وزیر اعظم سنک اور بھارت کے عوام
وزیر اعظم سنک اور بھارت کے عوام
از : مشرف شمسی
بھارتیہ نسل کے رشی سنک انگلینڈ کے وزیر اعظم بن گیے ہیں ۔ رشی سنک کے دادا پاکستان کے گنجروالا کے رہنے والے تھے اور والد کینیا کے اور ماں تنزانیہ کی رہنے والی تھیں لیکن رشی سنک انگلینڈ میں پیدا ہوئے۔
حالاں کہ بھارت کی اخباروں میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ رشی سنک کو پوجا پاٹھ کرنے والا بتایا گیا ہے جبکہ سچائی یہ کہ پیسہ اور تعلیم آ جانے کے بعد شاید ہی کچھ لوگ مذہب کو گلے لگائے رہتے ہیں ۔
مذہب کو ہیڈ لائن بنایا جا رہا ہے کہ ایک ہندو انگلینڈ کا وزیر اعظم بن گیا ہے اس لیے کہ اس خبر سے سیدھے سیدھے تو نہیں لیکن مودی بھکتوں کو اشارے میں سمجھایا جا رہا ہے کہ انگلینڈ میں جو کچھ ہوا ہے وہ وزیر اعظم مودی کی وجہ سے ہوا ہے اور بھارت کا ڈنکا پوری دنیا میں مودی کی وجہ سے بجنے لگا ہے اور اب انگلینڈ بھی ہندو راشٹر ہو جائے گا۔
اس سے پہلے کینیا کے مسلم گھر میں پیدا ہوئے حسین نامی شخص کا بیٹا براک اوباما امریکہ کا صدر بن گیا تھا۔تب بھی کچھ مسلم بنیاد پرستوں نے خوشیاں منائے تھے اور آج بھی رشی سنک ایک ہندو خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے بھارت کے کچھ ہندو خوشیاں منا رہے ہیں۔
لیکن امریکہ کے صدر بننے میں امریکیوں کو اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ صدر اوبامہ امریکیوں کی مفاد کے خلاف کسی طرح کا کام کریں گے اور اب نہ انگلینڈ میں کسی بھی طرح کا شک و شبہہ ہے کہ سنک ملک کی مفاد کے خلاف یا اپنے مفاد سے سمجھوتہ کر کے بھارت یا نیپال جیسے ہندو اکثریت ملکوں کو فائدہ پہنچائیں گے ۔
کیوں کہ انگلینڈ ہو یا امریکہ اُنکی شناخت مذہب نہیں ہے۔بلکہ جو شخص صدر اور ویراعظم کی کرسی تک پہنچتا ہے وہ ہر طرح سے جانچا اور پرکھا ہوا ہوتا ہے۔دونوں ممالک میں ایجنسیاں ہر اس شخص کی وفاداری اور قابلیت پر اپنی نظر بنائے رکھتے ہیں جو ملک میں کسی اہم عہدے پر پہنچ سکتا ہے ۔
خاص کر انلوگوں کی اور زیادہ اسکروٹنی کی جاتی ہے جن کے پاس سے ملک کی سلامتی کے معاملے کی فائلیں گزرتی ہیں ۔یعنی امریکہ ہو یا انگلینڈ یا دوسرے مغربی ممالک کے ادارے آزاد ، خودمختار اور ذمےدار ہوتے ہیں کہ عوام کا پورا اعتماد اُن پر ہوتا ہے ۔جمہوریت بنا ادارے کی خود مختاری اور آزادی کے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔
وزیر اعظم مودی کے حمایتی جو سنک کے انگلینڈ کا وزیر اعظم بن جانے سے خوش ہیں وہی حمایتی سونیا گاندھی کے وزیر اعظم بنائے جانے پر اعتراض جتا رہے تھے ۔آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنماء آنجہانی سشما سوراج سمیت کئی رہنماؤں نے سونیا گاندھی کے وزیر اعظم بننے کی کھل کر مخالفت کی تھی۔بھارت میں آج نہیں کانگریس کے وقت سے ہی حساس عہدوں پر ملک کی شہریت رکھنے والے مسلمانوں کو فائز کرنے میں پش و پیش کیا جاتا رہا ہے ۔
آزادی کے بعد مفتی محمد سعید تنہا مسلم نام کے رہنماء رہے جنہیں مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ بنایا گیا تھا ۔پھر کوئی مسلم وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچنے کی کوشش کرے تو ملک میں کہرام مچ جائے گا ۔
کیوں کہ بھارت میں ادارے جو حکومت پر چیک اینڈ بیلنس کرتے ہیں وہی ادارے آزادنہ کام کر پاتے ہیں یا حکومت کے اشارے پر کام کرتے ہیں یہ روز مرہ کی زندگی میں عوام دیکھتے رہتے ہیں ۔حزب اختلاف کے نشانے پر وہ سب آئے دن رہتے ہیں ۔چاہے حزب اختلاف میں کوئی بھی پارٹی ہو۔
رشی سنک کا انگلینڈ کا وزیر اعظم بن جانا اس بات کے ثبوت ہیں کہ اس ملک کے عوام ایک بہتر قابلیت والے شخص کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دینے میں کسی طرح کا پش و پیش نہیں کرتے ہیں چاہے اسکی نسل اور رنگ کچھ بھی ہو۔انگلینڈ کے گورے نسل کے لوگوں میں احساس کمتری بھی نظر نہیں آئی کہ ایشیائی اور افریقی جو کبھی اُن کے غلام تھے وہاں کی نسل کا ایک شخص انکا وزیر اعظم ہوگا۔
سنک کے خلاف انگلینڈ کے کسی کونے سے احتجاج کی بھی خبر نہیں آئی ۔کیونکہ انگلینڈ کے عوام کو معلوم ہے کہ کورونا کے بعد ملک کو در پیش مسائل سے نجات دلانے میں سنک بہتر کردار ادا کر سکتے ھیں ۔
ہاں ہمارے وزیر اعظم سنک کو بھارت بلا کر اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے حمایتیوں کو اشارہ دے سکتے ہیں کہ وہ یعنی انگلینڈ کے وزیر اعظم سنک سے بہت ہی راز کی باتیں کر رہے تھے اور پھر وہٹساپ گروپ میں وشو گرو بھارت اور مو دی جی کی سنک سے بات چیت کے کارنامے بھارت کے کونے کونے تک پہنچا دیا جائے گا اور عوام سمجھ بھی جائے گی ۔
میرا روڈ ،ممبئی
9322674787
Pingback: بھارت میں اسلامی حکومت ہوتی تو آبادی کا تناسب مختلف ہوتا ⋆ مشرف شمسی