یہی وہ قرآن ہے جو لوح محفوظ پر درج ہے
یہی وہ قرآن ہے جو لوحِ محفوظ پر درج ہے
تحریر: (قاری) رئیس احمد خان
صدر: شعبۂ حفظ و قراءت دارالعلوم نورالحق، چرہ محمدپور، فیض آباد، ضلع ایودھیا، یوپی
قرآن: لوحِ محفوظ سے امتِ مسلمہ تک*اللہ رب العزت فرماتا ہے:> بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ(بلکہ یہ تو وہی بزرگ و برتر قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں ثبت ہے۔) [سورۃ البروج: 21-22]یہی وہ قرآنِ پاک ہے جو ازل سے لوحِ محفوظ میں محفوظ ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب،صاحبِ قرآن، سید المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر سید الملائکہ، امین الوحی حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعہ نازل فرمایا:> شَهْرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِىٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلْقُرْءَانُ(رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔) [سورۃ البقرۃ: 185]یہ ایک معجزاتی کتاب ہے، جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمۂ کرم پر لی ہے:> إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ(بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔) [سورۃ الحجر: 9]
قرآن کی حفاظت کا تاریخی سفر
عہدِ نبوی میں حفاظت:*رسول اللہ ﷺ کے دور میں قرآن کریم کو دو بنیادی ذرائع سے محفوظ رکھا گیا:*1. حفظِ زبانی:* صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسے اپنے سینوں میں محفوظ کیا۔*2. تحریری شکل:* مختلف صحابہ نے اسے چمڑے، ہڈیوں، کھجور کے پتوں اور دیگر اشیاء پر لکھا۔*عہدِ صحابہ میں تدوین و ترتیب:*رسول اللہ ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے پر قرآن کو ایک جامع کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔ بعد میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں اسے “رسمِ عثمانی” کے مطابق مزید مستحکم کیا گیا، تاکہ قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف نہ ہو سکے۔
قرآن کی ابدی حفاظت، ایک روح پرور واقعہ
یہی قرآن جو لوحِ محفوظ میں درج ہے، اس کی صداقت ایک تاریخی واقعے سے بھی واضح ہوتی ہے:. ملاحظہ فرمائیں! شہنشاہ ہند، حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ رمضان المبارک میں دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد میں تراویح کی امامت فرما رہے تھے۔ صفِ مقتدیان میں حضرت شاہ محب اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے۔دورانِ تراویح، حضرت اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ کی قراءت میں ایک آیت پر حضرت شاہ محب اللہ رحمہ اللہ کو سہو (غلطی) کا احساس ہوا، تو انہوں نے لقمہ دیا۔
نماز مکمل ہونے کے بعد بادشاہ نے شہنشاہی جلال میں فرمایا:”وہ کون ہے جس نے میرے حافظے کو چیلنج کیا؟”حضرت شاہ محب اللہ رحمۃ اللہ علیہ آگے بڑھے اور عرض کیا:”لقمہ دینے والا میں ہوں، محب اللہ الہ آبادی!”بادشاہ کو اپنے حافظے پر مکمل اعتماد تھا، لہٰذا مختلف کتابت شدہ قرآنی نسخے منگوائے گئے۔ نو نسخے اکٹھے کیے گئے، جن میں سے پانچ حضرت اورنگزیب کی قراءت کے مطابق تھے اور چار حضرت شاہ محب اللہ کی قراءت کی تائید کر رہے تھے۔
بظاہر فیصلہ بادشاہ کے حق میں تھا، مگر حضرت شاہ محب اللہ رحمہ اللہ نے کہا:”بادشاہ! تم قرآن کو حروف و اوراق میں پڑھتے ہو، میں اسے لوحِ محفوظ میں دیکھ کر پڑھتا ہوں!”پھر حضرت شاہ محب اللہ رحمہ اللہ نے بادشاہ کے سر پر ہاتھ رکھا، اور جیسے ہی ہاتھ رکھا گیا، اللہ کے فضل سے حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ بھی وہی قرآن دیکھنے لگے جو لوحِ محفوظ میں درج تھا۔ تب انہیں حقیقت معلوم ہوئی کہ یہی وہ قرآن ہے جو ازل سے محفوظ چلا آ رہا ہے۔*حفاظ کرام، عہدِ نبوت کی عظیم امانت کے وارث:*آج بھی لاکھوں حفاظ کرام قرآن پاک کو اپنے سینوں میں محفوظ کرتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک میں نمازِ تراویح میں سناتے ہیں۔ بلاشبہ وہ سبھی حفاظ کرام عظیم سعادتوں کے حامل ہیں اور ان کا مقام مرتبہ بہت بلند ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:> “خیرکم من تعلم القرآن وعلمه”(تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔) [بخاری: 5027]
یہی وہ سعادت ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ قرآن کے الفاظ میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں-قرآن کریم کی عظمت یہ ہے کہ جس پر غسل فرض ہو وہ بغیر پاکی حاصل کیے اسے نہیں پڑھ سکتا اور بغیر وضو کے اسے چھونا جائز نہیں کیوں کہ:> لَّا يَمَسُّهُۥ إِلَّا ٱلْمُطَهَّرُونَ(اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔) [سورۃ الواقعہ: 79]
ہمارا فرض، قرآن سے عملی تعلق
اب ہم سب پر لازم ہے کہ ہم:✅ قرآن پاک کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں۔✅ اس کے اسرارورموز کو سیکھیں-✅ اس کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔✅ اس پر عمل پیرا ہوکر اپنی دنیا و آخرت سنواریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن سے حقیقی محبت اور اس کا صحیح فہم عطا فرمائے
اسے ہماری زندگی کا راہنما بنانے اور ہم سبھی لوگوں کو اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!