نور محمدی کی آمد اور برکتوں کا ظہور
نور محمدی کی آمد اور برکتوں کا ظہور
از قلم : محمد جنید رضا
جب آمنہ کے لال کی ولادت کا وقت قریب آیا تو عجیب عجیب واقعات کا ظہور ہوا۔ جو اس بات کی شہادت دے رہا تھا کہ اب اس ذات کی آمد کا وقت قریب ہو رہا ہے جس کے دم سے کفر کے ایوان میں زلزلے آجائیں گے۔ باطل کی کمر ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے گی۔
ورنہ ابرہا کے اتنے بڑے لشکر جرار سے مقابلہ کرنے کی ہمت اہل عرب میں نہیں تھی۔ یہ وہ نبوی برکتوں کا ہی صدقہ تھا، جو آن کی آن میں لاشوں کا ڈھیر بن گیا۔ بتوں کا سروں کے بل گرنا، اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ
بت شکن آیا یہ کہہ کر منہ کے بل بت گر پڑے
جھوم کر کہتا تھا کعبہ الصلاۃ والسلام
-
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- سپریم کورٹ کا امتحان
- باون گز کا قاتل
- کیا کانگریس کو کارپوریٹ کا ساتھ مل رہا ہے ؟
ماہِ ربیع الاول شریف کی آمد، اس کی بہاریں، اس کے تقاضے اور مسلمانوں کی ذمے داریاں
فارس کے مجوسیوں کی ایک ہزار سال کی آگ ایک لمحے میں بجھ گئی۔ کسری کے محلوں میں زلزلے آگئے۔ اور محل کے چودہ کنگورے زمین بوس ہوگئے۔ ہمدان اور قم کے درمیان چھ میل لمبے اور چھ میل چوڑے ایک عظیم بحیرہ ساوی کا سوکھ جانا، شام اور کوفی کے درمیان وادی سماوہ کی خشک ندی کا اچانک جاری ہو جانا۔
عرب کی برسوں پرانی قحط سالی، نبی کریم ﷺ کی آمد ہی کے طفیل یہ مصیبت دور ہوگئی۔ اور ہر طرف ہریالی چھا گئی اور خوش حالی کا دور دورہ ہو گیا۔ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بدن مبارک سے ایسا نور نکلا، جس سے بصرہ کے محل روشن ہوگئے۔
محدث ابو نعیم نے اپنی کتاب “دلائل النبوہ” میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رات نور نبوت حضرت عبداللہ کی پشت اقدس سے حضرت آمنہ کے بطن مقدس میں منتقل ہوا،
روئے زمین کے تمام چوپایوں خصوصا قریش کے جانوروں کو اللہ تعالی نے قوت گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبان فصیح اعلان کیا کہ وہ مقدس رسول شکم مادر میں جلوہ گر ہو گیا۔ جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے۔
اور جو سارا عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے مشرق کے جانوروں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی اسی طرح سمندروں اور دریاؤں کے جانوروں نے ایک دوسرے کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت ابو القاسم ﷺ کی ولادت باسعادت کا وقت قریب آگیا۔ (سیرت مصطفی ﷺ صفحہ49)
حضرت عبدالمطلب سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں شب ولادت کعبہ کے پاس تھا جب آدھی رات ہوئی تو میں نے دیکھا کہ کعبہ مقام ابراہیم کی طرف جھکا اور سجدہ کیا اور اس سے تکبیر کی آواز آئی “اللہ بلند و بالا ہے اللہ بلند و بالا ہے وہ رب ہے محمد مصطفی کا اب مجھے میرا رب بتوں کی پلیدی اور مشرکوں کی نجاست سے پاک فرمائے گا”۔ اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
جس کے سجدے کو محراب کعبہ جھکی ان بھووں کی لطافت پہ لاکھوں سلام حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے دیکھا کہ آپ ریشم کے سبز کپڑے میں لپٹے ہوئے اور اس کپڑے سے پانی ٹپک رہا ہے۔
اور کوئی منادی اعلان کر رہا ہے کہ واہ واہ کیا خوب محمد ﷺ کو تمام دنیا پر قبضہ دے دیا گیا اور کائنات عالم میں کوئی چیز باقی نہ رہی جو ان کے قبضہ اقتدار اور اطاعت سے باہر ہو۔ چہرے انور کو دیکھا تو چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ اور بدن سے پاکیزہ مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ پھر تین شخص نظر آئے۔
ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا، دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کا طشت، تیسرے کے ہاتھ میں چمکدار انگوٹھی۔ انگوٹھی کو سات مرتبہ دھو کر اس نے حضور ﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت لگادی۔
اٹھایا اور ایک لمحے کے بعد مجھے سپرد کردیا۔ (سیرت مصطفی ﷺ صفحہ50 ) حضور محمد مصطفی ﷺ کی پیدائش 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی۔
حضورعلیہ السلام پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ شدہ، خوشبؤوں میں بسے ہوے پیدا ہوئے۔اس وقت والد کہاں تھے جو بلاے جاتے وہ تو اس چاند کے چمکنے سے پہلے ہی رحلت فرما چکے تھے۔ آپ کے دادا جناب عبد المطلب حرم کعبہ میں عبادت میں مصروف تھے۔ جب اپنے پوتے کی پیدائش کی خبر سنی تو خوشی سے پھولے نہ سمائے آئے۔ اور
آکر اپنے پوتے کو سینے سے لگا لیا۔ پھر کعبے میں لے جاکر کر ان کی صحت و سلامتی کی خوب دعائیں کی۔ ثویبہ(ابو لہب کی باندھی) نے جب ابو لہب کو بھتیجے کی پیدائش کی خوشخبری سنائی، تو اس نے اشارے سے اپنی باندھی کو آزاد کردیا۔
ابو لہب کا انجام تو بہت برا ہوا۔ ایک دن خواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کیا حال ہے؟
تو اس نے بتایا، جب سے مرا ہوں، تب سے مصیبتوں میں گرفتار ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو اپنی انگلی کے ذریعہ پانی پی لیتا ہوں۔ جس سے ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔
ابو لہب جس نے صرف اپنے بھتیجے بچے کی خوشی میں باندی کو آزاد کیا نہ کہ نبی مان کر تو اس کو یہ صلہ ملا کہ ہر پیر کے دن اس کو پانی مل جاتا ہے۔
تو اس ایمان والے کے مرتبہ کا عالم کیا ہوگا جو نبی کریم ﷺ پر ایمان لا کر آپ کی پیدائش پر مسرت و شادمانی کا اظہار کرے اور اپنے گلی محلوں اور گھروں کو سجاتے ہیں۔
از قلم : محمد جنید رضا
اسلامک اسکالر، بریلی (یوپی)