نفرت کے فروغ میں بالی وڈ کا کردار

Spread the love

نفرت کے فروغ میں بالی وڈ کا کردار

عادل فراز

ہندوستان میں نفرت کو فروغ دینے میں بالی وڈ کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا

۔آج پسماندہ طبقات اور مزعومہ چھوٹی ذاتوں میں جو ذہنی انتشار،سماجی خلفشار اور باہم نفرت موجود ہے اس کی ذمہ داری بالی وڈ پر بھی عائد ہوتی ہے ۔فلموں کوسماج کا آئینہ کہاجاتاہے

۔فلمیں سماج کی تلخ سچائیوں اور مخفی حقائق کو طشت از بام کرنے کا کام کرتی ہیں

۔فلموں نے ہمیشہ ہندوستان کے سیکولر کردار کو پیش کیا اور سماجی ہم آہنگی کا پیغام دیا ۔’’مدرانڈیا ‘‘

جیسی فلم ہندوستان میں ہی بن سکتی تھی ،کیونکہ اس فلم میںجس سماج کی عکاسی کی گئی ہے وہ ہندوستان کے باہر موجود نہیں تھا ۔اس عہد میں متعدد ایسے فلم ساز تھے جو سماجی مسائل کو فلموں کا موضوع قراردیتےتھے اور ان فلموں کو قومی و بین الاقوامی سطح پر سراہا بھی جاتا تھا ۔یہ دور تاریخی فلموں کا سنہری دور تھا۔مغل اعظم ،شاہ جہاں ، ممتاز محل،نور جہاں،سہراب مودی کی پکار،تان سین، جیسی شاہکار فلمیں بنائی گئیں جن کے ذریعہ کبھی نفرت اور تقسیم کو بڑھاوا نہیں

دیاگیا ۔لیکن 90 کی دہائی کے بعد ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے بدلنا شروع ہوا۔اسی کے ساتھ فلمی دنیا کی سیاست اور فلموں کےموضوعات میں بھی برقی تبدیلی رونما ہوئی

۔اس دور میں فلموں کے منفی کرداروں میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا،جو رفتہ رفتہ دہشت گردی کی طرف بڑھتا گیا ۔90 کی دہائی کے بعد منفی کرداروں میں مسلمانوں کو مخصوص حلیہ میں دکھایاگیا اور ان کرداروں کے نام ایسے رکھے گئے جنہیں

اپنا ہیرو یا آئیڈیل مانتے تھے ۔اس طرح نفرت کا نیا کھیل شروع ہوا جس کے پس پردہ ایک منظم سازش موجود تھی ۔2000 کے بعد آنے والی فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد کے طورپر دکھایا جانے لگااور ان کے خلاف نیا بیانیہ وجود میں آیا ۔مسلمانوں کو دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا ۔ایک اچھا مسلمان اور دوسرا برا مسلمان ۔اچھا مسلمان وہ ہے ج

و انتظامیہ اور فوج کے لئے کام کرتاہو۔ہندو اور مسلمان اتحاد کے فروغ کے لئے اپنی جان کی قربانی دیدے ۔برے مسلمانوں کے خلاف علیٰ الاعلان محاذ آرائی کرے اور اپنی قوم کو مشکوک قرار دے ۔برا مسلمان اسے کہاگیا

جو انتہاپسندی کی طرف رجحان رکھتا ہو ۔جو ہندومسلمان کے اتحاد کا قائل نہ ہو ۔جو اپنی پولیس اور فوج کی حمایت کے بجائے پاکستان یا کسی دوسرے ملک کی حمایت کرتاہو۔ایسی فلموں کی ایک لمبی فہرست ہے جس کےذریعہ اچھے

اور برے مسلمان کا بیانیہ تیار کیا گیا ۔یہ دور بالی وڈ میں پروپیگنڈہ فلموں کا تھا ،اسکے باوجود سیکولر اور روشن دماغ فلم سازوں نے اس بیانیہ کو کمزور کرنے کے لئے متعدد فلمیں بنائیں ،جس میں وشال شیکھر کی ’’حیدر‘‘ اور دیگر فلمیں شامل ہیں ۔

بی جے پی کے برسراقتدار آنے کے بعد یرقانی تنظیمیں بے لگام ہوگئیں ۔انہوں نے سماج کو دوحصوں میں تقسیم کرنے

اور نفرت کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کی ۔اس کے لیے بالی وڈ کا بھی استعمال کیا گیا ۔تاریخی حقائق میں تبدلیں کی گئی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوادینے کے لیے فلم سازوں کو آمادہ کیا گیا

۔یہ وہ دور تھاکہ جب اسرائیلی ایجنسیاں ہندوستانی فلم سازوں کےساتھ اشتراک قائم کررہی تھیں ۔اس اشتراک کے نتیجے میں ’’

مائی نیم از خان ‘‘ اور ’’ قربان‘‘ جیسی فلمیں منصہ شہود پر آئیں ،جس میں مسلمانوں کو دہشت گردی سے نسبت دی گئی ۔یرقانی تنظیموں نے فلموں کے موضوعات پر اثر انداز ہونا شروع کیا توہر دوسری فلم وطن پرستی، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے موضوع پر بننے لگی

 

اس کے ساتھ انہوں نے اپنے فلم سازوں کو بھی اس میدان میں اتارا تاکہ منظم طریقے پر مسلمانوں کی کردار کشی کی جاسکے ۔ان فلموں میں مسلمانوں کو منفی کرداروں میں دکھایا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ عام

طورپر ہندوستان میں دو طرح کے مسلمان ہیں ۔ایک ملک کے وفادار اور دوسرے ملک کے دشمن ۔دوسر بیانیہ یہ ترتیب دیا گیاکہ پوری دنیا میں جو دہشت گردی پنپ رہی ہے اس کی تنہا ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔جب کہ یہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی جڑیں کہاں ہیں اور کون لوگ اس کو بنام اسلام فروغ دے رہے ہیں ،لیکن حقائق کی پردہ پوشی کی جاتی رہی اور مسلمانوں کو ’’ویلین ‘‘ کے روپ میں پیش کیا جاتا رہا ۔

یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے ۔فلم ’’ کشمیر فائلز ‘‘ اور موجودہ فلم ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں ۔آئند ہ بھی یہ سلسلہ تھمے گا نہیں کیونکہ نفرت کی فیکٹرای ابھی بند نہیں ہوئی ہے ۔

فلم ’’دی کیرالا اسٹوری‘‘ ہندولڑکیوں کے جبری تبدیل مذہب اور پھر ان لڑکیوں کو دہشت گرد تنظیموں میں بھرتی کروانے کے موضوع پر بنی ہے ۔ظاہر ہے یہ ایک پروپیگنڈہ فلم ہے لیکن ایسی فلموں کو سینسر بورڈ پاس کیسے کردیتاہے ،یہ بڑا سوال ہے

؟تاریخی لحاظ سے ہندوستان میں جبری تبدیل مذہب کے شواہد موجود نہیں ہیں ۔معاصر عہد میں بھی تبدیل مذہب پرکوئی مستند دلیل نہیں ہے ۔’لو جہاد‘ اور نہ جانے کتنے ایسے نعرے ہیں جن

کے ذریعہ تبدیل مذہب کے فرضی بیانیہ کو حقیقی ثابت کیا گیا ۔جبکہ ہندوستانی ایجنسیاں اس سلسلے میں خاموش ہیں ۔یہ تمام تر پروپیگنڈے حکومتی سطح پر ہوتے ہیں جن کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہوتی ۔اگر کیرالا سے ہندولڑکیوں کاجبری تبدیل مذہب کرواکے باہر بھیجاجارہا تھا تو پھر ہماری ایجنسیاں کیا کررہی تھیں ؟

یہ جھوٹ ملک کی سرکار اور ہماری ایجنسیوں کی کمزوری کو ظاہر کرتاہے ،جس پر فوری کاروائی ہونی چاہیے تھی ،لیکن جس فلم کی تائید وزیر اعظم کررہے ہوں اس کے خلاف کاروائی کی جرأت کسے ہوسکتی ہے

؟دوسری فلم ’’ٹیپو سلطان ‘‘ کی زندگی پر مبنی ہے ،جس میں اسے مندروں کو منہدم کرنے والا ،ہندوئوں کو زبردستی گائے کا گوشت کھلانے والا اور ہندوئوں کو جبراً مسلمان بنانے والا دکھایا گیاہے

۔یہ تمام الزامات تاریخی حقائق سے عاری ہیںلیکن جس ملک میں تاریخ امت شاہ کا دلچسپ موضوع ہو،وہاں تاریخی حقائق کی پرواہ کسے ہوسکتی ہے ؟

وزیر اعظم نریندر مودی ’’دی کیرالااسٹوری‘‘ کی حمایت کرتے ہیں تو ظاہرہوتاہے کہ ایسی فلموں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے

۔انہوں نے کرناٹک میں ایک انتخابی ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا’’کہ اس فلم کے ذریعہ دہشت گردی کی بدصورت سچائی کو ظاہر کیاگیاہے اور یہ دہشت گردی کے منصوبے کو بے نقاب کرتی ہے

‘ ۔وزیر اعظم جو’’ سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘کا دعویٰ کرتے ہیں اس فلم کی حمایت کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہدف تنقید قرار دیتے ہیں ۔

بلکہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گرد ی کا حامی قراردیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں ’’کانگریس دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے جو فلم پر پابندی لگانے کی کوشش کررہی ہے ۔ووٹ بینک کے خوف سے کانگریس دہشت گردی کے خلاف ایک لفظ بولنے کی ہمت نہیں

۔ووٹ بینک کی اس سیاست کی وجہ سے کانگریس نے دہشت گردی کو فروغ دیا اور اس کی پشت پناہی کی‘‘۔وزیر اعظم کا یہ بیان کانگریس کی پالیسی پر تنقید نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے؟ کیا وہ مسلمانوں کو کانگریس کا ووٹ بینک قرار نہیں دے رہے ہیں ؟

جب کہ 1947 کے بعد مسلمان کسی ایک جماعت سے وابستہ نہیں رہا ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کانگریس یا ملک کی کوئی تنظیم ’

کیرالا اسٹوری‘ پر پابندی عائد کرنے کے لئے عدالت سے رجوع کرتی ہے ،تو اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہےکہ وہ دہشت گردی کی حمایت کررہے ہیں

۔اگر ’کیرالا اسٹوری‘ حقائق پر مبنی ہے تو وزیر اعظم کو فلم سے متعلق حقائق اور شواہد کو میڈیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے ۔

مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ وزیر اعظم نے آج تک ایک پریس کانفرنس منعقدنہیں کی ،جبکہ میڈیاہمیشہ ان کےساتھ رہاہے ۔اسی طرح وزیر اعظم کو سرکاری سطح پر ٹیپو سلطان کے متعلق بھی تاریخی شواہد کو عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے ۔

آیا ٹیپو سلطان نے مندر منہدم کئے ؟ ہندوئوں کا جبری تبدیل مذہب کروایا؟ اور کیا وہ ہندووئوں کو جبری گائے کا گوشت کھلواتا تھا؟ اس سلسلے میں فلم سازوں نے کون سے تاریخی دستاویزوں کا مطالعہ کیاہے ،یہ فلم ساز خود بیان کریں گے یا اس پر بھی وزیر اعظم بیان دیں گے؟

وزیراعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ’’ کشمیر فائلز‘‘ کے بعد ملک میں کتنے بدنما واقعات رونما ہوئے ،یہی صورتحال ’کیرالا اسٹوری‘ کی ریلیز کےبعد وقوقع پذیر ہوسکتی ہے ۔اس لئے ووٹ بینک کی سیاست کے لئے نفرت کو فروغ نہ دیاجائے ۔

جس طرح وزیر اعظم کانگریس پر ووٹ بینک کی سیاست کا الزام عائد کررہے ہیں ،وہ بھی اس الزام سے مبرّا نہیں ہیں ۔اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے ملک کو نفرت کی بھٹّی میں جھونکنا ملک کے مستقبل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔اس لئے وزیر اعظم کو ایسے بیانات سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *