تاریکی سے روشنی کی طرف
عدلیہ: تاریکی سے روشنی کی طرف
ودود ساجد
(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کا خیال ہے کہ ’جج حضرات اسی وقت عوام میں اعتماد پیدا کریں گے جب ان کے افعال‘(ایکشن) سماجی اور سیاسی دبائو اور تعصب سے پاک ہوں ۔‘
اپنے اس مرکزی خیال کو انہوں نے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے 15 اگست کے شمارہ میں ایک طویل مضمون لکھ کر ظاہر کیا ہے۔ اخبار نے ان کا یہ مضمون صفحہ اول پر سب سے اوپر شائع کیا ہے۔اس مضمون کی شہ سرخی بھی ان کا وہی مرکزی خیال ہے۔
عام طور پر جج حضرات نہ تو میڈیا کو انٹرویوز دیتے ہیں اور نہ ہی وہ اخبارات میں مضامین لکھتے ہیں۔یہی نہیں وہ اپنے سیاسی خیالات کا اظہار برسر عام بھی نہیں کرتے۔لیکن موجودہ چیف جسٹس نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد ایک ٹی وی چینل کے ’عوامی‘ پروگرام میں شرکت بھی کی اور اسے انٹرویو بھی دیا۔
اس انٹرویو میں مرکزی حکومت کے ساتھ ان کے (بظاہر) ٹکرائو پر بھی گفتگو ہوئی۔گوکہ انہوں نے ٹکرائو سے انکار کیا تاہم انہوں نے حکومت اور عدلیہ کے دائرہ کار اور اختیار کے درمیان حد فاصل بھی طے کی۔ زیر بحث مضمون میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ آئین نے عدلیہ کی کیا حدود طے کی ہیں اور یہ کہ ججوں کو کیسا اخلاقی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔
ان کے اس مضمون کی اشاعت زبان حال سے بہت کچھ کہتی ہے۔اس وقت ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ کو اقتدار کے زیر اثر لانے کی ایک مربوط‘ منظم اور سلسلہ وار کوشش جاری ہے۔اس مفہوم کے بہت سے جائزے منظر عام پر آئے ہیں۔متعدد ماہرین قانون اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔
اس سلسلہ میں سب سے واضح‘ تفصیلی اور مدلل تجزیہ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ نے کیا ہے۔ انہوں نے یہ تجزیہ 20 ستمبر 2022 کو لکھا تھا۔گوکہ جسٹس شاہ نے 1950سے 2022 تک کے مختلف ادوار کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا اور سپریم کورٹ کی بالادستی میں متعدد نشیب و فراز آتے رہے ہیں تاہم 2014 کے بعد 2022 تک کے دور کو عدلیہ کے لیے انہوں نے بہت تشویشناک بتایا ہے۔ہندوستان کی سپریم کورٹ کی تشکیل کے مقاصد میں بنیادی طور پر آئین کے تحفظ کا عنصر کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
لہذا اس کے مجموعی کردار کو اسی تناظر میں کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق آئین ہند کی تخلیق کے وقت سے اکتوبر 2021 تک آئین میں 105 بار ترمیمات ہوچکی تھیں۔لیکن یہ ترمیمات بنیادی نہیں بلکہ فروعی ہیں۔
آئین کا بنیادی ڈھانچہ سب کومساوی انصاف کے بنیادی اصول پر مبنی ہے۔لہذا عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں پارلیمنٹ بھی کوئی ترمیم نہیں کرسکتی۔ سپریم کورٹ کے بنیادی فرائض میں یہ امر شامل ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قوانین یا آئین میں کی گئی کسی ترمیم کا جائزہ لے کر طے کرے کہ وضع شدہ قوانین یا ترمیم شدہ نکات آئین کے بنیادی ڈھانچہ سے تو متصادم نہیں ہیں۔
اگرسپریم کورٹ کسی قانون یا ترمیم کو غیر آئینی پاتی ہے توایسا قانون یا ترمیم کالعدم ہوجائے گی۔ ان تمام فرائض کا سرچشمہ چیف جسٹس آف انڈیا ہی ہوتا ہے۔لہذا اگر وہی کمزور ہوجائے یا ارباب اقتدار کی خواہشات اور سیاسی پالیسیوں سے مرعوب ہوکر فیصلے کرنے لگے تو عدلیہ کی جڑیں مضبوط نہیں رہ سکتیں۔ جسٹس اے پی شاہ کا جائزہ بتاتا ہے کہ مرکز میں جب بھی بھاری اکثریت سے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آئی ہے تو عدلیہ اور خاص طور پر چیف جسٹس کا دفتر کمزور ہوا ہے۔
اسی طرح جب مرکز میں کمزور سرکاریں یا مخلوط سرکاریں آئی ہیں تو عدلیہ مضبوط ہوکر ابھری ہے۔ اس وقت دانشور حلقوں میں اس نکتہ پر بحث ہو رہی ہے کہ ملک کا آئین بدلنے کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ارباب اقتدار اور ان کی نظریاتی تنظیمیں موجودہ آئین پر کبھی ڈھکے چھپے انداز میں اور کبھی اشاروں کنایوں میں شکوک وشبہات کا اظہار کرتی رہی ہیں ۔
حال ہی میں وزیر اعظم کے اقتصادی امور کے مشیر وویک دیب رائے نے بھی ایک تفصیلی مضمون لکھ کر موجودہ آئین کو استعماریت یعنی انگریزوں کے تسلط کا ورثہ قرار دیا ہے۔مختلف حلقے دیب رائے کے افکار کو حکومت اور بی جے پی کے ہی افکار سے تعبیر کر رہے ہیں۔ایسے میں اگر آئین کو بدلنے کی واضح کوشش کی جاتی ہے تو سپریم کورٹ کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے۔
ہرچند کہ سپریم کورٹ کی ابتدا ایک غیر فعال عدالت کے طور پر ہوئی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے کم سے کم تین راستوں سے اپنی بالادستی اور فوقیت کو مستحکم کیا۔ 24 اپریل 1973 کو سپریم کورٹ کی 13رکنی آئینی بنچ نے آئین میں کی گئی 25 ,24 اور 29ویں ترمیم کو غیر آئینی قرار دیدیا تھا۔ یہ ترامیم عوام کے بنیادی حقوق کو زک پہنچارہی تھیں۔یہ فیصلہ ’کیشونندا بھارتی‘ کے نام سے مشہور ہے۔مذکورہ ترامیم کو کیرالہ کے ایک ہندو مٹھ کے سربراہ ’کیشونندا بھارتی‘ نے چیلنج کیا تھا۔
یہ ایک عدیم المثال اور تاریخی فیصلہ تھا اور اس کے بعد سپریم کورٹ انتہائی مضبوط ہوکر ابھری۔اس فیصلہ کے ذریعہ یہ طے ہوگیا کہ حکومت یا پارلیمنٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی اور یہ بھی کہ سپریم کورٹ کو حکومت یا پارلیمنٹ کے ذریعہ بنائے گئے قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے کرانہیں باقی رکھنے یا کالعدم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے متعدد فیصلوں کے ذریعہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری پر بھی اختیار قائم کرلیا۔ سپریم کورٹ نے آئین کی دفعہ 21 کے تحت شخصی زندگی اور شخصی آزادی کے بنیادی حق کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے شہریوں کو متعدد بنیادی حقوق کا تحفظ بھی عطا کیا اور اسی کے تحت ہر شہری کے عدالت سے رجوع کرنے اور ’مفاد عامہ کی عرضی‘ دائر کرنے کو بنیادی حق قرار دیا۔اس طرح سپریم کورٹ نے اپنے لیے نظام عدل وانصاف میں سب سے ممتاز اور اعلی مقام حاصل کرلیا۔
جسٹس اے پی شاہ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کا کردار ‘ ملک میں کسی بھی دوسرے کردار سے بالاترہے۔ اس کے فرائض اور اختیارات کا کسی اور سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔وہ نہ صرف ججوں کی تقرری کراتا ہے بلکہ مختلف مقدمات کیلئے بنچوں کی تشکیل بھی کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک جج کے طور پر معمول کے مقدمات بھی نپٹاتا ہے۔
جسٹس شاہ نے 2014 کے بعد کے دور کو عدلیہ کیلئے برے دور سے تعبیر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلے کے ادوار کے مقابلہ میں اس کی طاقت بہت کمزور ہوئی ہے اور یہ کہ ’عاملہ‘ نے اس پر اپنا کنٹرول کرلیا ہے۔
2014 میں جس وقت بی جے پی کی قیادت میں وزیر اعظم نریندر مودی نے حکومت بنائی تھی تو ملک کے چیف جسٹس پی سداشوم تھے۔ وہ جب سبکدوش ہوئے تو محض چند ہفتوں میں ہی حکومت نے انہیں کیرالہ کا گورنر مقرر کردیا۔ حکومت نے انہیں گورنر بناکر یہ پیغام دے دیا تھا کہ چیف جسٹس کو سبکدوش ہوتے ہی ’کام‘ بھی مل سکتا ہے۔
تاہم سداشوم کے بعد آنے والے چیف جسٹس آر ایم لودھا نے اس پیغام کا کوئی خاص اثر نہیں لیا۔ انہوں نے براہ راست بار (وکیلوں) سے ججوں کی تقرری کی روایت بھی ڈالی۔
گوکہ آئین میں اس کا التزام ہے تاہم کسی چیف جسٹس نے شاذ ونادر ہی ایسا کیا تھا۔ججوں کی تقرری کیلئے ان کی ہر سفارش کو مانا گیا لیکن سپریم کورٹ کے قابل وکیل گوپال سبرامنیم کا نام حکومت نے عرصہ تک روکے رکھا۔
بعد میں خود سبرامنیم ہی نے اپنا نام واپس لے لیا۔جسٹس لودھا ان کے نام پر حکومت سے ٹکر لینے کا ذہن بنائے ہوئے تھے لیکن جب وہ خود ہی میدان سے ہٹ گئے تو پھر معاملہ ہی ختم ہوگیا۔ جسٹس ایچ ایل داتو کے زمانے میں حکومت نے نیشنل جوڈیشیل اپائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ پاس کرکے ججوں کی تقرری کا اختیار حاصل کرنے کی کوشش کی۔
جسٹس داتو نے اس قضیہ کو پانچ رکنی آئینی بنچ کے حوالہ کردیا۔آخر کار کئی دنوں کی زوردار بحث کے بعد بنچ نے اس ایکٹ کو کالعدم کردیا۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کے زمانے میں عدلیہ اور حکومت کے درمیان کشیدگی اور بڑھی۔تاہم جسٹس ٹھاکر نے ججوں کی تقرری اور دیگر انتظامی امور میں حکومت سے لوہا لیا۔مبصرین کا خیال ہے کہ جسٹس ٹھاکر مودی کے اقتدار میں آخری چیف جسٹس تھے جنہوں نے کچھ جرات دکھائی تھی۔
ان کے بعد سکھ طبقہ کے پہلے چیف جسٹس‘ جے ایس کیہر نے کئی معاملات میں اخلاقی ضابطوں اور روایتوں کو بالائے طاق رکھ دیا۔ اروناچل پردیش کے سابق وزیر اعلی’ کلکھوپل‘ کی موت کے بعد ان کی بیوہ نے جن مختلف ججوں پر مقدمہ چلانے کی اجازت مانگی تھی
ان میں خود جسٹس کیہر کا بھی نام تھا۔ ظاہر ہے کہ جب کسی جج پر اس طرح کے الزامات ہوتے ہیں تو وہ اخلاقی طور پر کمزور ہوجاتا ہے اور حکومت کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔طلاق ثلاثہ پر سماعت کرنے والی بنچ میں جسٹس کیہر بھی شامل تھے۔ا
نہوں نے طے شدہ ضابطوں کو توڑتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ کے دلت جج‘ جسٹس سی ایس کرنن کے خلاف کارروائی کی اور انہیں جیل تک بھیجا۔ جسٹس دیپک مشرا بھی حکومت سے مقابلہ نہ کرسکے۔
ان پر چار ججوں نے پریس کانفرنس کرکے من مانی کرنے کا الزام عاید کیا اور ان کے طرز عمل کو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا۔ ان چار ججوں میں جسٹس رنجن گوگوئی بھی شامل تھے۔
گوگوئی نے چیف جسٹس بننے کے بعد بابری مسجد کی زمین ہندئوں کے حوالہ کرنے کا فیصلہ دیدیا۔ حالانکہ چیف جسٹس بنتے ہی رنجن گوگوئی کے خلاف سپریم کورٹ میں کام کرنے والی ایک خاتون نے جنسی ہراسانی کا الزام عاید کیا تھا
لیکن اس معاملہ کی سماعت میں خود جسٹس گوگوئی بھی بیٹھے اور اس معاملہ کو خاموشی سے ختم کردیا۔ حکومت نے ان کے سبکدوش ہوتے ہی انہیں راجیہ سبھا کے لیے نامزد کردیا۔ ان کے بعد جسٹس بوبڈے‘جسٹس رمنا اور جسٹس للت نے بھی حکومت سے کوئی خاص مقابلہ نہیں کیا۔مذکورہ بالا 8 چیف جسٹسوں کے دور میں بہت سے اہم معاملات سپریم کورٹ پہنچے
لیکن ان پر سماعت نہ ہوسکی۔ یا ہوئی تو مقدمات حکومت کے حق میں فیصل کردئے گئے۔ لیکن جب سے ڈی وائی چندر چوڑ چیف جسٹس بنے ہیں مختلف حیلوں بہانوں اور مختلف ذرائع سے انہیں بدنام کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
جسٹس چندر چوڑ کے زمانے میں ہی مستقل آئینی بنچ کا قیام عمل میں آیا۔انہی کے زمانے میں آئینی بنچ نے کئی اہم معاملات سن کر فیصل کئے۔ کئی اہم معاملات پر اب بھی سماعت جاری ہے۔
ان میں دفعہ 370 کا معاملہ بھی شامل ہے۔یہی نہیں ان کے متعدد ساتھی ججوں نے‘ اور خاص طور پر ان ججوں نے جو اگلے سات سال تک یکے بعد دیگرے چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے‘ بہت سے معاملات میں حکومت سے لوہا لیا ہے۔موجودہ چیف جسٹس اگلے سال نومبر تک اس منصب پر رہیں گے۔
انہوں نے نظام عدل میں کئی اصلاحات بھی کی ہیں۔ بابری مسجد کو دوسروں کے حوالہ کرنے والے جسٹس رنجن گوگوئی نے اہم معاملات میں حکومت سے بند لفافہ میں رپورٹ لینے کی جو قبیح روایت شروع کی تھی جسٹس چندر چوڑ نے اس روایت کو حقارت کے ساتھ ختم کردیا۔
انصاف پسند عوام اور مظلوم طبقات کو موجودہ چیف جسٹس سے بڑی امیدیں ہیں۔ان کے افکار اور ان کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ وہ حکومت کا کوئی دبائو قبول نہیں کریں گے۔انڈین ایکسپریس کے مضمون میں انہوں نے اس کا بالواسطہ طور پر اظہار کربھی دیا ہے۔
-
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- سپریم کورٹ کا امتحان
- باون گز کا قاتل