حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل

Spread the love

حالات حاضرہ میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کا حل

عبداللہ بن عمر خان

متعلم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

ہم نے اپنی اس مختصر تحریر میں چند مسائل کا انتخاب کیا ہے۔ ظاہر ہے تمام یا اکثر علاقائی مسائل کا احاطہ نہ ممکن ہے اور نہ ضروری۔ ہندوستان کے تناظر میں شاید سب سے اہم مسئلہ ارتداد کا ہے۔ اس فتنے کے زہریلے اثرات مسلم علاقوں میں تیزی سے پھیل رہے ہیں، رات دن مسلم خواتین کو مرتد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ارتداد امت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔اسکے علاوہ ملک میں فسادا ت، خصوصاََ بابری مسجد کے فیصلے کے بعد ہونے والے ملک میں مساجد کے عدمِ تحفظ کا معاملہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

مسئلہ ارتداد

ملک کے حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ امت مسلمہ دین سے دور ہورہی ہے۔ جس تیزی کے ساتھ یہ ارتداد ہماری نسلوں کو تباہ کررہا ہے اس کے واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔ ملک کے تقریباً تمام شہروں سے ارتداد کی خبریں آرہی ہیں۔ امت مسلمہ جن بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک بڑا اور سنگین مسئلہ غیرمسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا ہے۔

اس مضمون کو بھی پڑھیں :  ارتدادکی آندھی اسباب وحل

یہ فعل ایک مسلمان کو ارتداد کی دہلیز پر لا کھڑا کردیتا ہے۔ ہندوستانی مسلمان اس سنگین مسئلہ سے شدید متاثر ہیں، ملک کے طول و عرض سے آئے دن اس طرح کے روح فرسا واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔ مزید یہ کے اپنی رضامندی اور خوشدلی سے ایسا کررہے ہیں اور انھیں اس پر ذرا بھی افسوس نہیں اور اس پر دشمن کی چالیں اور سازشیں مستزاد ہیں۔

عقیدۂ اسلام سے ناواقفیت،اور توحید ربانی کی خوبیوں سے نا آشنائی،اس ارتداد کا سب سے بڑا سبب ھے۔ والدین اپنے بچوں کی دینی تعلیم کاانتظام کریں، لڑکوں اورلڑکیوں کے موبائل وغیرہ پرگہری نظر رکھیں

جہاں تک ہوسکے، لڑکیوں کوگرلس اسکول میں پڑھانے کی کوشش کریں، اس بات کااہتمام کریں کہ اسکول کے سوا ان کے اوقات گھر سے باہر نہ گزریں اوران کوسمجھائیں کہ ایک مسلمان کے لیے مسلمان ہی زندگی کا ساتھی ہوسکتا ہے

ارتداد کی وجوھات میں سے ایک مسلم،اسکول و کالجز،اور تعلیمی اداروں کی کمی ھے،لھذا اگر قوم ونسل کا ایمان بچانا ہے تو علما ودانش وران قوم کو رجسٹرڈ ھائیر سیکینڈری اسکول ھر گاؤں ھر محلہ اور بستی میں پھیلانے پڑینگے تاکہ اغیار کے نظام ہاۓ باطل سے بچا جا سکے۔یہ ضرورت بھی زکوۃ کے فنڈ سے انجام دی جاسکتی ہے،

فرقہ واریت

فرقہ واریت کے کئی اسباب ہیں، جن میں بڑا سبب تکبر، عناد، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ دوسرے مکتب فکر کو غلط، کمزور ، کم تر اور ہیچ خیال کرنا ایسا طرزِ عمل ہے کہ جس کے زہر سے مسلمانوں کے معاشرتی تار و پود بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ دین سے دوری اور جہالت و بے علمی نے ہمیں اور شدید بنا دیا ہے۔

مذہبی فرقہ واریت بے شمار نقصانات کا سبب بنتی ہے۔ اس سے باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے۔ وہیں مذہبی، دینی، معاشی، سیاسی، معاشرتی اور فکری انتشار بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس فرقہ واریت کے ہاتھوں سیاسی نقصان تو اظہر من الشمس ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت اور وزن جاتا رہا اور دشمن طاقتیں اس انتشار کے سیاسی استعمال میں کامیاب ہوتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت ۴۶ میں فرمایا تھا: ترجمہ:’’آپس میں نہ لڑو کہ تم ناکام ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘

فرقہ وارانہ خیالات کی بڑے پیمانے پر تشہیر سے فکری انتشار کا طوفان برپا ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کی خلاف ورزی ہوتی ہے جب ہم فرقہ بندی اور گروہ بندی کا نظریہ عمل میں لاتے ہیں۔

فرقہ واریت کے سد بات کے لیے اربابِ علم و دانش اور معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ امت کے درمیان فروعات پر تعبیر اور تشریح کے حوالے سے اختلاف کو رحمت کے طور پر دیکھا گیا ہے لیکن جب فروعات پر اصرار کیا جائے اور دین کے اصولوں کی بجائے فروعات کی بنیاد پر حق و باطل کا تعین کیا جائے تو مسائل سر اٹھاتے ہیں اور فرقہ واریت جنم لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم نے دین کے فروعی مسائل کو عقیدے کا مسئلہ بنا دیا ہے اور اس کی بنیاد پر ہم دوسرے لوگوں کو جو توحید، رسالت اور آخرت میں ایمان رکھتے ہیں ہم کافر گرداننے پر لگے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا تھا:

’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور گروہوں میں نہ بٹو۔ اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔‘‘

باہمی اتحاد کے حصول اور گروہی عصبیت و فرقہ بندی کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دین کا مطالعہ کریں اور دین کو قرآن و حدیث سے سمجھیں۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتاتی ہے کہ اہل ایمان باہم دگر کیسے رہتے ہیں اور انہیں کیسے رہنا چاہیے۔ حبّ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا تقاضہ ہے کہ ہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت اور آپ کی گزاری ہوئی زندگی کو اپنی زندگی بنائیں۔

تحفظِ مساجد

بھاجپا کے ایک ترجمان کے مطابق تیس ہزار سے زائد مساجد اس وقت فرقہ پرستوں کے نشانے پر ہے ، بابری مسجد ہاتھ سے نکل گئی، گیان واپی مسجد پر عدالتی کارروائی چل رہی ہے اور جلد ہی اس کے بارے میں کوئی فیصلہ سامنے آنے والا ہے، دہلی کی درجنوں مسجد میں نماز پر پابندی لگانے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں زیر غور ہیں، قطب مینار کے قریب احاطہ میں واقع مسجد میں نماز پر پابندی لگادی گئی ہے اور پوجا کی اجازت کے لیے عرضی لگائی جا چکی ہے

جمہوریت کے تمام ستون اس طرح منہدم ہو چکے ہیں کہ اقلیتوں کی کوئی سن نہیں رہا ہے اور ایک خاص فرقہ کو خوش کرکے تکثیری سماج کے بل پر سب کچھ بدلا جا رہا ہے، ایسے میں پورا ملک یہ جاننا چاہ رہا ہے کہ موجودہ حالت میں مساجد کے تحفظ کی کیا شکل ہو سکتی ہے؟

موجودہ حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مستقل ایک تحریک بناکر ویران مساجد کی باز آبادکاری کا سلسلہ شروع کیا جائے، مقامی مسلمانوں کو ترغیب و فہمائش کے ذریعہ اس جانب متوجہ کیا جائے،بالخصوص شہر کے کناروں پر واقع غیر آباد مسجدوں کی خبر گیری کی جائے، مقفل مسجدوں کی ضروری کارروائی کے بعد کشادگی عمل میں لائی جائے۔ اس سلسلہ میں زعماء قوم اور مسلم لیڈران آگے آئیں اور شہرت و ناموری کے بجائے نجاتِ اخروی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں۔

مسجد کو مرکز عبادت بنانے کے ساتھ  ساتھ مرکز دعوت بھی بنایاجائے یعنی غیرمسلم برادران وطن میں اسلام کےتئیں شعور اجاگر کیاجائے ،اسلام کا تعارفی لٹریچر ان کے حوالے کیاجائے ،ان کے ذہن و دماغ میں اسلام کے حوالے سے جو کچھ شکوک و شبہات ہیں ان کا بہ طریق احسن ازالہ کیاجائے اور ان سب سے بڑھ کر اپنے اچھے اخلاق اور اعلی کردار کے ذریعہ انہیں اپنے سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے ؛تاکہ وہ سنجیدگی کے ساتھ  اسلامی تعلیمات  کا مطالعہ کرسکیں اور آزادی کے ساتھ راہ  حق کا انتخاب کرسکیں۔

ماب لنچنگ

ماب لنچنگ کا مطلب ہے کہ کسی بھی شخص کو کسی بھی الزام میں، قانونی چارہ جوئی کے بغیر ہجوم کے ذریعے ہی قتل کردیا جائے، حالیہ برسوں میں ہجومی تشدد کو نفرت آمیز جرائم میں سب سے زیادہ ہونے والا جرم کہا جاسکتاہے، کسی خاص پہچان یا کسی خاص اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر، یا کسی بھی اجنبی کو شک و شبہات کی بنیاد پر، بآسانی ہجومی تشدد کا شکار بنا لیا جاتا ہے

ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، ہجوم کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ انصاف کی بحالی کے لئے قانون ہاتھ میں لینا ضروری ہے کیونکہ بس وہی اس کا فیصلہ کرسکتے ہیں، یعنی ہر ہجومی تشدد کے حادثہ کے پیچھے کچھ افراد بھیڑ کی رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں، جمہوریت کی بنیادی خصوصیت ہے کہ لوگوں کے حق برائے زندگی و آزادی کو تحفظ فراہم کیا جائے، شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کرنا نیز لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنا حکومت و حکومتی اداروں کی دستوری ذمہ داری ہے۔

فی الحال ابھی جو قابل توجہ بات ہے وہ یہ کہ ماب لینچنگ (ہجومی تشدد)کو کس طرح روکا جائے اس سے خود کو کس طرح بچایا جائے، ذیل میں کچھ تدابیر لکھے جارہے ہیں غور کریں اور عمل کرنے اور کرانے کی کوشش کریں، کچھ حد تک ان تدابیر کے ذریعہ روک تھام کیا جاسکتا ہے۔

(۱) ہر علاقے اور گاؤں کے ذمہ داران یا تنظیم یا ادارے، اعلیٰ عہدے داروں سے مطالبہ کریں کہ ماب لنچنگ کو جلد از جلد روکا جائے، اور ان قاتلوں کے لیے موثر اور باعمل قانون بنایا جائے۔

(۲)اکیلے سفر سے پرہیز کریں ہمیشہ چند لوگوں  کے ساتھ ہی سفر کریں (۳)اجنبی گاؤں میں تنہا جانے سے گریز کریں۔

(٤)ٹرین میں سفر کے وقت کوشش کریں کہ جہاں چند مسلمان ہوں وہاں بیٹھیں۔ اگر غیر مسلم کے پاس بیٹھنا پڑجائے تو خاموشی کے ساتھ سفر کریں، گفتگو سے پرہیز کریں، اگر بات کرنی ہی پڑجائے تو ان مدعوں پر ہرگز بات نہ کریں جن سے حالات نازک ہورہے ہیں۔

(۵)اپنے اپنے علاقوں میں تیز طرار، ہوشیار نوجوانوں کے واٹش ایپ گروپ بنالیں، اپنے قرب وجوار کے علاقوں کے گروپس میں بھی جڑے رہیں، تاکہ اس طرح کی ضرورت پڑنے پر نزدیک کے گاؤں سے مدد حاصل کر سکیں۔

( ٦)مارشل ارٹ سیکھنے کا انتظام کریں، یا یا ورزش کے لیے جیم وغیرہ جوائن کریں تاکہ اس کے ذریعہ خود کی حفاظت کر سکیں۔

(۷)بچوں کے دلوں میں یہ بات بٹھائی جائے کہ ہمارے ہیروز کون لوگ ہیں اور کیسے ہیں ؟اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف دل میں بٹھانے کی کوشش کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *