سفرِ زندگی

Spread the love

سفرِ زندگی

تسنیم مزمل شیخ (اورنگ آباد)

’’خالہ !کیا ہوا ، ارے بولونا خالہ کیا ہوا ، آج صبح کھانے کے ٹیبل پر بھی خاموش تھے آپ بہت ، کیوں اداس ہیں؟ خالہ! بہو نے کچھ بولا کیا آپ کی ؟‘‘
زینب نے سوالوں کی بارش کردی خالہ کو اداس دیکھ کر۔ خالہ کے لب پر ہلکی سی مسکان آئی اور کہا کہ :
’’ایسی کوئی بات نہیں۔‘‘
بہترین 3اسٹار ہوٹل کی لوبی میں مخملی صوفوں پر یہ چاروں بیٹھے تھے۔ زینب اپنی کرسی سے اٹھ کر خالہ کے بازو آ بیٹھی اور ان کا ہاتھ پکڑ کو پوچھنے لگی :

’’بولونا خالہ کیوں اداس ہیں؟ کیا میں آپ کی بیٹی جیسی نہیں ہوں؟ ‘‘ خالہ نے بڑے شفقت سے زینب کا گال تھپتھپایا اور کہا :

’’بالکل ہو۔‘‘
’’پھر بولونہ خالہ ہوا کیا؟ فجر کی نماز کے بعد حرم سے واپسی پر بھی آپ خاموش تھی۔ یہ شہر سکون کا ہے خالہ ، اداس ہونے کا نہیں۔ یہ ہمارے نبیؐ کا شہر ہے مدینہ منورہ ۔ دل کا حال نبیؐ کو سناؤ ، آپ کو اچھا لگے گا۔‘‘
خالہ کی آنکھوں میں ہلکے سے آنسو چھلکنے لگے۔ کہا :
’’بیٹا وہی کر کے آئی ہوں علی الصبح ۔ ‘‘ پھر ایک لمبی سانس لے کر خالہ نے کہا :

’’آج اللہ نے الحمدللہ بہت دن بعد سکون دیا ہے اور یہ پاک جگہوں کی زیارت نصیب کی ہے اور الحمدللہ نصف حج کا شرف حاصل ہوا ہے۔‘‘

گلناز خالہ اور شیرین خالہ نے بے ساختہ ’’الحمد اللہ ‘‘کہا۔ پھر دھیرے دھیرے خالہ نے ان کی بات بتانی شروع کی :
’’زندگی کی دھوپ میں اکیلے دو بچوں کے ساتھ سفر یاد آگیا۔ بیٹا ! جس میں اکیلے پن کے کافی چھالے پڑے پیروں میں تو کبھی اپنوں کے رویوں کے کانٹے چبھے۔‘‘

’’کیا ہوا خالہ !‘‘
’’بیٹا! تمہارے خالو شادی کے سات سال بعد ہی اللہ کو پیارے ہوگئے اور ندا اور مصطفی کو میں نے تب سے ماں اور باپ بن کے پالا۔ تمہارے خالو کا انتقال ہوتے ہی ہماری ساس نے مجھے گھر سے نکال دیا تھا۔ میرا میکہ بھی نہیں تھا۔ امی ابو میرے بچپن میں فوت ہوگئے تھے اور میری خالہ کی اتنی استطاعت نہیں تھی کہ ان کے پاس واپس جاتی سہارے کے لیے۔‘‘

’’پھر کیا کئے خالہ آپ نے۔‘‘ زینب نے بڑی تشویش سے پوچھا ۔ خالہ نے ایک لمبی سانس لے کر کہا :
’’میں شولاپور سے پونہ چلی گئی تھی جب مصطفی چھ سال اور ندا چار سال کی تھی۔ پونہ میں میرے ماموں رہتے تھے۔ ان کی معاشی حالت بہت اچھی تھی۔ سوچا کہ وہ مجھے سہارا دے دیں گے لیکن انھوں نے ایک کمرہ کرایہ پر دلوایا اور مہینے دو مہینے کا کرایہ اور کرانہ بھر کے چلے گئے۔

میں صرف بارہویں جماعت تک پڑھی ہوئی ہوں ، اتنی کم تعلیم پر نوکری ملنا مشکل تھی۔ اس لئے سوچا کہ کچھ کام کرلوں۔ لیکن لوگوں کے گھر کا کام کرنا میری غیرت گوارا نہیں کرتی تھی۔ پھر بچوں کو دیکھا، دعا کی اور ایک خیال آیا کہ اگر میں کام پر جاؤں گی بھی تو بچوں کو کون دیکھے گا۔ یکایک میرے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا کہ یہ تکلیف تو سب کام کرنے والی عورتوں کو ہوتی ہوگی۔

پھر سوچا کہ میں یہ کرسکتی ہوں، اپنے بچوں کے پاس بھی رہوں گی۔ پھر میں نے ایک بچوں کا “day care centre” کھول دیا ، پہلے دو بچے آئے ، پھر بڑھتے بڑھتے پونہ کا نمبر ون ڈے کیئر سینٹر بن گیا۔ جس سے میں نے ایک دو کمروں کا مکان لیا، اپنے بچوں کو تعلیم دی اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور الحمدللہ ! اللہ نے دونوں کو بہت اچھی زندگی کے ساتھی دیئے۔ اب ماشاء اللہ مصطفی سافٹ انجینئر ہے ایک یوایس کمپنی میں اور بیٹی ندا ڈاکٹر ہے۔ اس کا اپنا کلینک ہے۔ پونہ میں کونڈا میں ماشاء اللہ دونوں کو ایک ایک بیٹا ہے۔

خوش ہیں۔ مصطفی مجھے یہاں لے کر آیا ہے عمرہ کرنے۔ الحمدللہ خوش ہوں بہت اور اللہ کا شکر بھی کرتی ہوں۔ اللہ نے آزمائشیں دی تو اس میں سے نکالا بھی۔ لیکن آج اچانک ایسا لگا کہ زندگی دو پل کی ہے اور وہ سارے اچھے اور برے پل اور زندگی کی مشقت یاد آگئی تو آنکھیں نم ہوگئی۔ کبھی سوچا نہیں تھاکہ اتنی خوش قسمت ہوں کہ یہاں پہنچوں گی حضورؐ کے دربار میں ،الحمدللہ ‘‘ کہہ کر خالہ کی آنکھیں بھیگ گئی۔

زینب اپنی جگہ سے اٹھ کر خالہ کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ان کو تسلی دینے لگی۔
’’خالہ ! اللہ نے آپ کو بہت بڑے انعام سے نوازا ہے۔ دیکھئے نہ اپنے عمرے کے گروپ میں ماشاء اللہ ۴۵ لوگ ہیں جس میں ۲۵؍عورتیں ہیں۔ الحمدللہ اور ماشاء اللہ بہت بہادر عورتیں ہیں جو جانتی ہیں کہ حالات سے کیسے لڑنا ہے اور اپنی زندگی کیسے کامیاب کرنا ہے۔‘‘ اچانک گلناز خالہ بھی رو پڑی اور کہنے لگی :

’’بیٹا! یہ تو کہانی گھر گھر کی ہے۔ میںنے بھی بچپن میں اپنے ماں باپ کھو دیئے تھے۔ دادی نے بہت مشکلوں سے بڑا کیا اور الحمدللہ شادی ہوئی ، میرے ۵ بچے ہوئے۔ بچے بڑے ہوئے ۔ کاروبار کے سلسلے میں تمہارے خالو اکثر دوسرے شہروں میں جاتے تھے۔ ایک بار ممبئی گئے اور وہاں ایک لڑکی پسند آگئی ،انھوں نے اُس لڑکی سے شادی کرلی اور مجھے ایک خط لکھا۔

میں اپنے دونوں بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھ رہتی تھی ، بیٹوں کی شادی ہوچکی تھی۔ خط جب ملا تو میں نے خط پڑھا اور اپنے پاکٹ میں رکھ لیا اور اپنے بڑے بیٹے سے کہا وہ میرے ابا اور تمہارے نانا نے جو پلاٹ مجھے دیئے ہیں اُس پر ایک ٹین کا گھر بنادو۔ بیٹے کی اتنی زیادہ آمدنی نہیں تھی ، پھر بھی وہ روز دونوں مل کر گھر کا تھوڑا سامان لے آتے اور دھیرے دھیرے وہاں ایک کمرہ اور ضرورت خانہ بنا دیئے۔ دیکھتے دیکھتے چار مہینے گذر گئے اور میںنے اپنا سامان لیا اور وہاں چلی گئی۔ دونوں بیٹوں نے بہت روکا۔ لیکن میں رکی نہیں۔ پھر دوسرے دن میرا بڑا بیٹا گھر آکر رونے لگا :

’’اماں کیوں یہاں آگئے ، ہم سے کیا غلطی ہوگئی، اماں ہماری بیبیوں سے کوئی غلطی ہوئی کیا؟ ‘‘
میں نے ’’نہ‘‘ میں سر ہلایا اور ٹین کے چھت میں سے ایک کاغذ نکالا اور ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ کھول کے جب پڑھنے لگا تو مجھے دیکھتا ہی رہ گیا۔
’’اس خط میں کیاتھا خالہ۔‘‘ اچانک زینب نے سوال کیا۔

خالہ نے کہا : ’’بیٹا! اُس خط میں میرے شوہر کا بھیجا ہوا طلاق نامہ تھا۔ اور ساتھ ہی کہے تھے کہ عدت کے دن ختم ہوتے ہی میرا گھر چھوڑ کر چلی جانا۔‘‘
’’خالہ پھر آپ کا گھر کیسے چلتا ہے؟‘‘
’’بیٹا! لوگ مدد کرتے ہیں۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ میرا کوئی نہیں ہے اورمیرے ساتھ اِس عمر میں ایسا ہوا تو گاؤں کے سبھی لوگ مدد کرتے ہیں۔ کوئی کرانہ دے جاتا ہے، کوئی کپڑا اور کوئی ضرورت کی چیزیں گھر پر لاکر دیتے ہیں۔‘‘

’’خالہ! پھر آپ نے یہاں آنا کے لئے کیسے manage کیا۔ مطلب یہاں آپ کو کس نے بھیجا ہے۔‘‘ زینب نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
گلناز خالہ مسکرائی اور کہنے لگی : ’’میرے اللہ نے۔ ہمارے محلے میں مسجد تعمیر ہورہی تھی جس میں بہت زیادہ پیسہ جمع ہوگیا، بچا ہوا پیسہ لوگوں نے میرے عمرے کے لئے بھردیا اور مجھے یہاں بھیجا۔ ان کو میں زیادہ مستحق لگی۔‘‘

’’ اماں! آپ کے بیٹے نہیں آتے اور بیٹیاں ۔‘‘
’’آتے ہیں ،سبھی ملتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ‘‘
’’آپ ان سے پیسے یا کوئی بات کا مطالبہ نہیں کرتی؟‘‘ زینب نے پوچھا :
’’نہیں۔ وہ دیتے بھی ہیں تو میں نہیں لیتی ، کیونکہ خط میں لکھا تھا میرے بچوں سے قطع تعلق کرلینا۔‘‘
’’آپ کے بچوں کو غصہ نہیں آیا؟ یہ عمر میں خالو نے ایسا کئے۔‘‘

’’آیا۔ میرے بیٹوں نے برا بھلا کہا لیکن میں نے منع کردیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ بات کریں گے ، میں نے کہا یہ ان کی زندگی ہے اور وہ باپ ہیں تمہارے ، عزت کرو ۔ میرا معاملہ ہے مجھے معلوم ہے کیا کرنا ہے ، تم اپنی زندگی میں خوش رہو۔‘‘
’’خالہ! اللہ آپ کے لیے آسانیاں کرے۔‘‘

’’ہاں بیٹا! میں نے اپنی بیٹیوں سے کہا، وہ بھی بہت رو رہی تھیں آنے کے وقت، تو میں نے کہا کہ بیٹا میرا اللہ نگہبان ہے، فکر نہیں کرو اور تم دیکھنا میرے جنازے کو اٹھانے اللہ فرشتے بھیجیں گے۔ ‘‘
’’ارے خالہ آپ کچھ بھی بولتے ہو، اللہ اچھا رکھے آپ کو۔‘‘ جھٹ زینب بول پڑی اور حسینہ خالہ بھی بولے :
’’بہن صبر رکھو اللہ ہے ۔‘‘ اور سبھی خاموش ہوگئے۔


زینب نے کہا : ’’چلئے نا خالہ ہم حرم چلتے ہیں، عصر کا وقت بھی ہوگیا ہے۔‘‘ اور سبھی حرم کے لیے نکل گئے۔ عصر کی نماز ختم ہوئی لیکن گلناز خالہ نے سجدے سے سرہی نہیں اٹھایا۔ پہلے سبھی کو لگا دعا کررہی ہیں ، جب پندرہ منٹ ہوگئے تو حسینہ خالہ نے دھکا دیا ، دیکھا تو گلناز خالہ کی روح پرواز کرچکی تھی اور چہرہ نور سے چمک رہا تھا، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ۔ زینب نے دیکھا تو ’’خالہ خالہ‘‘ کہہ کر زور سے آواز دی اور رونے لگی۔

لوگ جمع ہوگئے۔ پھر مسجد نبوی ﷺ کا ایمرجنسی اسٹاف آیا اور انھوں نے خالہ کو لے گئے ، ان کے ساتھ گروپ ذمہ دار بھی گئے اور خالہ عشاء میں جنت البقیٰ پہنچ گئی۔ رات میں جب زینب سونے کی کوشش کرنے لگی تو سب کے سفرِزندگی کا ایک پکچر جیسا گھومنے لگا اور گلناز خالہ کی وہ بات یاد آگئی :
’’بیٹا! زندگی کا سفر ہے سمجھو تو آسان ، بس توکل اللہ ہونا چاہئے تو سفر زندگی سہل ہے۔‘‘

زینب سوچنے لگی ان کا توکل ہی تھا جو انھیں ان کی منزل تک پہنچا دیا بناکسی سہارے کے۔ وہ سوچنے لگی کتنی بہادر خواتین ہیں جو بناکسی شکوے کے خودداری سے زندگی گذار گئی اور ہم چھوٹی سی بات کے لئے اللہ سے شکایت کرتے ہیں۔ وہ سبھی کا سفرِزندگی سوچتے سوچتے کب سوگئی پتہ نہیں چلا۔

One thought on “سفرِ زندگی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *