دینی مدارس کا سروے

Spread the love

دینی مدارس کا سروے ::: (روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

ودود ساجد

اگر ایک لمحہ کے لیے یہ قبول بھی کرلیا جائے کہ یوپی میں دینی مدارس کے سروے کا فیصلہ مسلمانوں کے ان بچوں کی سماجی فلاح کے منصوبے بنانے کے لیے کیا گیا ہے‘ جو ان دینی مدارس میں فقط دینی علوم حاصل کرتے ہیں‘ تب بھی مسلمانوں کے تعلق سے حکومتوں نے جو رویہ روا رکھا ہے اور جس عملی تعصب و امتیاز کا ثبوت دیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اب ان کی وضاحتیں اور یقین دہانیاں مصنوعی لگتی ہیں

یوپی حکومت کا سرکولر اور دوسری تفصیلات کا جائزہ بتاتا ہے کہ حکومت کو دو پہلوئوں کا ’سراغ‘ لگانے کی بہت عجلت ہے:

1  مدارس کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے اور

2  متعلقہ مدرسہ کو کون سی تنظیم چلاتی ہے۔

بظاہر ان دونوں پہلوئوں کی تفصیل عام ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔یہ تو معلوم ہی ہونا چاہئے کہ ’غیر سرکاری‘ مدارس کی آمدنی کہاں سے ہوتی ہے اور انہیں کون سی تنظیم یا تنظیمیں چلارہی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں دینی مدارس کے قیام کی ابتدا سے آج تک کیا حکومت کو علم ہی نہیں ہوسکا کہ مدارس کا ذریعہ آمدنی کیا ہوتا ہے؟ سب کو معلوم ہے کہ مدارس عوامی چندے سے چلتے ہیں۔ چھوٹے مدارس اندرون ملک مساجد میں اپنے سفیروں کو بھیجتے ہیں جو نمازیوں کو مدارس کی ضرورت اور خدمت کی تفصیل بتاکر ان سے چندہ دینے کی اپیل کرتے ہیں۔بڑے مدارس کو بڑے مسلم کاروباری اور مخیر ادارے منظم طور پر چندہ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ غیر ملکوں میں مقیم ہندوستانی اگر چندہ دیتے ہیں تو وہ باقاعدہ سرکاری چینل کے ذریعہ دیتے ہیں۔حالانکہ اب تو یہ سلسلہ بھی بہت عرصہ سے تھما ہوا ہے۔اکثر بڑے مدارس ایک ٹرسٹ بناکر سرکار سے مختلف قسم کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں جس کے تحت انہیں ایک طرف جہاں چندہ لینے کی اجازت ہوتی ہے وہیں دوسری طرف چندہ دہندگان کو اس رقم پر ٹیکس میں چھوٹ بھی ملتی ہے۔۔۔

بڑے مدارس کی مجلس منتظمہ اور مجلس شوری ہوتی ہے۔چھوٹے مدارس کو بھی چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں چلاتی ہیں۔البتہ بیشتر انتہائی چھوٹے مدارس ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں کوئی ایک فرد چلاتا ہے۔ان کی آمدنی قابل ذکر نہیں ہوتی۔وہ بس اس مقصد سے چلتے ہیں کہ ان کے ذریعہ دور دراز کے علاقوں کے بچے ایک طرف جہاں قرآن پڑھ لیتے ہیں وہیں چند حفاظ یا بعض معاملات میں غیر حفاظ کی ’روزی روٹی‘ چل جاتی ہے۔ایسے مدارس انتہائی غیر منظم حالت میں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب غیر قانونی ہیں؟جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔اس ملک کا آئین ایک سے زائد دفعات کے تحت دوسری اقلیتوں کی طرح مسلمانوں کو بھی مختلف قسم کی آزادیوں کے ساتھ اپنے عقیدہ کی حساسیت اور مذہبی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی آزادی دیتا ہے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ مدارس کو مختلف قسم کے سوالات میں الجھاکر اور مختلف قسم کی بندشوں میں جکڑ کر محدود تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یوپی کے وزیر برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری کا یکم ستمبر کا ایک بیان مذکورہ اندیشہ کو تقویت دیتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ سروے ’قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال‘ کو مطلوب معیارات کے مطابق کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ کمیشن‘ دینی مدارس میں بچوں کو فراہم کی جانے والی مراعات کو چیک کرنا چاہتا ہے۔

حیرت ہے۔تعلیمی اداروں میں اور خاص طور پر مدارس میں کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی دل چسپی پہلی بار دیکھنے میں آرہی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدارس کے ذمہ داران کمیشن ایکٹ کے مطابق بچوں کو دی جانے والی رہنے سہنے اور کھانے پینے کی معیاری سہولیات سے صرف نظر کرلیں۔ارباب مدارس کو اس پہلو پر سنجیدگی کے ساتھ اور فی الفور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

یہی وہ پہلو ہے جس پر مدارس کو گھیرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔اب یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ حکومت بدنیتی کی بنیاد پر دینی مدارس کا سروے کرا رہی ہے۔اب اپنا احتساب سنجیدگی سے کرنا ہوگا۔ اگر حکومت مختلف ایکٹ اور کمیشنوں کے رہ نما خطوط کے مطابق کچھ معیارات کا پابند بنانا چاہے گی تو ارباب مدارس یہ کہہ کر مسترد نہیں کرسکیں گے کہ ہمیں تعصب کی بنیاد پر پریشان کیا جارہا ہے۔

یہ قدرے اطمینان کی بات ہے کہ بڑی تعداد میں دینی مدارس کی سرپرستی کرنے والی تنظیم جمعیت علماء ہند یوپی حکومت کے اس اقدام کے خلاف سرگرم ہوئی ہے۔اس نے دہلی میں دو سو سے زائد بڑے مدارس کے ذمہ داران کو جمع کرکے اس نئی صورتحال پر نہ صرف غورکیا بلکہ حکومت کو ایک واضح پیغام بھی دیا۔اس اجلاس سے یقیناً ملک بھر میں پھیلے ہوئے سینکڑوں چھوٹے مدارس کو بھی حوصلہ ملا ہوگا۔

جو کوشش آج ہوئی دراصل یہ بہت پہلے ہونی چاہئے تھی۔پڑوسی ملک میں مدارس کا ایک وفاق بنا ہوا ہے۔لیکن یہاں ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ وفاق بنے گا اور کوئی مشترکہ پلیٹ فارم ہوگا تو بے ضابطگی کے امکانات اور جھول بھی ختم ہوں گے۔ حکومتوں سے بات کرنا آسان ہوگا۔ خود حکومت کیلئے بھی ایسے وفاق کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہوگا۔ دینی مدارس کی اہمیت سے انکار نہیں۔

انہی مدارس اور مکاتب کے سبب برصغیر کے لوگوں کی زندگیوں میں اسلام ’زندہ‘ ہے۔ اور فقط اسلام ہی کیوں اردو زبان بھی زندہ ہے۔ لیکن کیا نظم وضبط کی کوئی اہمیت نہیں؟

 

میں ایک عرصہ سے اور خاص طور پر 2014 کے بعد سے اداروں‘ انجمنوں اور تنظیموں سے مسلسل کہتا آرہا ہوں کہ اپنے حساب وکتاب اورآمد وصرف میں شفافیت رکھئے۔اپنے چندے اور اخراجات کو آڈٹ کرائیے۔ چند بڑے مدارس یہ کام ضرور کرتے ہیں۔مجھے یہاں اس پہلو پر تفصیل سے لکھنا مقصود نہیں ہے لیکن آج بھی ہمارے کچھ اکابر (خاص طور پر یوپی میں) جوصعوبتیں اٹھارہے ہیں وہ محض اسی پہلو کے سبب اٹھارہے ہیں۔

دینی مدارس کو ایک لڑی میں پرونا ہوگا۔ان کی نمائندگی اور قیادت کے لیے مسلمانوں کی تمام جماعتوں اور تنظیموں کو باہمی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔اس اتحاد کو ایک طرف جہاں حکومتوں سے بات کرنی ہوگی وہیں دوسری طرف مدارس کے نظام اور نصاب میں ضروری اصلاح بھی کرنی ہوگی۔

حکومتوں کو جاکر بتانا ہوگا کہ یہ جو اس ملک میں آزادی کے ساتھ سانس لے رہے ہو یہ سب انہی مدارس کے طفیل ہے۔ان مدارس سے استعماریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ ہوتی اور جاں بازوں کی کھیپ تیار نہ ہوتی تو یہ ملک آزاد نہ ہوا ہوتا۔

انہیں دارالعلوم کی تاریخ بتانی ہوگی۔انہیں بتانا ہوگا کہ ان مدارس میں ہم اپنے بچوں کو ضروری مذہبی تعلیم دیتے ہیں جس کا نظم مروجہ اسکولوں میں نہیں ہے۔انہیں بتائیے کہ مدارس کے یہ فارغین بے ضرر ہیں۔انہیں بتائیے کہ انہی مدارس کے جیالوں نے انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے جیلیں بھری تھیں۔

یہی وہ مدارس اور یہی وہ علما تھے جنہوں نے موہن داس کرم چند کو مہاتما بنایا تھا۔ انہیں بتائیے کہ اب حفاظ اور فارغین مدارس حکومت کے مسابقتی امتحانات بھی پاس کر رہے ہیں۔اسی سال دو درجن طلبہ نے ’نیٹ‘ کا امتحان پاس کیا ہے۔

یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ دارالعلوم ندوۃ العلما‘ دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور جیسے بڑے ادارے حکومتوں اور افسروں سے اتنی رسم وراہ کیوں نہیں بناسکے کہ وہ اس طرح کے اقدامات سے پہلے اپنی حکومت کو درست مشورہ دے سکیں۔ کیا ان اداروں کا حکومتوں کے فرستادہ کارندے‘ وزرا ء اور افسران دورہ نہیں کرتے؟

آخر وہ یہاں آکر کیا کرتے ہیں؟۔

ان اداروں کے ناظم اور مہتمم صاحبان بند کمروں میں ملاقاتیں کرکے ان سے کیا گفتگو کرتے ہیں؟

کیا کوئی گھریلو گفتگو ہوتی ہے؟

کچھ امور خانہ داری کی باتیں ہوتی ہیں؟

کیوں ہمارے اکابر اس موقع کو ان مدارس کے بہترین اور حقیقی تعارف کے لیے استعمال نہیں کرتے؟۔

آخر کیوں ان افسروں سے اتنا تعلق قائم نہیں ہوتا کہ جب ان سے اس طرح کے موضوعات اور مسائل پر بات کرنی ہو تو آسانی سے ہوجائے۔ کیا ہماری جماعتوں کے قائدین‘ اس ملک کو چلانے والے اعلی منصب داروں کے بلانے پر ان کے دولت کدوں پر کھنچے کھنچے نہیں چلے جاتے؟

ان کے ساتھ بیٹھ کر’چائے پانی‘نہیں کرتے؟۔

ان کے کہنے پر مسلمانوں کے ’بہترین‘ احوال کا اعلان نہیں کرتے؟

مسلم ملکوں کو حکومت کی طرف سے یہ نہیں بتاتے کہ ’یہاں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے‘؟ پھر وہ ایسے مواقع پر کیوں ہمارے کام نہیں آتے؟ کیوں ہمیں بار بار ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کیوں ہمیں اجلاس بلانے پڑتے ہیں؟

گزشتہ 5 اگست ہی کی تو بات ہے۔یوپی کے نائب وزیر اعلی برجیش پاٹھک نے دارالعلوم ندوۃ العلماء‘ لکھنئو میں جاکر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی سے ملاقات کی تھی۔کیا وہ یوپی کے وزیر اعلی کی مرضی کے بغیر وہاں چلے گئے تھے؟

دارالعلوم دیوبندمیں تو اکثر ضلع انتظامیہ کے بڑے افسران آتے رہتے ہیں۔

اس ادارہ کی تاریخ میں 24 جون 2019 کو پہلی بار آرمی کے ایک سینئر افسرمیجر جنرل سبھاش شرن نے دورہ کیا اور مہتمم سمیت دوسرے سینئر اساتذہ سے ملاقات کی۔یہ اتنے بڑے بڑے سرکاری حکام اور وزراء یہاں آتے ہیں‘ ہنستے بولتے ہیں‘ ستائش کرتے ہیں اور خوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔پھر کیوں حکومت ان مدارس کے تعلق سے مشکوک رہتی ہے؟اس پہلو پر ارباب مدارس کو ہی غور کرنا چاہیے۔

ملک بھر میں کتنے مدارس ہیں اس کا کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ لیکن وزارت برائے اقلیتی امور کے مطابق 2018 میں مدارس کی کل تعداد 24 ہزار 10تھی۔

ان میں چار ہزار 878 مدارس غیر منظور شدہ بتائے گیے تھے۔یوپی میں منظور شدہ مدارس کو دی جانے والی سرکاری امداد کا 2021-22 کا بجٹ 469 کروڑ روپیہ تھا۔ یوپی کی طرح کئی ریاستوں کے مدرسہ بورڈ بھی کام کر رہے ہیں۔ان کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ان سطور میں ان سب تفصیلات کا احاطہ مقصود نہیں ہے۔

یوپی کے تناظر میں بس ایک پہلو پر توجہ دلانا اہم معلوم ہوتا ہے۔اس وقت وزیر اعلی یوگی کا تبدیل شدہ رویہ باعث حیرت ہے۔پچھلے دنوں انہوں نے سہارنپور میں قائم ’مولانا محمود حسن ہسپتال‘ کا نام بدلنے کے بی جے پی کے ہی مطالبہ کو مسترد کردیا تھا۔انہوں نے مولانا محمود حسن کو سچا مجاہد آزادی قرار دیتے ہوئے ان کی ستائش بھی کی تھی۔

حال ہی میں یوپی میں ہسپتالوں اور افسروں کے ناموں کی تختیوں پر ان کے نام اردو میں بھی لکھنے کا حکم جاری ہوا ہے۔

یہ وقت ہے کہ اپنی اجتماعیت کا تو مظاہرہ کیا جائے لیکن تصادم کی بجائے ’تعاون‘ کا رویہ اختیارکیا جائے۔ فوری طور پر کرنے کا ایک کام یہ ہے کہ دینی مدارس کے ذمہ داران کو کچھ رہ نما خطوط جاری کئے جائیں۔ شرپسند میڈیا مدارس میں داخل ہوکر نئی نئی کہانیاں گڑھ رہا ہے۔اس سے نپٹنے کی کوئی سبیل بتائی جائے۔ حکومت سے ٹھوس اور مدلل بات کی جائے۔

اسے بتایا جائے کہ ضرورت انہی منظور شدہ مدارس کا سروے کرنے کی ہے جنہیں حکومت کروڑوں روپیے دیتی ہے اور جوسر تاپا بدعنوانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔۔۔۔

2 thoughts on “دینی مدارس کا سروے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *