بھیانک انجام سے پہلے

Spread the love

بھیانک انجام سے پہلے

(روزنامہ انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل

ودود ساجد

نو دسمبر کوسپریم کورٹ میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ پیش ہوا۔اس مقدمہ کی خبر شاید ہی کسی اخبار نے شائع کی ہو۔اس کی تفصیل بھی کوئی بہت زیادہ نہیں ہے۔

سرسری سماعت کے بعدعدالت نے عرضی گزار پر بھاری جرمانہ عاید کیا اور مقدمہ خارج کردیا۔سپریم کورٹ میں یہ معاملہ ختم ہوگیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ معاملہ ختم نہیں ہوا۔ یہ معاملہ بہت بھیانک اور سنگین ہے۔

اس کی سنگینی بہت وسیع ہے۔ بہ حیثیت خیرِ امت اِن سطور کے قارئین کو بھی اس معاملہ کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا۔مجھے انتخابی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔یہ میدان اتنا غیر یقینی اور غیر مستحکم ہے کہ کچھ پتہ نہیں کب کون کیا کرنے لگے۔

اس میدان میں جھوٹ اور مکر و فریب کے سوا کچھ نہیں۔اس میدان میں جب کوئی سچ بولتا ہے تو وہ حیرت کن خبر ہوتی ہے۔اس ہفتہ دو ریاستی اسمبلیوں کے پانچ سالہ اور چند ریاستوں کے ضمنی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں وہ اس ملک کی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو سوچنے سمجھنے کا ایک اور موقع فراہم کرتے ہیں۔ہماچل پردیش تقریباً اپنی روایت پر قائم رہا۔وہاں کے عوام نے بی جے پی کا اقتدار ختم کردیا۔

کانگریس کو اپنے نیم مردہ جسم میں کچھ جان ڈالنے کے لیے آکسیجن مل گیا۔کانگریس کو اس کا سہرا بی جے پی کی اندرونی رسہ کشی کے سر باندھنا چاہیے ۔

اب جب کہ اسے وہاں اکثریت مل گئی ہے تو خود کانگریس کی اندرونی رسہ کشی سامنے آگئی ہے۔وزارت اعلی کے کئی دعویدار سامنے آگئے ہیں۔راجستھان میں جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہوچکا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

مدھیہ پردیش کی اچھی خاصی بنی ہوئی حکومت وہ اپنے موقع پرستوں کے سبب پہلے ہی گنواچکی ہے۔ 2014 کے بعد برسر اقتدار جماعتوں کو للکارنے کے لیے جس مضبوط ’اپوزیشن‘ کی ضرورت تھی کانگریس اس کی تشکیل میں بری طرح ناکام رہی۔

اپوزیشن کا مطلب صرف پارلیمنٹ میں برسر اقتدار جماعتوں کو حاصل نشستوں سے کچھ کم نشستیں حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ اپوزیشن اپنی تنظیمی اور سیاسی قوت کے ساتھ پارلیمنٹ سے باہر بھی مطلوب ہوتی ہے۔

لوک سبھا میں باقی تمام اپوزیشن جماعتوں سے زیادہ نشستوں کے باوجود کانگریس یہ مطلوب قائدانہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہی۔۔ کانگریس کے اس حشر کا ذمہ دار اُس کا غرور اور اُس کا کِبر ونخوت ہے۔ علاقائی طور پر مضبوط جماعتوں کے ساتھ ان کی قدر کے مطابق سلوک نہ کرنے کے سبب وہ ریاستوں میں مزید کمزور ہوتی جارہی ہے۔

اس کا اثر اس کی لوک سبھا کی طاقت پر پڑ رہا ہے۔ یہ اس کیلئے سب سے اچھا ہوتا اگر وہ ریاستی انتخابات میں علاقائی جماعتوں کو ان کا واجب حق دیتی۔ ایسی صورت میں علاقائی جماعتیں مرکزی انتخابات میں اسے اپنا سرخیل بناتیں۔علاقائی جماعتوں کے قائدین کے اندر قومی خواہشات کو جگانے میں کانگریس کے رویہ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

اب بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ دہلی کی عام آدمی پارٹی‘ تلنگانہ کی ٹی آر ایس‘ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس‘ کرناٹک کی جنتادل (سیکولر) اور بہار کی جنتادل(یو) وغیرہ اس کی قیادت میں لوک سبھا کے انتخابات لڑیں اور وزارت عظمی کی دعویداری کانگریس کے لیے چھوڑدیں۔

کانگریس کے اِس حشر کا دوسرا سب سے بڑا سبب راہل گاندھی کا وہ رویہ بھی ہے جس کے تحت انہوں نے موقع ہونے کے باوجود موثر قیادت قبول نہیں کی۔ حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ کانگریسیوں کے مزاج میں گاندھی خاندان کے علاوہ کسی اور کو قائد ماننے کا عنصر شامل ہی نہیں ہے۔اس احمقانہ روش میں راہل گاندھی نے کانگریس کے سات قیمتی سال برباد کردئے۔

اب جب کہ کانگریس کے صدارتی انتخابات کے بعد غیر گاندھی خاندان کا فرد اس کا صدر بن گیا ہے تب بھی کانگریسی ‘ گاندھی خاندان کی ہی طرف نظریں لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔صدر کوئی بھی ہو پارٹی کے لیڈر تو راہل گاندھی ہی ہیں۔اس کا ثبوت اس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ ہے۔راہل گاندھی کے علاوہ اس یاترا کی قیادت کوئی اور لیڈر کرتا تو شاید ہی اسے مختلف ریاستوں میں ایسا ہجوم اکٹھا کرنے میں کام یابی ملتی۔

کانگریس کے موجودہ صدر کتنے ہی بھاری بھر کم ہوں لیکن وہ اندرونی کشمکش پر قابو نہیں پاسکے ہیں۔اس کا سب سے بڑا تازہ ثبوت راجستھان کے وزیر اعلی اشوک گہلوت کی وہ بدزبانی ہے جو انہوں نے ریاست کے ایک نوجوان لیڈر سچن پائلٹ کے خلاف کی ہے۔

اس واقعہ کے دو تین دن بعد ہی اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ اگر ہاتھ میں ہاتھ میں ڈال کر کھڑے تھے تو وہ صرف راہل گاندھی کی وجہ سے کھڑے تھے۔

لہذا اب بھی وقت ہے کہ راہل گاندھی اپنا رویہ بدلیں۔ ملکارجن کھڑگے کے صدر رہتے ہوئے بھی وہ قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔دہلی میں ایم سی ڈی کے انتخابات میں گوکہ عام آدمی پارٹی کو کام یابی ملی ہے اور بی جے پی کی 15سالہ بادشاہت ختم ہوگئی ہے لیکن کانگریس کا کچھ وقار مسلم ووٹوں کی بدولت ہی بچا ہے۔ اس کی 9 میں سے سات نشستوں پر مسلم امیدوار کام یاب ہوئے ہیں۔

یہ حلقے مسلم اکثریتی حلقے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے کانگریس کے ’گناہ‘ معاف کردیئے ہیں۔ لیکن کورونا کے دوران تبلیغی جماعت کو ذمہ دار گرداننے اور پھر مشرقی دہلی کے فسادات کے دوران عام آدمی پارٹی کی حکومت کے غیر مشفقانہ رویہ سے وہ ناراض تھے۔۔

مسلمانوں کے اس رویہ کا تنقیدی جائزہ لیا جاسکتا ہے لیکن مسلمانوں کا یہ رویہ عام آدمی پارٹی کو بھی خود احتسابی کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ اگر اسے اپنی قومی خواہشات کا نشانہ حاصل کرنا ہے تو مسلمانوں کے احساسات کو سمجھنا ہوگا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کانگریس اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ملک کے ووٹروں کی اتنی بڑی آبادی کو نظر انداز کرکے اپنا کھویا ہوا وقار واپس پالے گی تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔

بی جے پی کی ہلکی پھلکی نقل اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی۔ سچی بات یہ ہے کہ بی جے پی نے اپنے لئے جو جارحانہ راستہ منتخب کیا ہے اس راستہ پر چل کر بی جے پی کے سوا کوئی اور جماعت کامیاب نہیں ہوسکے گی۔

گجرات کے نتائج نے سب کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔وہاں بی جے پی نے 27 سال اقتدار کے باوجود خود اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔اپنا ہی نہیں اپنے سابق وزیر اعلی اور موجودہ وزیر اعظم تک کا ریکارڈ توڑ دیا ہے

گجرات کو ’ہندوتو‘ کی فیکٹری کہا جاتا رہا ہے لیکن اب وہاں ایسا کچھ نہ نظر آرہا ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتیں اس اصطلاح کا استعمال کر رہی ہیں۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ایسے وقت میں جب گجرات میں اپنی کھوئی ہوئی زمین دریافت کرنی تھی راہل گاندھی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کو وہاں لے کر نہیں گئے۔

پانچ سال پہلے کانگریس کو اچھی خاصی نشستیں حاصل ہوئی تھیں لیکن اس بار وہ ان کا نصف بھی حاصل نہیں کرسکی۔انتخابی مہم کے دوران کانگریس کی غیر سرگرم موجودگی کو خود وزیر اعظم تک نے محسوس کیا تھا اور کہا تھاکہ وہ خاموشی سے کام کر رہی ہے۔

لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ کانگریس گجرات میں خاموشی سے بھی کام نہ کرسکی۔میں اعداد و شمار کے بغیر انتخابی سیاست پر کوئی رائے ظاہر نہیں کرتا لیکن میں نے اپنے ذاتی مراسم کے تحت گجرات کے متعدد مسلم حلقوں سے جو معلومات جمع کی ہیں ان کی روشنی میں بلا تکلف کہہ سکتا ہوں کہ گجرات میں مسلمانوں نے بھی بی جے پی کو ووٹ دئے ہیں۔

یہ تو دوران انتخاب گجرات سے آنے والی متعدد ویڈیوز میں بھی دکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے بی جے پی کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ ان کے علاقوں سے ’غنڈہ گردی‘ ختم کرنے کے اعتراف اور انعام کے طور پر بی جے پی کو ووٹ بھی دیا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر مسلمانوں اور ان کے مذہبی وسیاسی قائدین کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔

مندرجہ بالا پیراگراف کی آخری سطور ذہن میں رکھئے گا۔ سپریم کورٹ میں 9 دسمبر کو مدھیہ پردیش کے ایک نوجوان آنند کشور چودھری نے رٹ دائر کی تھی کہ ’گوگل‘ کے پلیٹ فارم ’یوٹیوب‘ سے اسے 75 لاکھ روپیے بطور معاوضہ دلوائے جائیں۔

اس نے الزام عاید کیا تھا کہ وہ پولیس میں بھرتی کا امتحان یوٹیوب کی وجہ سے پاس نہ کرسکا کیونکہ یوٹیوب میں اشتہارات کے دوران جنسی عیاشی کے فحش مناظر بھی آتے ہیں اور وہ ان مناظر کو دیکھ کر پٹری سے اتر گیا اور امتحان کی بھرپور تیاری نہ کرسکا۔

جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس اے ایس اوکا کی بنچ نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ پٹیشن اب تک کی سب سے’ظالمانہ‘ پٹیشن ہے اور اس کے خلاف بھاری جرمانہ عاید کیا جانا چاہیے۔ عدالت نے عرضی گزار پر ایک لاکھ روپیہ کا جرمانہ عاید کردیا۔عرضی گزار نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میرا باپ مزدور ہے‘ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں‘ مجھے معاف کردیجئے۔بنچ نے کہا کہ جرمانہ کم کیا جاسکتا ہے لیکن معاف نہیں کیا جاسکتا۔

اس کے بعد اس پر 25 ہزار کا جرمانہ لگادیا گیا۔میں مسلم نوجوانوں کے تناظر میں اس مقدمہ کی سنگینی کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ دہلی کے اپنے ہی ایک رپورٹر کے ڈے پلان میں ایک خبر پر نظر پڑی۔ خبر کا عنوان یہ تھا : ذاکر نگرکے نوجوانوں کی ہڑدنگ سے اہل علاقہ پریشان۔

خبر میں بتایاگیا تھا کہ مسلم نوجوان رات کے دوتین بجے تک گلیوں میں ہڑدنگ مچاتے پھرتے ہیں اور اس کی وجہ سے گھر کی عورتیں‘ نمازی افراد‘ بوڑھے مریض اور اسکولی بچے رات کو سو نہیں پاتے۔ یہ خبر 10نومبر کے شمارہ میں شائع ہوئی ہے۔میں نصف شب میں اس مضمون کی کچھ سطور تحریر کرتے وقت اس خبر کی سنگینی کا جائزہ لے رہا تھا کہ صبح فجر کی نماز میں لوگوں نے بتایا کہ رات کو چند شرابی نوجوانوں نے جوگابائی ایکسٹینشن میں دسیوں راہ گیروں کو ’پیپر کٹر‘ سے زخمی کردیا۔

کسی کی ناک کاٹی اور کسی کا ہاتھ۔ یہ سب آخر کون کر رہا ہے؟ خالص مسلم بستیوں میں باہر کا تو کوئی گروہ نہیں آئے گا۔ یہ سب اسی علاقہ کے مسلم نوجوان ہیں۔میں ایک سفر سے لوٹا ہوں۔

کئی روز تک زعماء قوم سے ملاقاتیں رہیں۔ ہر طرف یہی بات وردِ زبان تھی کہ مسلم نوجوانوں میں ناقابل بیان بد اخلاقیاں در آئی ہیں۔ گزشتہ 5 دسمبر کو دورانِ سفر دیوبند کے ایک متحرک نوجوان عالم دین کا فون آیا۔ معلوم کر رہے تھے کہ کل 6 دسمبر ہے‘ ایک ریلی کا ارادہ ہے‘ اس میں کیا نیا عزم کیا جائے؟ میں نے کہا کہ اس ریلی میں سب سے پہلا عزم تو یہ کیجئے کہ جو مسجدیں میسّر ہیں انہیں نمازوں سے آباد کریں گے۔

دوسرا عزم یہ کیجیے کہ جھوٹ سے توبہ کریں گے اور تیسرا یہ کہ نوجوانوں کی دینی تربیت کے ذریعہ اسلام کی صحیح تصویر ان کے عمل سے پیش کریں گے۔۔ لکھنئو میں زعماء قوم کے ایک بڑے پروگرام میں‘ میں نے یہی بات اس طرح دوہرائی کہ 2014 میں آپ کے ووٹ کو بے اثر کیا گیا‘ 2019 میں آپ کے ووٹ کو بے وقعت کیا گیا۔

لہذا فی الحال سیاسی محاذ آرائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ مشکل سیاسی وقت کی شکل میں خالق کائنات نے یہ ایک عمدہ موقع عطا کیا ہے‘ اس موقع کو اپنی اصلاح کے لیے استعمال کیجئے۔ ہماری نوجوان نسلیں موبائل کے زہر کی معرفت ہر طرح کی مخربِ اخلاق عادتوں کا شکار ہوگئی ہیں۔ان کی اصلاح کی بظاہر کوئی موثر‘ سرگرم اور عملی مہم نظر نہیں آرہی ہے۔ کتابیں خوب لکھی جارہی ہیں۔

لیکن ان کتابوں کو نئی نسلیں پڑھ ہی نہیں رہی ہیں۔ گھروں سے اردو زبان اٹھتی جارہی ہے۔ والدین اور سر پرستوں کا کوئی رعب و دبدبہ نظر نہیں آرہا ہے۔ کیا اس صورت حال کے انجام کا مسلمانوں کو کچھ اندازہ نہیں ہے؟

ادھر بھی ایک نظر

دینی مدارس کا سروے

قائق کی لاشوں پر 

۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *