عراق میں دریائے دجلہ خشک

Spread the love

عراق میں دریائے دجلہ خشک ہونے پر 3400 سال پرانا شہر نمودار

بغداد، (اے یوایس ) عراق میں آب و ہوا کی تبدیلی کے سبب دریائے دجلہ کے خشک ہونے سے ساڑھے تین ہزار برس قدیم بستی دریافت ہوئی ہے۔

ماہرین آ ثار قدیمہ کے ایک بین الاقوامی گروپ نے گزشتہ ہفتے اس حوالے سے تفصیلات جاری کی ہیں۔

ماہرین نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ دریائے دجلہ کے خشک ہونے والے حصے سے ظاہر ہونے والی بستی 1475 قبل مسیح سے 1275 قبل مسیح کے درمیان قائم ہوئی تھی ۔

اس زمانے میں دریاۓ دجلہ اور فرات کے جنوب میں میتانی سلطنت قائم تھی۔ عراق میں قدیم باقیات دریائے دجلہ پر موصل میں کیمونے کے علاقے میں قائم ڈیم کی نچلی سطح پر نمودار ہوئی ہیں۔ یہ ڈیم ملک میں پانی کا ایک بڑا ذخیرہ قرار دیا جاتا ہے رہا ہے ۔ لیکن آب و ہوا کی تبدیلیوں سے پانی کی کمی کے سبب اب یہ خشک ہو رہا ہے ہے۔

 

دریافت ہونے والی قدیم بستی میں مٹی سے بنے قلعے نما عمارات کے واضح نشانات موجود ہیں ۔ان میں بعض عمارتیں ایک سے زیادہ منزلوں کی بھی تھیں۔ جب کہ بعض و مقامات پر ٹاور بھی بنے ہوئے تھے جس سے ان کے محل ہونے کا امکان ظاہر ہوتا ہے ہے۔

جرمنی کی فرائی برگ یونیورسٹی کے مطابق جرمن اور کرد ماہرین آثار قدیمہ کے گروپ نے اس بستی کو میتانی سلطنت کے تجارتی مرکز کے طور پر شناخت کیا ہے ۔

فرائی برگ یونیورسٹی کے مطابق عراق آب و ہوا کی تبدیلیوں کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ ملک کے جنوبی حصے شدید خشک سالی کا سامنا کر رہے ہیں جس سے فصلیں تباہ ہو چکی ہیں ملک میں پانی کی فراہمی کے اہم ترین ذریعے موصل میں قائم ڈیم میں پانی کا ذخیرہ کئی ماہ قبل تقریبا ختم ہو چکا ہے ۔ پانی خشک ہونے سے کانسی کے زمانے کی بستی بھی نمودار ہوئی ہے۔ اس بستی کے حوالے سے ماہرین آثار قدیمہ کی جانب سے کوئی پیشگی معلومات نہیں دی گئی تھیں ۔

ماہرین آثار قدیمہ نے انتہائی کم وقت میں اس بستی کے نقشے بناۓ تا کہ اس کی باقیات کو جلد از جلد سامنے لایا جا سکے۔ اس میں ایسے حصے بھی دریافت ہوۓ ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میتانی سلطنت میں غلہ بھی اسی بستی سے لایا جا تا تھا کیوں کہ اس میں ایک ایسی عمارت بھی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس میں مختلف فصلوں سے آنے والے اناج کو محفوظ رکھا جاتا ہوگا ۔

ماہرین کے مطابق اس بستی میں جو بھی تعمیرات ملی ہیں اس میں مٹی کی اینٹیں یا بلاک استعمال کیے گئے تھے ان اینٹوں کو دھوپ میں خشک کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کا تعمیرات میں استعمال کیا گیا۔ ماہرین نے کئی ایسی دیوار میں بھی دریافت کی ہیں جو اب بھی درست حالت میں ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دیوار میں اس لیے بہتر حالت میں ہیں کیوں کہ ممکنہ طور پر یہ بستی زلزلے سے تباہ ہوئی تھی اور اس میں قائم عمارتوں کے اوپر کی منزلوں یا دیواروں کے ملبے میں نیچے کی تعمیرات دب گئی تھیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بستی میں لگ بھگ 3350 سال قبل یعنی 1350 قبل مسیح میں زلزلہ آیا تھا۔

اس قدیم بستی کی باقیات سے ماہرین کو پانچ ظروف بھی ملے ہیں جن میں لگ بھگ 100 ایسے چھوٹے چھوٹے مٹی کے ٹکڑے بھی ملے ہیں جن پر کچھ عبارت کند ہے ۔ مٹی سے بنے ان برتنوں پر اشور یہ دور حکومت کی تاریخیں درج ہیں ، جو اس شہر کے تباہ ہونے کے زمانے میں ہی اس علاقے میں اشور یہ سلطنت بننے کے شواہد ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح مٹی کے کچھ ایسے کتے بھی۔ ہیں جن کے مٹی سے بنے غلاف موجود ہیں مٹی کے غلاف میں موجودان ٹکڑوں پر عبارت درج ہونے کے سبب ماہرین ان کو خطوط قرار دے رہے ہیں۔

آثار قدیمہ کے ماہرین امید ظاہر کر رہے ہیں اس دریافت سے میتانی سلطنت کے زمانے کے اس شہر کی بہت سی اہم معلومات سامنے آسکتی ہیں جب کہ اس خطے میں اشوریہ سلطنت کے قیام کی تفصیلات معلوم ہوسکتی ہیں ۔

ماہرین مٹی سے بنی ان اشیا کے اتنے طویل عرصے تک پانی میں موجودرہنے کے باوجود محفوظ رہنے کو بھی ایک معجزہ قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین نے ان آثار اور باقیات کو پانی کی سطح دوبارہ بلند ہونے کی صورت میں تباہ ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں ۔ بعض آثار کو پلاسٹک کی ٹیٹس میں لپیٹ دیا گیا ہے جب کہ کئی ایک کو دیگر طریقوں سے محفوظ بنایا جارہا ہے۔

بحوالہ : الحباب دہلی 8 جون 2022

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *