قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہوتاہے

Spread the love

قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہوتاہے

سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد

قلم کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں ہے، دنیا میں جتنی بھی چیزیں پیداکی گئیں ہیں یہ سب کسی نہ کسی مقصد اور ضرورت کے تحت پیدا کی گئیں ہیں یہاں کوئی چیز بے مقصد اور بیکار پیدا نہیں کی گئیں،قلم بھی انھیں بامقصد اور اہم ضرورت کےلئے وجود میں لایا گیاہے،قلم اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے اوریہ حصول علم کا اہم ذریعہ بھی ہے

اسی لیے قرآن کریم میں کئی جگہ اللہ تعالی نے قلم کا ذکر فرمایا ہے اور اسکی قسم کھائی گئی ہے،اسلئے قلم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ قلم اللہ تعالی کی ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس کے بغیر دین کا قیام عمل میں آسکتاہے اور نہ ہی معاشرتی نظام درست ہوسکتاہے،قلم نہ صرف یہ کہ خود بادشاہ ہے بادشاہ گر بھی ہے

قلم کی بادشاہت تو یہ ہے کہ وہی بات لکھتاہے جو حق اور سچ ہے،اسکی گردن پر خون ناحق کا الزام نہیں ہوتا اور یہی قلم بعض اوقات غلط استعمال کی وجہ سے”باطل قلم”بھی ہوجاتاہے،اسے ناحق قلم بھی کہاجاتاہے،یہی باطل قلم جب اخبارات کے صفحات سیاہ کرتاہے تو اسکے ذریعے زرد صحافت وجود میں آتی ہے اور یہ اپنی سرخیوں سے آگ لگاتی ہے

حالاں کہ غیرجانب دارنہ صحافت سماج کا آئینہ ہوتاہے،لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہ بکے نہیں،ڈرے نہیں،انتہائی مضبوطی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے

میڈیا اور صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کہلاتاہے،آئیے ذرا جانتے ہیں قلم کی تاریخ کیاہے؟”قلم کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ تاریخ انسانی،بلکہ اس کا سراغ اس سے بھی پہلے ملتا ہے اس لیے کہ اول من خلق اللہ القلم یعنی خدا نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا،جفاالقلم جیسی روایات سے بھی قلم کی تاریخی حیثیت اور اس کی اولیت کا پتہ چلتا ہے

جہاں تک قلم کی اہمیت و فضیلت کی بات ہے تو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدائے پاک نے اپنی مبارک و عظیم کتاب میں چار اہم مقامات پر اس کا تذکرہ کیا ہے اور ‘اللہ ایسا ہے جس نے قلم کے ذریعے انسان کو علم سے آراستہ کیا’حصول علم کے خارجی ذرائع میں سب سے اہم ترین ذریعہ قلم ہے

اسی طرح علم کو تو اللہ کا نور کہا گیا ہے اور ذات حکیم و خبیر نے انسان کے لئے جس چیز کو آلہ علم بنایا اس کی اہمیت کا کیا ٹھکانہ اور یہی نہیں بلکہ خدائے علیم نے تو اپنی دائمی کتاب قران میں قلم نام کی ایک مکمل صورت نازل فرما کر قلم کو فضیلتوں کا تاج پہنا دیا ہے

قلم کے ساتھ ساتھ قرطاس اور سیاہی کا ذکر بھی ضروری ہے،اس لیے کہ بادشاہت، ملک،سرزمین اور ذرائع وسائل کے بغیر کیسے چل سکتے ہیں کاغذ و دوات کی بھی ایک تاریخ ہے

ابتدائی دور میں ریت پتھروں اور موم کی تختیوں پر نوکدار قلم سے کھود کر لکھنے کا کام ہوتا تھا خود عہد رسالت میں چیتھڑوں،ہڈیوں،پتوں اور چمڑوں پر لکھنے کا رواج تھا لیکن بعد کے زمانے نے ترقیات کی بڑی بڑی منازل طے کی،بطور خاص اسلامی عہد میں قلم کو بڑا عروج ملا،بڑی وسعتیں پیدا ہوئیں اور لکھائی کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے

عہد وسطی کے اوائل میں پرندوں کے پروں سے قلم کا کام لینے کا آغاز ہوا، قلم کی موجودہ شکل کی ابتدا رومن عہد ہی میں ہو چکی تھی لیکن اس کی عمومیت انیسویں صدی میں ہوئی،بڑے پیمانے پر قلم کا کارخانہ سن 1828 میں برمنگھم انگلینڈ میں قائم ہوا،تجارتی طور پر فانٹین پین کی شروعات 1880 میں ہوئی اور بال پین کا رواج 1944 سے عام ہوا “(آؤ قلم پکڑنا سیکھیں صفحہ 18)”مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن میں قلم کا جو تذکرہ کیا گیاہے

اس سے مراد عام قلم بھی ہو سکتا ہے،جس میں قلم تقدیر،فرشتوں اور انسانوں کے سارے قلم جن سے کچھ لکھا جاتاہے اس میں سب داخل ہیں اور خاص قلم تقدیر بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس قلم تقدیر کے متعلق حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے پہلے اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کیا اور اس کو حکم دیا کہ لکھ! قلم نے کہا کہ کیا لکھوں؟

تو حکم دیا کہ تقدیر الہی کو،چنانچہ قلم نے حکم کے مطابق ابد تک ہونے والے تمام واقعات اور حالات کو لکھ دیا (ترمذی) صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے تمام مخلوقات کی تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق سے 50 ہزار سال پہلے لکھ دیا تھا اور حضرت قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قلم اللہ تعالی کی ایک بڑی نعمت ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے

اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے پہلے ایک قلم،قلم تقدیر پیدا فرمایا جس نے تمام کائنات و مخلوقات کی تقدیریں لکھیں،پھر دوسرا قلم پیدا فرمایا جس سے زمین پر بسنے والے لکھتے ہیں اور لکھیں گے اس دوسرے قلم کا ذکر سورہ اقرا میں آیا ہے،آیت میں اگر قلم سے مراد قلم تقدیر لیا جائے جو سب سے پہلی مخلوق ہے تو اس کی عظمت اور تمام چیزوں پر ایک برتری ظاہر ہے

اس لیے اس کی قسم کھانا مناسب ہوا اور اگر قلم سے مراد عام قلم لئے جائیں جس میں قلم تقدیر اور فرشتوں کے اقلام کے علاوہ انسانوں کے قلم بھی داخل ہیں تو اس کی قسم اس لئے کھائی گئی کہ دنیا میں بڑے بڑے کام سب قلم ہی سے ہوتے ہیں ملکوں کی فتوحات میں تلوار سے زیادہ قلم کا مؤثر ہونا منقول و معروف ہے

عربی کے ایک شاعرنے اس مضمون کو اپنے ایک شعر میں اس طرح جمع کیا ہے،جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب قسم کھائیں بہادر لوگ کسی دن اپنی تلوار کی اور اس کو شمار کریں ان چیزوں میں جو انسان کو عزت و شرف بخشتی ہیں تو کافی ہے لکھنے والوں کا قلم ان کی عزت و برتری کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے کیوں کہ اللہ نے قسم کھائی ہے قلم کی”(معارف القرآن)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ”سب سے پہلے اللہ تعالی نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا ” لکھ “ اس نے کہا: کیا لکھوں؟ فرمایا ” تقدیر لکھو“ پس اس دن سے لے کر قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے،اس پر قلم جاری ہو گیا،طبرانی میں مرفوعاً مروی ہے کہ ”سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو اور مچھلی کو پیدا کیا،قلم نے دریافت کیا، کیا لکھوں؟

حکم ہوا، ہر وہ چیز جو قیامت تک ہونے والی ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی آیت کی تلاوت کی، پس نون سے مراد یہ مچھلی ہے اور قلم سے مراد یہ قلم ہے[طبرانی] ‏ابن عساکر کی حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا پھر نون یعنی دوات کو پھر قلم سے فرمایا: ” لکھ “ اس نے پوچھا: کیا؟ فرمایا ” جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے “ عمل، رزق، عمر، موت وغیرہ، پس قلم نے سب کچھ لکھ لیا،اس آیت میں یہی مراد ہے

پھر قلم پر مہر لگا دی اب وہ قیامت تک نہ چلے گا،ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے خبر دی گئی ہے کہ ”یہ نورانی قلم سو سال کی طولانی رکھتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «ن» سے مراد دوات ہے اور «قلم» سے مراد قلم ہے۔‏“ ‏حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی فرماتے ہیں۔ایک بہت ہی غریب مرفوع حدیث میں یہ مروی ہے جو ابن ابی حاتم میں ہے کہ اللہ نے «نون» کو پیدا کیا اور وہ دوات ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ نے «نون» یعنی دوات کو پیدا کیا اور قلم کو پیدا کیا

پھر فرمایا ” لکھ “ اس نے پوچھا: ”کیا لکھوں؟“ فرمایا: ” جو قیامت تک ہونے والا ہے “، اعمال خواہ نیک ہوں، خواہ بد، روزی خواہ حلال ہو، خواہ حرام، پھر یہ بھی کہ کون سی چیز دنیا میں کب آئے گی کس قدر رہے گی، کیسے نکلے گی، پھر اللہ تعالیٰ نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کئے،علماء نے لکھا ہے کہ قلم سے بظاہر مراد یہاں عام قلم ہے جس سے لکھا جاتا ہے جیسے اور جگہ فرمان عالیشان ہے «‏الَّذِيْ عَلَّمَ بالْقَلَمِ» یعنی ”اس اللہ نے قلم سے لکھنا سکھایا

پس اس کی قسم کھا کر اس بات پر آگاہی کی جاتی ہے کہ مخلوق پر میری ایک نعمت یہ بھی ہے کہ میں نے انہیں لکھنا سکھایا جس سے علوم تک ان کی رسائی ہو سکے،اس لیے اس کے بعد فرمایا «ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُوْنَ» ‏[68- القلم:1] ‏ یعنی ”اس چیز کی قسم جو لکھتے ہیں “اور مفسرین کہتے ہیں ”اس سے مراد وہ قلم ہے جو قدرتی طور پر چلا اور تقدیریں لکھیں آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے“اور اس قول کی دلیل میں یہ جماعت وہ حدیثیں وارد کرتی ہے جو قلم کے ذکر میں مروی ہیں۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر یعنی قرآن لکھا گیا۔

گذشتہ ماہ اخبار میں ایک خبر پر نظر پڑی جسکا متن کچھ اسطرح تھا کہ”خبروں اور بیانات کی اشاعت،میڈیا انتہائی احتیاط سے کام لے،انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا کے خلاف ہتک عزت کی سماعت عدالت عظمی کا تبصرہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ میڈیا میں اہم عہدوں پر کام کرنے والے افراد کو چاہیے کہ وہ کسی بھی بیان

خبر،رائے یا مضامین کی اشاعت سے پہلے بے حد احتیاط اور ذمہ داری سے کام لیں اور کہا کہ آزادی اظہار کا حق انتہائی اہم ہے،جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس آر مہادیون پر مشتمل بنچ نے اس بات کو دہرایا کہ رائے عامہ ہموار کرنے میں میڈیا کی طاقت انتہائی اہم ہے اور صحافت کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ عوام کے جذبات پر اثر انداز ہو اور تصورات میں تیزی کے ساتھ ترمیم لائے

بنچ نے انگریزی روزنامہ ٹائمز اف انڈیا کے ایڈیٹوریل ڈائریکٹر اور دیگر صحافیوں کے خلاف ایک ہتک عزت کیس کو کلعدم کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا،جن پر الزام تھا کہ انہوں نے بعض پینٹنگس کی صداقت کے بارے میں توہین آمیز مواد شائع کیا تھا، ان پینٹنگس کا بڈ اینڈ ہیمر کمپنی کی جانب سے نیلام کیا جانے والا تھا،بنچ نے کہا کہ ہم اس بات پر زور دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ دستور ہند کی دفعہ

(a)(1) 19 کے تحت آزادی اظہار و تقریر کا حق انتہائی اہم ہے،اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو دہرایا جاتا ہے کہ میڈیا میں کام کرنے والوں خاص طور پر کلیدی عہدوں پر فائض افراد جیسے مصنفین وغیرہ کو کوئی بھی بیان،خبر یا تبصرہ شائع کرنے سے پہلے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے،عدالت عظمی نے اپنے 18 فروری کے فیصلے میں یہ بات کہی،اور انگریزی مصنف بلور لائٹن کا قول دہرایا کہ”قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے”عدالت نے کہا کہ اس کی وسیع تر رسائی کے سبب ایک واحد مضمون یا رپورٹ لاکھوں افراد کے عقائد اور فیصلوں کو متاثر کرسکتی ہے،اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ متعلقہ افراد کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے جس کے دور رس اور پائیدار اثرات ہوسکتے ہیں،یہ چیز میڈیا رپورٹنگ کی درستگی اور منصفانہ ہونے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے،خاص طور پر اس وقت جب کسی شخص یا ادارے کی دیانتداری کا معاملہ ہو،ان پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے خبروں کی اشاعت عوام کے مفاد اور بہتری کے لئے ہونی چاہیے”ملک کے موجودہ حالات میں عدالت عظمی کا یہ تبصرہ بہت اہم ہے

آج ملک کا مین اسٹیریم میڈیا جس طریقے سے زرد صحافت کا ثبوت پیش کر رہا ہے اوراپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیارکرکے سماجی،عوامی،ملی اور قومی مسائل کو نظر انداز کررہاہے اور ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہا ہے،غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے ملک کو گمراہ کررہاہے یہ بہت افسوسناک ہے

اس طرح کے پرآشوب حالات میں عدالت عظمی کے اس تبصرے کی اہمیت مزید دوبالا ہوجاتی ہے،ادھر کچھ دنوں سے تلنگانہ حکومت اردو کے غیر جانب دار اخبار روزنامہ منصف کے ساتھ جورویہ اختیار کررہی ہے یہ بےحد افسوس ناک اور شرم ناک ہے

ایسا لگتاہے کہ حکومت خوف زدہ ہوچکی ہے،وہ حقیقت کا سامنا کرنے کےلئے تیار نہیں ہے،حق گوئی اور بے باکی کی سزا کے طور پر صحافت کی کمرتوڑنا اور اسے کچلنا حیرت انگیز ہے،حکومت کو اسطرح کے اقدام سے باز رہناچاہئے،قلم اور صحافت کو غلام بنانے کی کوشش یقینا حکومت کےلئے نقصاندہ ہے

اس کی بھر پورمذمت ہونی چاہئے اور قلم کی آزادی بہرصورت برقرار رہے اسکی سنجیدہ کوشش ہرفرد کی ذمہ داری ہے،کیونکہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہوتاہے۔

(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہی*

sarfarazahmedqasmi@gmail.com

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *