مسٹر سر سید اور علماے کرام
مسٹر سر سید اور علماے کرام
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی، گجرات (انڈیا)
بندہ لبرل افکار کی اشاعت کے تیز ترین دور میں جی رہا ہو اور سیکولر مزاج عیسائی پروٹسٹنٹ حکومت کے زیر اثر بلکہ زیر سایہ بھی ہو، پھر اسے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے اور مسلم معاشرے میں اپنا قد اونچا کرنے کے لیے داڑھی رکھنے سے لے کر تفسیر لکھنے تک کے سارے جتن بھی کرنے پڑیں، اس کے بعد وہ جدید فکر کا بانی بھی قرار دیا جائے اور مسلمانوں کو زوال سے عروج کی طرف اٹھا کر حقیقی اسلام کی توجیہ کرنے والا بھی سمجھا جائے….۔
ایسی متنازع الجہات شخصیت کو لوگ “احمد” کے نام سے یاد کرتے ہوئے اس سے پہلے “سید” اور آخر میں “خان” کا لاحقہ جوڑتے ہیں، پھر پورے مجموعہ پر “سر” کا تمغہ چسپاں کر دیتے ہیں. نام کی لمبی چوڑی ترکیب دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رنگا رنگ زندگی اور بے رنگ افکار کا تنازعہ نام میں بھی سرایت کر گیا ہے
جیسے مولوی ابو الکلام آزاد کب مسٹر آزاد ہو گئے اس کا پتا ہی نہ چل سکا ایسے ہی مدرسہ علیگڑھ کے بانی مولوی سید احمد کب علی گڑھ کالج کے مسٹر سر سید ہو گئے اس کا بھی اندازہ نہ ہو سکا. کچھ ایسا ہی پیچیدہ سفر مولوی شبلی سے مسٹر شبلی تک کا بھی ہے. ویسے تو یہ ایک معمہ ہے مگر ایڈورڈ سعید کی کتاب Orientalism پڑھ کر اسے کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے.
معرّی عن الالقاب مذکورہ احمد خان صاحب کی شخصیت دو خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ بقول مختار مسعود: “سر سید دو طرح سے ہے. ایک تعلیم والا سر سید، دوسرا تفسیر والا سر سید.”
ہماری دانست کے مطابق تکفیر کا تعلق دوسرے والے سر سید سے ہے. تفسیر ایک فن ہے جس کو اس کے اصولوں کے مطابق ہی برتا جاتا ہے. اگر کوئی شخص اصولوں سے ہٹ کر من مرضی سے یا کسی کی رضامندی کے لیے اس فن میں طبع آزمائی کرے تو اصولوں کی خلاف ورزی کا مجرم تو قرار پاتا ہی ہے
لہٰذا نیم تاریخ داں اور تاریخ سازی کا ذمہ اٹھانے والے مصنفین کا تکفیر اور موصوف کی تعلیمی تحریک کے درمیان ربط تلاش کرنا ایک لغو عمل ہے، بلکہ اس سے بھی غیر تحقیقی اور تعصب پر مبنی بات تو ان کا یہ دعویٰ ہے کہ علماء سر سید کی تکفیر انگریزی زبان سیکھنے کی دعوت کی وجہ سے کرتے تھے
حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ذاتیات سے پَرے یہ ایک خالص مذہبی و فنی نوعیت کا اختلاف تھا. فنی و اصولی طور پر اسلام کے امور لازمہ کو نہ مان کر اپنی مرضی یا مستشرق کی رضامندی کے لیے مسٹر سر سید نے جو تفسیر لکھی؛ علماے اسلام نے اس کو پڑھنے اور غور و فکر کرنے کے بعد اس میں مذکور نظریات کو کفر اور قائل کو کافر قرار دیا
جو بلا شبہ ایک اعتدال پر مبنی عمل تھا. رہا تعلیمی تحریک والے سر سید سے علماء کا اختلاف تو وہ نظریاتی سطح کا اختلاف تھا. اس کی دو ممکنہ صورتیں ہیں، جو اس سوال کے جواب میں پیدا ہوتی ہیں کہ جدید تعلیم سے مراد کیا ہے؟؟؟
آیا اس سے مراد اپنا مذہبی تشخص، اپنی دینی اقدار اور اسلامی تہذیب قائم رکھتے ہوئے جدید علوم میں پیش رفت کرنا ہے؟ یا پھر جدید تعلیم کا یہ باب اس وقت تک مکمل نہ ہوگا جب تک دماغ مغرب کے علم، دل اس کی غلامی اور جسم اس کی بود و باش سے مزیّن نہ ہو جائے.!!؟
ظاہر ہے کہ جدید تعلیمی نعرے کے یہ دونوں بالکل الگ الگ پہلو ہیں جس کے بارے میں رائے یا رد عمل کا مختلف ہونا بدیہی ہے
ہر دو جہت سے علماے اسلام کے نظریات جاننے اور سمجھنے کے بعد ہی کسی نتیجے پر بات کی سکتی ہے. پہلے زاویے کے مطابق اگر تعلیم سے مراد تصلّب فی الدین کے لیے ہر جدید علم کو آلہ کے طور پر استعمال کرنا ہو تو علما کل سے لے کر آج تک ہر لمحہ بذات خود اس کے داعی رہے ہیں
ایسی صورت میں زیادہ صحیح تعبیر یہ ہوگی کہ مسٹر سر سید نے اپنے افکار میں اِس زاویے سے علماء کی موافقت کی ہے
دوسرے زاویے کے مطابق تعلیم سے مراد اگر تہذیب کی درآمد ہے تو علما اس کے خلاف تھے کہ محض زوال کے کرب کی وجہ سے دوسروں کی تہذیب کا بار آنے والی نسلوں کے کندھوں پر ڈال دیا جائے. اگر مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے کم درجہ کی اخلاقیات نے رواج پکڑ لیا تھا تو اس کا علاج تھا صحیح اسلامی تعلیمات سے ان کو روشناس کرانا اور علماے سوء و صوفیائے خام کی غلط روی کو عام مسلمانوں پر آشکار کر دینا، نہ یہ کہ آنے والی تمام نسلوں کو غیروں کی نظریاتی غلامی کے لیے پیش کر دینا
علما کا خیال تھا اور صحیح خیال تھا کہ مثبت انداز میں تعمیری جہت سے قوم میں تعلیم و تعلم کا شعور پیدا کیا جائے
دین کی بنیادی باتیں اور دین کی روشنی میں زندگی کا مقصد سمجھنے سمجھانے کے بعد ہر جدید سے جدید علم تک رسائی حاصل کرنا بلکہ ہر نئے علم کو اسلام کی حقانیت کے لیے آلہ کے طور پر استعمال کرنا؛ یقیناً ایک بہترین عمل ہے۔
اس کے بر خلاف دین سے بے خبر رہ کر جدید جدید کے شور میں اپنی اسلامی ہستی ہی بھول جانا اور ہر نئے علم کو اسلام پر شکوک و شبہات جڑنے کا آلہ بنا لینا؛ اگر تعلیم کے نعرے کا نتیجہ ہو تو یہ محض رد عمل کا رویہ ہے جو “خَسِرَ الدُنیا وَالآخِرَۃ” کا دوہرا نقصان پہنچانے والا ہے
دین میں جس طرح بے جا شدت کی گنجائش نہیں ایسے ہی کسی طرح کی مداہنت بھی قابل قبول نہیں. اگر کوئی اس پورے اختلافی تناظر میں تعلیم والے مسٹر سر سید کا پہلا پہلو (یعنی محض تعلیم؛ تہذیبی تداخل کے بغیر) مراد لے کر خلاصی و جواب دہی کی کوئی راہ نکالنا بھی چاہے تو ایک صدی کے زندہ حقائق (افراد و افکار دونوں طرح سے) چیخ چیخ کر اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مسٹر سر سید کی تعلیمی دعوت؛ اسلام کی خدمت کے لیے جدید علوم کے آلاتی استعمال پر مشتمل تھی
بلا شبہ علماء کی مذکورہ دونوں رائیں بجا اور دور اندیشی پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی معتدل بھی تھیں. اختلاف کے اتنے واضح اور بدیہی خطوط کو خاطر میں نہ لا کر اپنے سر سید بابا کی محبت میں ماڈرنزم کے علم بردار بن کر علما پر بے جا، بے محل، بے موقع، بے سوچے سمجھے مخالفت کا الزام تھوپتے چلے جانا؛ نام نہاد روشن خیالوں کی بے بصیرتی یا تحقیقی تجاہل یا عصبیتِ گروہی نہیں تو اور کیا ہے؟!!
سچ تو یہ ہے کہ انسانوں کی طرح تاریخ کے بھی کچھ رویے اور کچھ عادتیں ہیں، قرآنی اصطلاح میں سُنّتیں بھی کہہ سکتے ہیں. تاریخ آپ پڑھ سکتے ہیں، واقعات سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں، عروج و زوال کے اسباب کو جان کر قبول و رد کا ردِ عمل دے سکتے ہیں، پھر مجموعی طور پر تاریخی کام یابیوں سے حوصلہ، اور ناکامیوں سے عبرت بھی حاصل کر سکتے ہیں
مگر آپ تاریخ سے مفاہمت نہیں کر سکتے، تاریخ میں کس کردار کو کہاں ہونا چاہیے تھا اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے، تاریخ کی تقسیم کو نظر انداز نہیں کر سکتے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ غیر جانبدار بن کر تاریخ کے کسی دو راہے پر سیکولر نہیں ہو سکتے
جب تاریخ کا دھارا دو مختلف سمتوں میں بہہ رہا ہو تو تحقیق کی کشتی لے کر کسی ایک طرف ہو لینا ہی علمی جرأت کی پہچان ہے۔
-
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- سپریم کورٹ کا امتحان
- باون گز کا قاتل
- کیا کانگریس کو کارپوریٹ کا ساتھ مل رہا ہے ؟