہ سب شیو سینا کا ساتھ دے تاکہ شیو سینا کو دیوار سے لگانے کی جو کوشش ہو رہی ہے اس سے ٹھاکرے کو باہر نکالا جائے ۔
کیوں کہ ہندوتو کے نام پر ٹھاکرے اور اسکی پارٹی ہی بی جے پی سے مقابلہ کر سکتی ہے۔کانگریس اور راشٹر وادی کانگریس نے سمجھداری کا کام کیا ہے کہ اندھیری مشرق میں ہونے والی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ٹھاکرے کے امیدوار کو اپنی حمایت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اندھیری مشرق اسمبلی حلقہ کے چناؤ نتیجے مہاراشٹر کی آگے کی سیاست کی حقیقت بیان کر دےگی۔
مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787
Pingback: کھرگے کے سامنے چیلنج ⋆ اردو دنیا
Pingback: ملک میں دو بھارت ⋆ مشرف شمسی