میرا تو ٹکٹ کنفرم ہے

Spread the love

میرا تو ٹکٹ کنفرم ہے !

مفتی محمدشمس تبریز علیمی

دنیا میں آئے دن کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آہی جاتاہے۔ جگ بیتی کا کیا کہنا ہے۔ یہ تو قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے۔ اور رہتی دنیا تک یہ سلسلہ چلتاہی رہے گا۔

اس مختصر سے مقالہ میں آپ بیتی کا سنہرا باب پیش کیا جارہاہے۔ ہیڈنگ دیکھ کر یقیناً آپ چونک گیےہوں گے کہ آخر اس کا مطلب کیاہے ؟ اور آنے والے اقتباسات کس بات کی غمازی کرنے والے ہیں؟ تو سب سے پہلے آپ ہوش وحواس پر کنٹرول رکھیں اوراطمینان وسکون کے ساتھ آنے والی سطورکوپڑھیں !

سن ۲۰۰۵ء کے اواخرکی بات ہے جب راقم صوبہ بہار کے ایک مردم خیز ضلع پورنیہ ،کے ایک عظیم دینی ادارہ ’’دارالعلوم کلیمیہ ‘‘اردو بازار،قصبہ میں زیر تعلیم تھا۔  دوردراز اورقرب وجوار کے تقریباً ڈیڑھ سو طلبہ اس ادارہ میں اپنی علمی پیاس بجھارہے تھے۔ وقت کے ایک عظیم بزرگ صوفی کلیم علیہ الرحمہ کے نام سے یہ ادارہ منسوب ہے۔

قریب ہی ’’دوگچھی ‘‘ نامی سنیوں کا علم دوست گاؤں واقع ہے۔ اسی گاؤں کے رہنے والے جناب محمد اسلم مرحوم جو ایک رئیس اورشریف ،دیندار،تقویٰ شعار شخص تھے۔ان کا گھر ہمیشہ سے علما وطلبہ کی مہمان نوازی کے طورپر متعارف رہاہے۔

اسی روش پر چلتے ہوئے ان کی اولاد بھی ’’دارالعلوم کلیمیہ‘‘ کے اساتذہ وطلبہ اور علماء اہل سنت کی خدمات اپنے لیے باعث فخر سمجھتی رہی ہے۔جس وقت راقم اس ادارہ میں ابتدائی درجہ کا طالب علم تھا اسی وقت سے اس علمی گھرانے کے بڑے ،چھوٹےہر ایک سے گہرے تعلقات ہیں ۔ اور اس گاؤں کے دوسرے افراد سے بھی اچھے روابط ہیں ۔

کیوں کہ تقریبا ًہر گھر کے بچے اسی ادارہ میں دینی تعلیم حاصل کیاکرتے تھے۔جناب محمد اسلم مرحوم علیہ الرحمہ کے پوتے اورنواسے سے کچھ زیادہ ہی محبت والفت کا لگاؤ تھا۔

ایک سال اس ادارہ میں رہا اور صوفی اسلم مرحوم کے پوتے محمد فیصل رضاابن فضل الرحمٰن اوران کےنواسے جناب محمدناصر رضا ودیگر طلبہ کے ساتھ ہم ۹/شوال المکرم کومرشدِ مخدوم سمنانی حضور مخدوم العالم شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات ابن اسعد لاہوری علیہماالرحمہ کے آستانہ کے قریب حضور اشرف الاولیاء علیہ الرحمہ کے لگائے ہوئے چمن، مرکزعلم وفن ’’مخدوم اشرف مشن‘‘ پنڈوہ شریف ،مالدہ ،مغربی بنگال، تحصیل علم کے لیے پہنچے ۔

یہاں بابو ناصر رضا اورفیصل رضا شعبۂ حفظ میں پڑھنے لگے اورراقم درس نظامیہ میں مصروف تعلیم رہا۔ بچپن ہی سے ناصر ایک دل کش ودل فریب آواز کا مالک تھا۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ہی آواز میں مزید نکھار پیدا ہوتا رہا ۔’’مشن ‘‘ کے اساتذہ وقتاً فوقتاً بلا کر نعت نبی سنا کرتے تھے۔

تقریباً ایک سال بعد ناصر رضا کونکسیرکا مرض لاحق ہوگیا جس بنا پر علاج ومعالجہ کے لیے تعطیل لینی پڑی اورسوئے اتفاق کہ جب جامعہ واپس آتا تویہ مرض عود کرجاتا، اسی بنا موصوف کی تعلیم موقوف ہوگئی ۔ ناصر رضا ممبئی کے والدین چوں کہ عروس البلاد ممبئی میں بود وباش اختیار کئے ہوئے تھے۔ وہیں خود کا کاروبار چلتا تھا۔  لہٰذا ناصر کوممبئی بلایا گیا۔

چند برس ممبئی میں ہی حفظ وقرأت کی تعلیم کے حصول میں منہمک رہے۔ جامعہ علیمیہ ،جمداشاہی ،بستی ،یوپی سے فراغت کے بعد وہاں کے شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد قمر عالم مصباحی صاحب قبلہ ادام اللہ ظلہ العالی کے توسل سے ’’دارالعلوم علی حسن اہل سنت ،ساکی ناکہ ،ممبئی میں درس وتدریس کے لیے ناچیز کی تقرری ہوئی تو سب سے پہلے بغرض ملاقات اوراس اجنبی شہرمیں اپنائیت کا احساس دلانےمیراعزیز بابو ناصررضا ممبئی آیا۔اور اپنے والدین کاسلام محبت پیش کیا ۔ ساتھ ہی گھر آنے کے لیے بے حد اصرار کرتے ہوئے آمد کا وعدہ لے لیا۔

ممبئی میں تعلیم وتربیت کے زمانہ ہی سے موصوف تدریجاً تدریجاً ثناخوانِ مصطفیٰ کی حیثیت سے معروف ہونے لگے پھر کیاتھا دیکھتے ہی دیکھتے وطن عزیز ملک” بھارت” کے اکثر صوبوں میں مداحِ خیراالانام کے نام سے مشہور ہوگیے۔سیمانچل کی سرزمین سے ابھرنے والی ایک ایسی آواز جس نے بہت ہی کم دنوں میں پوری دنیاے نعوت ومناقب میں اپنا سکہ جما لیا۔

سب سے اہم خصوصیت اس کم سن ثناخوان ِ مصطفیٰ کی یہ تھی کہ اکثربزرگوں کا تصوفانہ وعارفانہ کلام ایسے صوفیانہ طرز میں پڑھتے تھے کہ علما و صوفیا سن کرمچل جایا کرتے تھے ۔بناؤٹی نازو نخرے سے پاک رہا کرتے تھے ۔ نذرانہ بٹورنے کے لیے کسی قسم کی ایکٹنگ ،اداکاری سے دور کا شائبہ تک نہ تھا۔

 

بروز اتوار، بتاریخ : 17، ذی الحجہ 1443ھ مطابق : 17،جولائی 2022ء کو سرزمین دو گچھی، قصبہ، پورنیہ ،بہار میں حافظ و قاری محمد فیصل رضا علائی رشیدی سلمہ کی والدہ مرحومہ،ناصر رضا ممبئی کی مامی جان کے ایصالِ ثواب کی محفلِ چہلم میں راقم بحیثیت خطیب موجود تھا ۔ اس پروگرام کی سرپرستی مصنف کتب کثیرہ، قاضی سیمانچل، مناظر اہل سنت، حضرت علامہ و مولانا مفتی زبیر عالم صدیقی صاحب قبلہ فرما رہے تھے۔ پروگرام تقریباً ۲/ بجے شب اختتام پذیرہوا۔

دور دراز سے آئے ہوئے مہمان ومیزبان وغیرہ تھکے ماندے تھے، سارے لوگ بستر استراحت پردراز ہوگئے۔دو مداحان کومدعوکیاگیاتھا۔ جن میں سے ایک اپنی بائک سے اپنے ساتھی کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔ دوسرے ثناخوان رسول جناب شہادت حسین حبیبی تھے جن کورخصت کرنے کے لیے ’’زیرومائل،گلاب باغ، پورنیہ ‘ جانا تھا۔عزیزم ناصر رضا ممبئی نے مجھ سے کہا کہ ’’شمس بھائی‘‘میرے ساتھ چلیں گے؟ ۔

میں نے سوچا کہ نیند تو ویسے بھی آنے والی نہیں ،چلو چلا جائے ،اسی بہانے پرانی یادیں تازہ ہوجائیں۔ بہر حال ہم تینوں فورویلر سے ’’زیرومائل‘‘ پہنچے ،بس کا انتظار تھا۔ اتنے میں عزیزم ناصر رضا وہاں کی مشہور دکان سے لذیذ و ذائقہ دار چائے لائے اورہم تینوں نے مل کرچائے نوشی کی۔ کچھ لمحات گفت وشنید کی محفل جاری رہی کہ اتنے میں سلی گوری جانے والی بس آگئی اورہمارے معزز مہمان ہم سے رخصت ہوگئے۔

وہاں سے ہم دونوں تقریباً ساڑھے تین بجے ’’دوگچھی‘‘پہنچے ۔ میں نے سوچاکہ اگرسوگیا توشاید فجرکی نماز ترک ہوجائے گی ۔ اسی لیے ناصر رضا کے ساتھ گفتگو شروع ہوگئی ۔ وہ اپنی آب بیتی سناتے رہے اورمیں سنتا رہا ……………….. عزیزم ناصر رضا ممبئی ہرسال عرس مخدومی کچھوچھہ مقدسہ اورعرس رضوی بریلی شریف جایا کرتے تھے ۔

اثنائے گفتگو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس بار عرس مخدومی میں آپ جا رہے ہیں کیا ؟۔  میں نے کہا اب تک ارادہ نہیں بنا ہے، دیکھتاہوں کیا ہوتا ہے؟ اتنا سن کر ناصر رضانے کہا کہ :’’میرا توٹکٹ کنفرم ہے !‘‘۔

نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہم دونوں سوگئے اورپھرظہرکے وقت بیدارہوکر میں قطب پورنیہ حضور شیخ جمال الحق مصطفیٰ بندگی ودیگر اولیا چمنی بازار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بارگاہ کے لیے عازم سفر ہوا۔

اوراس طرح یہ ملاقات نہایت ہی خوش گوار رہی۔ گھرپہنچ کر تیسرے روز وطن اقامت کی جانب نکل پڑا اوریہاں پہنچ کر خدمت دین وسنیت میں مشغول تھا کہ ۲/اگست ۲۰۲۲؁ مطابق ۳/ محرم الحرام ۱۴۴۴؁ھ بروز منگل بعد نماز مغرب موبائل فون پر بیل بجی ،دیکھا توایک پرانے دوست کا نام اسکرین پرنظرآیا۔

کال رسیوکرتے ہوئے سلام ودریافت احوال سے فارغ ہواتو اس نے فوراً اطلاع دی کہ ناصر رضا ممبئی ہمارے بیچ نہیں رہے ! میری زبان سے اچانک یہ جملہ نکلا کہ بالکل غلط، ایسا نہیں ہوسکتا۔

اورواقعی میرے لیے یہ خبرناقابل یقین تھی ۔ کیوں کہ دو روز قبل ہی ناصر رضا نے پٹنہ سے بہت دیر تک بات کی تھی۔ اور طبیعت بھی درست ہی تھی۔ خیر اس نے کہا کہ آپ اس کی تحقیق کرلیں ۔ جب میں نے ان کے ماموں زاد برادران ودیگر خویش و اقارب سے رابطہ کرنے کی کوشش کی توکسی نے بھی فون رسیو نہیں کیا۔

اس کے بعد میری قلبی اضطرابی بڑھنے لگی ،جوں ہی سوشل میڈیا کھولاتو دیکھا کہ ہر طرف سے یہ جانکاہ خبر گردش کررہی ہے۔ تب دل نے کہا کہ واقعی ہردل عزیز بے لوث اور علما کا احترام کرنے والا،طلبہ سے شفقت برتنے والاہم سب کا پیارا’’ناصر رضا‘‘اللہ کوپیارا ہوگیا۔

زبان سے کلمہ استرجاع جاری ہوگیا۔ اورقلب ولسان نے رقت کے ساتھ دعائے مغفرت کیا۔ اورقلب مضمحل و ذہن مضطرب بول اٹھا:

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا 

آدمی بلبلا ہے پانی کا

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے 

زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے۔

فرش گیتی پر جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن داعی اجل کو لبیک کہنا ہے ،اور دارِ فانی سے دارِ بقا کو رحلت کرنا ہے۔ دنیا کے سفر میں ہر انسان محوِ سفر ہوتاہے کہ ایک روز دنیا اورآخرت کے درمیان موت کی دہلیز پر پہنچ جاتاہے۔ یہ بات بھی مبنی برحقیقت ہے کہ بغیر وقت مقررہ کے کسی کو ہر گز موت نہیں آسکتی ہے۔

یقین جانیں ناصر رضا ممبئی سے میری آخری ملاقات میں جو باتیں ہوئیں وہ ایک عظیم یاد گار ہیں ۔ اور ناصر رضا کا یہ جملہ کہ ” میرا تو ٹکٹ کنفرم ہے” اس نے موت سے پندرہ روز قبل ہی یہ آگاہ کر دیا تھا کہ سفر آخرت کے لیے میرا ٹکٹ بالکل کنفرم ہو چکا ہے ۔ اللہ رب العزت سے دعاہے کہ مولیٰ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے عزیزم ناصر رضا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین ۔

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *