آمد رحمۃ للعالمین ﷺ یوم انقلاب اور انسانیت
* اظہارِ محبت رسولﷺ……*آمد رحمۃ للعالمین ﷺ*یوم انقلاب اور انسانیت و آدمیت کی صبح تابندہ
غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
خاکدانِ گیتی جہالت کی آماج گاہ تھی۔ ظلم عام تھا۔ جبر کا ماحول تھا۔
ہر شہ زور کم زور پر غالب تھا۔ انصاف عنقا تھے۔ دیانت مفقود تھی۔ افکار پراگندہ اور اذہان شکست خوردہ تھے۔ انسانیت زخمی اور کردار مسخ تھے۔ ارضِ گیتی کے محور کعبۂ اقدس میں بتانِ باطلہ کی پوجا کی جاتی۔
توحید کے مرکز میں اَصنام کی پرستش! خطۂ عرب ہی کیا؛ پوری دُنیا بُرائیوں میں مبتلا اور معبودِ حقیقی سے بے خبر تھی۔ جبینوں کا سہاگ لُٹ چکا تھا۔ عصمتیں تارتار تھیں۔
شب میں ستاروں کی انجمن اُداس تھی۔گلشن بھی غم گیں تھے۔ شام سوگوار تھی۔کوئی نالۂ دل سننے والا نہ تھا۔ آہِ دروں کا غم گسار نہ تھا۔ ہر چہار جانب برائیوں کا تسلط۔ ہر سمت نالہ و فغاں۔
انسان انسان کے لہو کا پیاسا۔ رشتوں کا پاس نہ لحاظ۔ شراب کا دور تھا۔ جام لُٹائے جاتے۔ جوا عام تھا۔
نشہ معیوب نہ تھا۔ طاقت ور تشدد کو فخر کا نشاں سمجھتا۔ حکمراں رعیت کو غلام جانتے۔ انسان انسان کے ہاتھ بکتا۔ منڈیوں میں رشتے فروخت ہوتے۔
سمتوں میں تشددپھیلا ہوا تھا۔ دہشت گردی کا دور دورہ تھا۔ ایسا خوں آشام ماحول؛ نہ کبھی زمانے نے دیکھا، نہ سُنا۔ انسانیت محسن کی تلاش میں تھی۔ کونین ہادیِ عالم کی منتظر تھی۔
نجات دہندہ کا انتظار تھا۔ مشیت نے انسانی زلفوں کو سنوارنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ کعبے کو اَصنام سے پاک ہونا تھا۔ تھکی فضاؤں میں ارتعاش ہوا۔ بجھی طبیعتوں میں جوش آیا۔ خزاں کے خاتمے کا دور آیا۔ بے مثل انقلاب کی دستک محسوس ۱۲؍ربیع الاول کی صبح تھی۔
موسم بہار زا تھے۔ فضائیں جھوم رہی تھیں۔ ہوائیں مست تھیں۔ خوشی کے بادل اُمنڈ آئے۔ عرب کی فضا خوش گوار ہو گئی۔ محبوبِ کردگار ﷺ کی آمد آمد ہوئی۔اللہ کریم نے انسانیت پر احسانِ عظیم فرمایا۔ اپنا محبوب عطا کر دیا۔ وہ آئے اس شان سے کہ آمد آمد کی تیاری مدتوں سے جاری تھی۔ سُنیے سُنیے قرآن میلادِ محبوب ﷺ کی کیسی بشارت بزبانِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سُنا رہا ہے:’’اور یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا…اے بنی اسرائیل!…میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سُناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام ’احمد‘ ہے۔‘‘[سورۂ صف:آیت ۶] حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسماعیل علیہ السلام جن کی آمد آمد کی دُعائیں فرماتے: ’’اے رب! ہمارے بھیج ان میں ایک رسول انھیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انھیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انھیں خوب ستھرا فرمادے، بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔‘‘[سورۂ بقرہ:آیت ۱۲۹] بنی اسرائیل دُشمنوں پر فتح کی دُعائیں نبی آخرالزماں ﷺ کے وسیلے سے مانگتے۔ انھیں کامیابی بھی رحمۃللعالمین ﷺ کے طفیل ملتی۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور اس سے پہلے وہ [یہودو نصاریٰ]اسی نبی کے وسیلے سے کافروں پر فتح مانگتے تھے تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہوبیٹھے تو اللہ کی لعنت منکروں پر۔‘‘[سورۂ بقرہ :آیت ۸۹] وہ کب آئے؟ جب ظلم انتہا کو پہنچا۔ جب انسانیت کا وقار لُٹ چکا تھا۔ محسن و رہبر بن کر آئے۔ انسانی آبرو کو سہارا دینے آئے۔ فریاد رس بن کر آئے۔ عظیم اختیارات کے ساتھ آئے۔ ۱۲؍ ربیع الاول کو کونین کا نصیبہ جاگ گیا۔ انسانیت کا وقار بلند ہو گیا۔ ہاں ہاںان کا آنا انقلاب کا لانا تھا۔ عکعبے سے اُٹھی جھوم کے رَحمت کی گھٹا آج رحمۃللعالمین ﷺ کی آمد سے بہار آگئی۔ مرجھائی کلیاں کھل اُٹھیں۔ چمن مہک مہک اُٹھے۔ گلشن میں شادابی کی حکمرانی ہو گئی۔ بوجھل فضائیں خوشبو سے بھر گئیں۔ ؎وہ آئے تو آج ہے گھر گھر صلِ علیٰ کی دھومرنگ مِلا ہے لالہ و گل کو خوشبو کو مفہوم شانِ الٰہی کے مظہر بن کر آئے۔ بے مثل بشر بن کر آئے۔ ایمان کی جان بن کر آئے۔ انھیں کا دین برحق ساری انسانیت کے لیے نجات کا سبب قرار پایا۔ انھیں کی آمد کی خوشی میں انسانیت کی تقدیر سنوری۔ انھیں کے قدموں سے دہشت گردی پامال ہوئی اور امن و اخوت کا پیغام ملا۔ انھیں کے پائے اقدس سے خیر کے دریا بہے۔ شر کو زوال آیا۔ چمن میں نکھار آیا۔اللہ اللہ! ؎اللہ کی سر تابقدم شان ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہقرآن تو ایمان بتاتا ہے انھیںایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ [اعلیٰ حضرت] دُنیا مدرس ڈے مناتی ہے۔ ماؤں کے حقوق کو رحمت عالم ﷺ نے عطا کیا اس لیے ۱۲؍ ربیع الاول کا حق ہے کہ یوم عظمتِ نسواں کے طور پر منایا جائے۔ دُنیا لیبرز ڈے مناتی ہے، مزدوروں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے والے محسن انسانیت ﷺ کا یومِ ولادت یومِ مزدور کے طور پر منایا جائے۔ دُنیا ٹیچرز ڈے مناتی ہے؛ یومِ ولادتِ معلم انسانیت ﷺ کا حق ہے کہ اسے صاحبِ قرآن کی نسبت سے منایا جائے، جن کے قدم سے علم کا نصیبہ جاگا، تعلیم کو زندگی ملی۔ یومِ میلادِ رسول ﷺ یومِ اخلاق بھی ہے، یومِ امن بھی ہے، یومِ انسانیت بھی ہے، یومِ نسواں بھی ہے، یومِ اخوت بھی ہے، یومِ محبت بھی ہے، یومِ انسانی اقدار بھی ہے، یومِ اطفال بھی ہے، یومِ مظلومین بھی ہے، یومِ مہجورین بھی ہے، یومِ خیر بھی ہے۔ ہر خیر کا نزول اسی دن ہوا۔ ہر امن کا قیام اسی دن ہوا۔ ہر عہد کی تاریکی اسی دن ختم ہوئی۔ ہر شام کی تیرگی اسی دن کے صدقے چَھٹی، ہر صبح کا مقدر اسی دن سنورا۔ ہر آن فضل و کمال، ہر لمحہ ہدایت کی روشنی اسی دن سے ملی۔ اے ہمدردانِ انسانیت! کامیابی چاہتے ہو اور دُنیا میں شانتی کے طلب گار ہو! تو یومِ ولادتِ رسولِ کونین ﷺ مناؤ اور انسانی وقار کے لیے تعلیماتِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا ہونے کا عزم کرو؛ تمام مسائل حل ہو جائیں گے، محبتوں کی صبح نمودار ہو گی؛ انسانیت سر بلند ہوگی۔ نفرت و تشدد کے خاتمے کے لیے دُنیا کوبارگاہِ محبوب کردگار ﷺمیں آنا پڑے گا۔ اس لیے کہ چمن کی بہار انھیں کے دم قدم سے قائم ہے ، انسانی تقدس انھیں کا عطا کردہ ہے ؎انھیں کی بومایۂ سمن ہے،انھیں کا جلوہ چمن چمن ہےانھیں سے گلشن مہک رہے ہیں، انھیں کی رنگت گلاب میں ہے٭٭٭