مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی خدمات

Spread the love

مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کی علمی خدمات

مفتی محمدشمس تبریز علیمی

سلسلۂ اشرفیہ کے بانی وسرخیل حضرت قطب الاقطاب، غوث العالم، محبوب یزدانی ،مخدوم سیدمولانا اوحد الدین سلطان اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی ولادت صحیح قول کے اعتبارسے ۷۱۲ھ مطابق ۱۳۱۳ء میں ہوئی ۔آپ نے ۱۲۰/سال عمر پائی اور ۲۸/محرم الحرام،۸۳۲ھ /۱۴۲۹ء کو بمقام روح آباد،کچھوچھہ مقدسہ میں وصال فرمایا۔مزاراقدس اسی مقدس سرزمین پرعام وخاص کی زیارت گاہ اوربیماروں کے لیے شفاخانہ ہے۔

حضرت محبوب یزدانی کے والدگرامی سیدمحمدابراہیم نوربخشی ابن سلطان سید عمادالدین شاہ نوربخشی سمنانی،سلطنت سمنانیہ نوربخشیہ ایران کے سلطان تھے۔ والدہ ماجدہ حضرت بی بی خدیجہ،اولاد شیخ احمدیسوی علیہ الرحمہ سے تھیں۔ حضرت غوث العالم علیہ الرحمہ کاسلسلۂ نسب ۲۰، واسطوں سے امام جعفرصادق رحمۃ اللہ علیہ تک اور۲۳، واسطوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ تک اور۲۵، واسطوں سے رسول اللہ ﷺ تک پہنچتاہے۔ نسب مادری بی بی نصیبہ ہمشیرہ غوث اعظم رضی اللہ عنہ سے ملتاہے۔جوحضرت شیخ احمد یسوی ( ۴۸۶۔۵۶۲؁ھ /۱۰۹۳۔ ۱۱۶۶؁ء) کے خاندان سے تھیں۔(حیاتِ مخدوم العالم،ص:۱۰۳/۱۰۶،)

مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ جب چارسال،چار ماہ اورچاردن کے ہوئے توخاندانی روایات کے مطابق آپ کی تعلیم کاآغاز کیاگیا۔اس روز دربارِشاہی میں جلسۂ شادی وشادمانی منعقد ہوا۔تمام شہر اورچارباغ سلطانی میں آئینہ بندی کی گئی ۔ طرح طرح کے عمدہ فرش اور قالین بچھائے گئے اورمسندِ شاہانہ بچھائی گئی۔ حضرت مولانا عماد الدین تبریزی نے بسم اللہ کرائی اورابجد پڑھائی۔ سات سال کی نہایت کم عمری یعنی ۷۱۵ھ/۱۳۱۵ء میں حفظ قرآن وقرات عشرہ کی تکمیل کی ۔

چودہ سال کی عمر یعنی ۷۲۲ھ/۱۳۲۲؁ء میں جملہ مروجہ علوم معقول ومنقول سے فراغت حاصل کرلی لیکن تصوف وعرفان سے انہیں قلبی وروحانی ارتباط تھا،یہی ذوق انہیں کشاں کشاں حضرت خواجہ علاؤالدولہ سمنانی کی خدمت میں لے گیاجواپنے دور کے معروف صوفی تھے،آپ اکثران کی خدمت میں رہاکرتے تھے۔

 

حضورمخدوم پاک علیہ الرحمہ کے والدمحترم سیدمحمدابراہیم کے اس دارِفانی سے رحلت فرمانے کے بعد ۱۵/سال کی عمریعنی ۷۲۳؁ھ/ ۱۳۲۳؁ء میں ریاست سمنان کے وارث بنے اور تختِ حکومت پر متمکن ہوئے مگرچونکہ ان کاطبعی میلان فقرودرویشی کی طرف تھا اس لئے تھوڑے ہی عرصے کے بعدحضرت خضر علیہ السلام کی ترغیب سے اپنے بھائی اعرف محمد کو تخت حکومت سپردکرکے ۲۵/سال کی عمر میں سلطنت سے دستبردار ہوگئے۔

مدت خلافت ۱۰/سال رہی۔ آپ کی روحانی تربیت ابتدا سے ہی حضرت خضر علیہ السلام نے کی اوراس کےساتھ ہی روحانی طورپر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے آپ کواذکارِ اویسیہ سے مشرف فرمایا۔

تختِ شاہی سے دستبرداری کے بعدآپ ہندوستان کی طرف چل پڑے۔گھرسوار اورپیادہ فوج کچھ دورتک آپ کے ہمرکاب تھی لیکن آپ نے انہیں بالآخرواپس لوٹادیا اورتنہاسفراختیارکیا، یہاں تک کہ ایک موقع پراپناگھوڑا بھی کسی ضرورت مند کودے دیااورپیدل سفر جاری رکھا۔ملتان کے راستے اُچ شریف پہنچے ۔

حضرت سید جلال الدین بخاری المعروف مخدوم جہانیان جہاں گشت علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا کہ : ایک مدت کے بعد خوشبوئے طالب صادق میرے دماغ میں پہنچی ہے اورایک زمانہ کے بعد گلزارِ سیادت سے نسیم تازہ چلی ہے ۔ اے سلطان سید اشرف ! نہایت مردانہ راہ میں نکلے ہو،مبارک ہو۔

حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت نے آپ کومقامات فقرسے بہت کچھ عطاکیا اورفرمایاکہ جلد پورب ملک ہند ،ریاست بنگال کی طرف جائیے کہ میرے بھائی علاؤ الحق والدین گنج نبات قدس سرہ آپ کے منتظر ہیں۔ خبردار ! خبردار ! کہیں راستہ میں زیادہ نہ ٹھہریے۔ آپ وہاں سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے اورسفر کرتے ہوئے دہلی پہونچے۔

یہاں ایک بزرگ ملے اورفرمایاکہ اے اشرف ! دیکھو بڑی جلدی کرو ،راستہ میں کہیں نہ ٹھہرو، میرے برادر حضرت شیخ علا ؤالحق والدین علیہ الرحمہ تمہارے بے حد منتظر ہیں۔آپ وہاں سے بھی نکل پڑے اورتیز رفتاری کے ساتھ سفرکرنے لگے۔ جب آپ بہارشریف پہنچے تووہاں حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ کاوصال ہوچکا تھا ۔ان کی وصیت کے مطابق آپ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اورانہوں نے جوتبرکات آپ کے لیے چھوڑے تھے وہ لے لیے۔

اور وہاں سے اپنے سفر پر نکل پڑے، چلتے چلتے بالآخرآپ اپنی منزل مقصودمرشدِلاثانی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔سرکار مخدوم العالم شیخ علاؤالحق والدین چشتی گنج نبات کے دست مقدس پربیعت کی اوراسی وقت پیرومرشدنے خلافت واجازت سے مشرف فرمایا۔ملک سمنان سے سرزمین پنڈوہ شریف مغربی بنگال کا یہ سفردوسال میں مکمل ہوا۔(لطائف اشرفی مترجم و حیات غوث العالم)

علمی خدمات: تارک السلطنت حضرت سیدمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ علیہ نے صرف چودہ سال کی عمر میں جملہ علوم عقلیہ ونقلیہ میں مہارت تامہ حاصل کرلی ،پھرکیاتھادیکھتے ہی دیکھتے عرب وعجم میں آپ کےعلوم وفنون کاشہرہ عام ہوگیا۔دوردراز سے اکابر علماء و فضلاء استفادہ اورشاگردی کی غرض سے حاضرہونے لگے اورفارس کی تعلیم گاہوں میں آپ کاطوطی بولنے لگا۔

سیداشرف جہانگیرسمنانی اپنے زمانہ کے جیداورمقتدرعالم ،عظیم المرتبت ولی کامل ،صوفی باصفا تھے، ساتھ ہی بہت سی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔آپ کے تبحرعلمی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ دس سال تک تخت ِ شاہی پرمتمکن رہے اس دوران کثیر تعداد میں علماء و فضلاء آپ کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کرتے اوراپنی علمی تشنگی بجھاتے رہے۔

حکومت کے امورانجام دینے کے علاوہ علمی مسائل کی پیچیدہ گتھیاں بھی سلجھاتے رہے۔بادشاہِ وقت ہونے کے ساتھ آپ محقق ،مفکر،مصنف،مؤلف، مترجم،مفسر، مجدد،مصلح،محدث،فقیہ عصر،محشی،مؤرخ، نعت گو شاعر،اردوزبان کے اولین ادیب اورایک عظیم شارح بھی تھے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کوایساعجیب علم عطافرمایا تھا کہ جس ملک و علاقہ میں تشریف لے جاتے وہاں کی زبان بولتے اوراسی زبان میں وعظ ونصیحت کرتے اورکتاب تصنیف کرکے وہاں کے لوگوں کے لئے چھوڑ آتے۔ بہت سی کتابیں آپ نے عربی ،فارسی،ترکی،زنگی اورسوری وغیرہ مختلف ملک کی زبانوں میں تصنیف فرمائیں ہیں ۔ جلیل القدرعلماء کایہ قول تھاکہ جس قدرتصانیف حضرت محبوب یزدانی نے تحریرفرمائیں ہیں بہت کم علماء اس قدر تصانیف کثیرہ کے مصنف ہوئے ہوں گے۔

آپ جس وقت فرمانروائے تخت سمناں تھے اس وقت آپ کے نام کاسکہ جاری تھا۔آپ کے زمانے میں عدل وانصاف اپنی معراج کوپہونچ گیا اور سمنان ایک علمی مرکز بن گیا۔ دینی وملی خدمات جلیلہ کودیکھ کر شاہانِ وقت تخت سمنان سے رشک کرنے لگے اورعام وخاص دینی کارناموں کودیکھ کرسلطان سید اشرف علیہ الرحمہ کواوحدالدین کہہ کریاد کرنے لگے۔

آپ نے مختلف عناوین پرکتابیں تصنیف فرمائیں ہیں جن میں سے چندکے اسما ملاحظہ کریں:

ترجمۂ قرآن(فارسی )

رسالہ مناقب اصحاب کاملین ومراتب خلفائے راشدین ،رسالہ غوثیہ، بشارۃ الاخوان، ارشادالاخوان، فوائد الاشراف، اشرف الفوائد،رسالہ بحث وحدۃ الوجود،تحقیقات عشق،مکتوبات اشرفی،شرف الانساب، مناقب السادات، فتاوائے اشرفی(عربی) دیوان اشرف،رسالہ تصوف واخلاق(اردو) رسالہ حجۃ الذاکرین،بشارۃ المریدین، کنزالاسرار،لطائف اشرفی(ملفوظات سیداشرف سمنانی) شرح سکندرنامہ،سرالاسرار،شرح عوار ف المعارف ،شرح فصول الحکم،قواعد العقائد،تنبیہ الاخوان،رسالہ مصطلحات تصوف،تفسیر نور بخشیہ ،رسالہ درتجوید طعنہ یزید،بحرالحقائق ،نحو اشرفیہ، کنزالدقائق ،ذکراسمائے الٰہی، مرقومات اشرفی، بحرالاذکار، بشارۃ الذاکرین، ربح سامانی،رسالہ قبریہ،رقعات اشرفی،تسخیر اشرفی،تسخیر کواکب،فصول اشرفی، شرح ہدایہ(فقہ)حاشیہ برحواشی مبارک وغیرہ۔( ماخوذ:سیداشرف جہانگیرسمنانی اپنے ملفوظات کے آئینے میں)

مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ علوم وفنون کے بحرناپیداکنارتھے۔ آپ کی بارگاہِ علم وفضل اورروحانی تصرفات کاعالم یہ تھاکہ آپ اپنی خاص توجہ اورنگاہِ ولایت سے ان پڑھ اورگنوارکوبھی ایساعالم بنادیتے کہ اس پر علم لدنی کے بھیدکھلنے لگتے اوروہ علماء کے بہت ہی پیچیدہ سوالات کےتشفی بخش جوابات دینے لگتے تھے۔مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی علیہ الرحمہ کی تصانیف، تصوف ،طریقت اورمختلف علوم وفنون پرمحیط ہیں۔

زیادہ ترکتابیں آپ نے سفرمیں تحریرفرمائیں ،اس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہیں کہ حالت سفرمیں بھی کتابیں ساتھ ہوتیں اورآپ کامطالعہ نہایت وسیع تھاجس بنیادپردلائل وبراہین کے ساتھ اپنی باتیں ضبط تحریرمیں لائے ہیں۔

تصنیف وتالیف کاکام کس قدردشوار اورمشکل ترین ہے اس منزل کے مسافرہی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں۔ سفرکی پریشانیوں اورزادِ راہ کی قلت کے باوجود انمول تصنیفات کاگراں قدر سرمایہ دعوت فکردے رہاہے ۔اور ان تصانیف کی لمبی فہرست آپ کی علمی وقلمی اوردینی خدمات کامنہ بولتاثبوت ہے۔اوراس سے یہ اندازہ لگایاجاتاہے کہ آپ علم وفضل کے بہت ہی اعلیٰ مقام پرفائز تھے۔آپ کی تصانیف میں کتاب لطائف اشرفی(ملفوظات کامجموعہ)

علم وعرفان کاوہ انمول خزینہ ہے جسے کتب صوفیہ میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔اس ضخیم کتاب میں آپ کے ارشادات کوساٹھ لطائف میں منضبط کیاگیاہے۔

مخدوم پاک کے ملفوظات میں توحید اوراس کے مراتب،ولی اورولایت کی معرفت،معجزہ وکرامت،شیخ طریقت کے شرائط،اصطلاحات تصوف،فکرومراقبہ،معانی زلف وخال، سماع واستماع مزامیر، مسائل قضا وقدر،ارکان اسلام کے رموز و اسرار،امت کے فرقوں کابیان اورمذاہب کی تفصیل، دنیاکے عجائب وغرائب،اخلاق وآداب، تصوف ومعرفت، شطحیات صوفیہ وغیرہ کوموضوع سخن بنایاگیاہے۔یہ کتاب تصوف کے سمندرمیں غوطہ لگانے والوں کے لیے ساحل فوزوفلاح کی ضامن ہے۔

ہزاروں تشنگانِ معرفت اس سرچشمۂ فیضان سے سیراب ہوئےہیں۔ــ اس کتاب کوتصوف کی ایک قاموس کہاجائے توبے جانہ ہوگا۔ یہ اس زمانہ کی علمی ، دینی  اورعرفانی تاریخ بھی اوربزرگان دین کاتذکرہ بھی ہے۔تحریرکردہ فہرست کتب کودیکھ کریہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ آپ علوم وفنون کے مقام علیا پرفائز تھے

اورآپ نے امت مسلمہ کی اصلاح ،اوران کی رہنمائی کے لیے اپنے زمانہ میں مختلف عناوین پر ایسی ایسی نادرونایاب کتابیں تحریر کیں جس سے قیامت تک اہلِ علم استفادہ کرتے رہیں گے۔

مخدوم پاک کی دینی، علمی اورقلمی خدمات کامکمل احاطہ کرنایہاں مشکل ہے، لہٰذا اسی پر قلم بندکیا جارہا ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ سیدمخدوم اشرف سمنانی علیہ الرحمہ کے علمی سمندرسےچندجرعے ہمیں بھی عطافرمائے ۔آمین۔ (حوالہ: سیداشرف جہانگیرسمنانی اپنے ملفوظات کے آئینے میں، مخدوم سید اشرف جہانگیرسمنانی،جہان علوم معارف)

مفتی محمدشمس تبریز علیمی

(.ایم.اے.) مدارگنج، ارریہ. بہار۔ 

Stabrazalimi786@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *