یوگا اور سِکھوں کی مذہبی غیرت

Spread the love

یوگا اور سِکھوں کی مذہبی غیرت

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

سال گذشتہ یوگا ڈے (Yoga Day) کے انعقاد پر بھارت میں اچھا خاصا تنازع ہوا تھا۔اس بار کا یوگا ڈے بھی تنازعات سے اچھوتا نہیں رہا اور اس بار بھی یوگا کو لیکر ملک بھر میں تنازع چل رہا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ پچھلے سال تنازع کا مرکز مسلمان اور مدارس تھے اور اس بار تنازع کا مرکز سِکھ اور اور ان کا سب سے بڑا مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل بنا ہوا ہے۔

 

یوگا پر تنازع کیوں؟

مرکز کی بی جے پی حکومت نے اپنے پہلے دور اقتدار میں یوگا کو اقوام متحدہ سے منظوری دلائی تھی۔

جس کے بعد اکیس جون کو ہر سال یوگا ڈے کو بین الاقوامی سطح پر منایا جاتا ہے۔چونکہ یوگا اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے ہندو طریقہ عبادت(हिन्दू पूजा पद्धति) کا ایک حصہ ہے۔ہندو دھرم شاستروں اور رِشی مُنیوں (ऋषि, मुनियों) کے نزدیک یوگا روح (आत्मा) اور خدا(ईश्वर) کے ملنے کا ذریعہ ہے۔اس لیے یوگا کے مختلف آسن ان کے بھگوانوں اور پوجا کے لیے خاص ہیں۔مثلاً یوگا کی شروعات سوریہ نمسکار آسن سے ہوتی ہے جس میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ جوڑ کر سورج کی پرستش کی جاتی ہے۔

اسی طرح شو آسن(शिव आसन) جیسے کتنے ہی مشرکانہ آسن استعمال کیے جاتے ہیں۔(یوگ ایوم آیروید ص:3)یوگا کے ہندو طریقہ عبادت ہونے کی بنا پر ہی مذہبی طبقہ اس سے دور ونفور رہا۔

حالاں کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ افراد یوگا کی کچھ کسرتی شکلوں کا سہارا لیکر اسے عوامی طور پر رائج کرنے کی پر زور کوشش میں ہیں اس لیے ہر سال بی جے پی اور آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں یوگا ڈے کو بڑے پیمانے پر منعقد کرتی ہیں۔

بیرون ممالک بھی آر ایس ایس سے فکری تعلق رکھنے والی ہندو آرگنائزیشن اور ادارے یوگا کے انعقاد میں پیش پیش رہتے ہیں۔ بی جے پی/آر ایس ایس اور اس کی حلیف تنظیموں کی غیر معمولی دل چسپی ہی یہ بیان کرنے کے لیے کافی ہے کہ یوگا صرف کسرت و ورزش نہیں بل کہ ہنود کا تہذیبی حصہ ہے جسے وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں پر بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

اگر یوگا صرف ایک ورزش ہوتی تو ہنود کو اس کے لیے یوگا نام استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ورزش کے لیے ہندی زبان میں وِیایام(व्यायाम) کا لفظ مستعمل ہے۔ایک معروف لفظ چھوڑ کر ایک ایسا لفظ استعمال کرنا جس کا معنی ہی سادھنا(साधना) اور مراقبہ کرنا ہے، یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ یوگا محض کسرت و ورزش نہیں خالص ہندوانہ تہذیب اور ان کے قدیم کلچر کی نشانی ہے جسے انتہائی عیاری کے ساتھ دوسری قوموں پر تھوپنے کی کوششیں چل رہی ہیں۔گولڈن ٹیمپل میں ہوا تنازع بھی اسی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے

گولڈن ٹیمپل میں کیا ہوا؟

گولڈن ٹیمپل سکھوں کا سب سے متبرک مقام ہے۔اکیس جون کو جب ملک بھر میں یوگا ڈے منایا جارہا تھا تو گجرات سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو لڑکی ارچنا مکوانا نے گولڈن ٹیمپل میں داخل ہوکر یوگا کیا۔تصویریں بنوائیں اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیں۔جیسے ہی گُرو دوارا کمیٹی(SGPC) کو اس کی خبر ملی انہوں نے ڈیوٹی پر تعینات تین ملازمین کو لاپرواہی برتنے کی وجہ سے معطل کر دیا۔

ساتھ ہی ارچنا کے خلاف مقامی تھانے میں مذہبی جذبات مجروح کرنے کا مقدمہ بھی درج کرایا۔سِکھوں کے مذہبی پیشوا اور اکال تخت کے جتھے دار گیانی رگھوبیر سنگھ نے اپنا غصہ ان الفاظ میں ظاہر کیا:”شری ہری مندر صاحب(گولڈن ٹیمپل) سکھوں کا روحانی مرکز ہے۔یوگاسن جیسے کاموں کی یہاں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ا

س مقدس مقام پر یوگاسن جیسے آسن کرنا سخت منع ہے کہ ان کی سِکھ دھرم میں کوئی جگہ نہیں ہے۔سِکھ لوگ یوگا نہیں کرتے۔”(دینک بھاسکر/دی ٹائمز آف انڈیا اشاعت 23 جون 2024)گرو دوارا کمیٹی کے سخت رویے کی بنیاد پر ارچنا اب تک دو بار ویڈیو بیان جاری کرکے معافی مانگ چکی ہے لیکن سِکھ قیادت نے ہنوز معاف نہیں کیا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ یہ کام شرارتاً اور سازشاً کرایا گیا ہے۔
حالاں سوشل میڈیا پر آر ایس ایس کے سوشل میڈیا influencer لگاتار سِکھوں کو ملامت کر رہے ہیں لیکن سکھ قیادت اور عوام اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم ہیں۔

کاش ہماری قیادت بھی غیرت دکھا پاتی!

جو کام اس بار ایک لڑکی کے ذریعے گولڈن ٹیمپل میں کرایا گیا وہی کام گذشتہ سال سرکاری مدارس میں حکومتی فرمان کے ذریعے کرایا گیا۔جس کی بنیاد پر مدارس میں یوگا کی مشقیں کرائی گئیں۔جس پر خاصا تنازع ہوا۔

ممکن ہے بعض علما یوگا کی حقیقت پر توجہ نہ دے سکے ہوں یا چند ایک پوزیشن کی مشابہت کی بنا پر اسے کسرت و ورزش ہی سمجھ بیٹھے ہوں لیکن ہندو لٹریچر کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یوگا وہ نہیں ہے جو بتایا جا رہا ہے۔

اب سِکھ قوم کے جارحانہ رد عمل نے بھی صاف کر دیا ہے کہ وہ بھی یوگا کو ورزش نہیں ہندوانہ طریقہ عبادت ہی سمجھتے ہیں۔کاش ہماری مذہبی قیادت نے بھی دلیرانہ موقف اختیار کرتے ہوئے یوگا کو رد کیا ہوتا تو شاید اہل مدارس کو ایسی کسی آزمائش کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔یاد رکھیں!حکمت ومصلحت کے نام پر ہر بات پر ہاں کہنا۔

ہر چیز میں رخصت کا پہلو تلاشنا اور تصوف وسلوک کے نام پر خود کو حد سے زیادہ نرم دل ثابت کرنے سے عزت ملتی ہے نہ وقار!عزت و وقار کے لیے ہمت، عزیمت اور خود داری کا مظاہرہ بھی ضروری ہے:تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سےجو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *