وہ جان بوجھ کر ہم سے وائلنس کرواتے ہیں
از قلم، : جمال اختر صدف گونڈوی وہ جان بوجھ کر ہم سے وائلنس کرواتے ہیں کبھی مندر مسجد تو کبھی اہانت انبیاعلیہم السلام نتیجے میں ہمارے نو جوان جیلوں میں ٹھونس دئے جاتے ہیں
وہ جان بوجھ کر ہم سے وائلنس کرواتے ہیں
دوسری طرف کم پڑھے لکھے نوجوان فیسبک وہٹس اپ پہ بکواسیں کرکے انہیں متحد ہونے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں،حکومت کے ساتھ عوام ہو تو اچھی بات ہے لیکن حکومت عوام کے ہر قدم کے ساتھ کھڑی ہو یہ اچھی بات نہیں
بلڈوزر کے بعد دھرم سنسد، یہ سب دو ہزار چوبیس کا ٹرائل ہے، افسوس یہ کہ ہماری قیادت ختم ہو چکی ہے،اس کی جگہ ہر گلی میں خود ساختہ قائد اعظم اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جن کی جہالت،نادانی،غیر تجربہ کاریاں، تقسیم جماعت کا باعث ہے
اب ذرا مذہبی حیثیت کا محاسبہ کرلیا جاے، یہاں بھی ہر گلی میں پیر اور ہر علاقے میں چھوٹی بڑی خانقاہیں خود مختاری کا اعلان کر رہی ہیں، جو کہ بربادیوں کی یہ بھی وجہ ہیں
علماے کرائم (بازارو مقرر)کا رول ایک چاپلوس (ایجنٹ) کا سا رول بنتا جا رہا ہے وہ کسی نہ کسی پیر کا ایجینڈہ لے کر جلسوں میں جاتے ہیں اور رات بھر اللہ و رسول کے ذکر کے نام پر پیر صاحب کا ذکر کرتے ہیں ،جس سے عوام میں لگاتار دین سے ہٹکر میسج پہنچ رہا ہے، الا ماشاءاللہ
دولت مند مسلمان فرعونیت و قارونیت کے شکار ہیں انہیں کوئ فرق نہیں پڑتا کہ مسلمان بھوک سے زمین پر ایڑیاں رگڑ کر دم توڑ رہا ہے یا فاقہ کشی سے تنگ آکر خود کشی کر رہا ہے 80 فیصد مدارسِ اسلامیہ اسلام و مسلمان کے خلاف چل رہے ہیں انہیں صرف اور صرف چندہ کرکے اپنی حالت سدھارنے سے مطلب ہے، دوسرے غریب کی حالتیں خراب ہونے کی وجہ یہی مدارس و خانقاہیں ہیں جو سلطانہ ڈاکو کی طرح انکے حقوق کو لوٹ کر انہیں برباد کر رہے ہیں
اب پیر صاحبان سے بھی ملاقاتیں کروا دوں، کیا کہنا ، اس زمین پر سب سے زیادہ بہترین زندگی انہیں حضرات کی ہے، کروڑوں روپیہ تجارت میں لگانے کے بعد بھی تاجر مطمئن نہیں رہتا کہ نفع یقینی طور پر حاصل کر پائے گا کیونکہ بازار کے حالات بنتے بگڑتے رہتے ہیں
لیکن ان پیروں کا کیا کہنا، ایک پیسہ لگاے بغیر کروڑوں روپے سالانہ کما لینا انہیں حضرات کا خاصہ ہے، مزاروں پر بیٹھے منافقین(مجاور) کسی بھیڑیے سے کم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس غریب امت کا قسطوں میں شکار کر رہے ہیں، اور جاہل ،نکمے،کاہل،کم ظرف ،اللہ و رسول کو بھول کر مزار پر ایک ہی چادر چڑھاکر کروڑ پتی ہونے کے لیے مجاوروں کی توند بھرنے چلے جاتے ہیں ،
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
ان ساری برائیوں کا سرچشمہ وہی مولوی حضرات ہیں جو رات جلسوں میں اللہ و رسول کی شان کے بجاے پیر صاحب ،مزار صاحب،چادر گاگر،پر تقریر کرکے بھولے بھالے مسلمانوں کے ایمانی اعتقاد کو شیطانی عمل میں جھونک دیتے ہیں
کیونکہ مزار پر حاضری ہم اہلسنت جائز مانتے ہیں اسکا یہ قطعی مطلب نہیں کہ وہاں میلہ ،تماشہ شروع کر دیا جاے اور عورتیں تنگ کپڑے پہنکر گناہوں کا بازار گرم کریں، اب ان مولویوں کے باپ بھی آ جائیں تو بھی ان عورتوں کومزار پر عریانیت و ننگا ناچ نہیں روک پایئں گے
ان سارے خرافات کی دعوت مزار پر حاضری کے نام پر مولویوں نے مردوں کو پہلے دی اور وہ مرد حضرات وہی دعوت اپنی اپنی عورتوں کو دیں، ان حرام خور بازارو مولویوں نے اگر پیر صاحب خانقاہ چادر گاگر کے بجاے دین کی طرف بلایا ہوتا تو آج یہ دن نہیں دیکھنے پڑتے،ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے بجاے مسلمان پیروں کے ساتھ حسن سلوک کرکے ماں باپ کے ساتھ حق تلفی کر رہا ہے
مطلب صاف ہے کہ دین کی تبلیغ کے بجاے پیر و خانقاہ کی تبلیغ کی گئ جسکا نتیجہ ہے کہ مسجد میں نہیں بھیڑ مزار پہ نظر آتی ہے، ماں باپ کے پاس نہیں اولادیں موٹے توند والے پیروں کے پاس دست بستہ کھڑی نظر آتی ہیں
اب بھی ان حرام خور مولویوں کو ہوش نہیں آیا ، ابھی بھی انکا دامن انکا دامن کا نعرہ لگواتے ہیں، سب سے بڑا دامن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اس دامن میں آنے کی دعوت کیوں نہیں دی جاتی، ابھی بھی جلسوں میں دوران تقریر پیر صاحب اسٹیج پر آ جایئں تو موضوع بدل جاتا ہے، اللہ و رسول کی شان کے بجاے پیر صاحب کی شان میں خطبے شروع ہو جاتے ہیں جس سے عوام کے دل میں اللہ و رسول کی محبت سے زیادہ پیر صاحب کی محبت پیدا ہو گئی ہے
اس کا ثبوت یہ ہے کہ جلسوں میں اللہ تعالیٰ کی منظوم حمد پڑھی جاتی ہے تو پانچ دس ہزار کے مجمع میں کوئ دس روپے انعام دینے کے لیے نہیں اٹھتا، نعت پڑھی جاے تو کچھ لوگ ضرور اٹھتے ہیں انعام دیتے ہیں
لیکن جیسے پیر صاحب کی شان میں قصیدے پڑھنے کے لیے بے عمل شاعر کھڑا ہوتا ہے فورا اسے ہار پھول سے لاد دیا جاتا ہے جیسے کہ یہ قسطنطنیہ کی جنگ عظیم فتح کرکے لوٹا ہو،
پھر اس کے بعد جیسے ہی پہلا مصرع پیر صاحب کی شان میں پڑھتا ہے جاہل مریدوں کی نوٹوں کی گڈیاں اڑنا شروع ہو جاتی ہیں، اللہ و رسول سے زیادہ پیر صاحب کو اہمیت دینے کا نتیجہ ہے کہ ہم ہر شعبہء حیات میں پسماندگی کے شکار ہیں اللہ تعالیٰ صحیح پیروں کی پیروی عطا فرمائے
اللہ تعالیٰ اس لٹتی اور برباد ہوتی امت کی مدد فرماے
از قلم : جمال اختر صدف گونڈوی