سر نیم تبدیل کرنے کا حق
سر نیم تبدیل کرنے کا حق
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ’’سر نیم‘‘ (خاندانی وقبائلی سابقہ ولاحقہ) تبدیل کرنے کا حق باپ کی وفات کے بعد ماں کو دے دیا ہے
ماں اپنے بچے کو دوسرے شوہر کو گود لینے کا حق بھی دے سکتی ہے، اس طرح بچے کا سر نیم نہیں نسب بھی گود لینے والے مرد سے جڑ جائے گا، عدالت کی نظر میں ’’سرنیم‘‘ صرف نسب کا اشاریہ نہیں ہے، بلکہ وہ پوری خاندانی روایت، ثقافت اور تہذیب کا اعلانیہ ہے، ’’سر نیم‘‘ سے بچہ کی شناخت بنتی ہے۔
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مساجد کا تحفظ اور اس کا طریقۂ کار
- دل ودماغ کوترو تازہ رکھنے کا ہنر
اب اگرماں کے مطابق ’’سرنیم‘‘ رکھنے کا اختیار نہ دیاجائے تو بچہ کے ذہن میں ہمیشہ یہ بات رہے گی کہ وہ اس خاندان کا نہیں دوسرے خاندان کا فرد ہے۔ اس طرح بچہ دوسرے خاندان سے مربوط نہیں ہو سکے گا، عدالت کا کہنا ہے کہ اس نقطۂ نظر سے ہمیں کچھ غلط نہیں لگتا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے آندھرا پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہوگیا ہے، سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ اکیلا للتا نے دائر کیا تھا، للتا کی شادی ۲۰۰۳ء میں کونڈا بالا جی سے ہوئی تھی، لیکن صرف تین سال بعد ۲۰۰۶ء میں وہ چل بسا، اور ایک لرکا لہا د کو چھوڑ گیا، اس وقت لڑکے کی عمر ڈھائی ماہ تھی، ایک سال بعد اکیلا للتا نے دوسری شادی اکیلا روی نرسمہا سے کر لیا اور اپنے بچہ کا’’ سر نیم‘‘ اکیلا کر دیا۔
یہ بات پہلے شوہر کے والدین کو پسند نہیں آئی، انہوں نے ۲۰۰۸ء میں پوتے کا سر پرست بنانے کی عرضی گذاری،یہ مقدمہ گارجین اینڈ وارڈس ایکٹ ۱۸۹۰ء کے دفعہ ۱۰؍ کے تحت دائر ہوا اور ہائی کورٹ نے اہلاد کے دادا، دادی کی اس درخواست کو مان لیا، سرپرست للتا کو باقی رکھتے ہوئے للتا کو حکم دیا گیا کہ وہ بچے کا ’’سر نیم‘‘ کونڈا کر دے، معاملہ سپریم کورٹ پہونچا۔
اس نے ہائی کورٹ کی ہدایت کو ظالمانہ اور غیر معقول قرار دے کر للتا کو سر نیم بدلنے ، بلکہ شوہر کو گود لینے اور اس کے باپ کے طور پر دوسرے شوہر کے نام درج کرنے تک کی اجازت دیدی، تاکہ بچہ اس دوسرے خاندان سے اپنے کو الگ نہ سمجھے۔
سماجی طور پر یہ فیصلہ جس قدر بھی قابل قبول ہو ، لیکن بچے کے نسب بدل دینے کی بات تو ہم جیسوں کی سمجھ میں نہیں آتی، ہمارے یہاں کسی بچے کو باپ کے علاوہ دوسرے کسی مرد کو باپ کہا جاتا ہے تو اسے بڑی گالی سمجھی جاتی ہے، اس لیے اسلام نے منہہ بولے بیٹے کو اپنا نام دینے سے منع کیا ہے اور شفقت ومحبت کے با وجود اس گود لیے ہوئے بچے کو ترکہ میں بطور وراثت حصہ دینے کا کوئی تصور نہیں رکھا، البتہ وارثوں کے علاوہ دوسرے کسی کے بارے میں بھی تہائی مال کے بقدر وصیت نافذ العمل ہے
اسی طرحہ وہ اس منہہ بولے بیٹے کے لیے بھی وصیت کر سکتا ہے، پردہ وغیرہ کے احکام اس منہہ بولے بیٹے سے اجنبی مرد کی طرح ہی باقی رہے گا۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مسلم پرسنل لا پر عمل کے بنیادی حق تسلیم کیے جانے کی وجہ سے مسلمانوں پر نافذ العمل نہیں ہے ۔
لیکن کب کوئی سرپھرا اس کو نظیر بنا کرواویلا شروع کردے، کہنا مشکل ہے، اس مسئلے پر پہلے بھی کافی بحث ہو چکی ہے، اور مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام متنبی بل کی وجہ سے ہی عمل میں آیا تھا، جب حمید دلوائی نے متبنی بل کو یکساں سول کوڈ کی طرف بڑھتا قدم قرار دیا تھا۔