سماج وادیوں اور سوشلسٹوں کے کندھے پر بیٹھ کر سنگھ اقتدار تک پہنچی ہے
سماج وادیوں اور سوشلسٹوں کے کندھے پر بیٹھ کر سنگھ اقتدار تک پہنچی ہے
از : مشرف شمسی
بھارت کی سیکولر سیاست میں لالو پرساد یادو کا مقام ہمیشہ اونچا رہے گا ۔
لالو یادو بھلے ہی چارہ گھوٹالہ میں جیل کی سزا ہو چکی ہے لیکن اُنہوں نے پوری زندگی فرقہ پرست طاقتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔ ورنہ ملک کی سوشلسٹ اور سماجوادی طاقتیں ہی بی جے پی جیسی فرقہ پرست طاقتوں کو کندھوں پر بیٹھا کر اقتدار تک پہنچانے کا کام کیا ہے۔
گجرات جو ہندوتوا کی لیباٹری مانی جاتی ہے کبھی وہاں سماجوادی چمن بھائی پٹیل کی حکومت ہوا کرتی تھی لیکن جنتا دل کی وہ حکومت کانگریس کی مخالفت میں پوری کی پوری بی جے پی میں سما گئی اور بی جے پی کو مضبوط بنانے کا کام کیا ۔ جس کا نتیجہ ہے کہ آج ستائیس سال سے کانگریس گجرات میں واپس اقتدار میں نہیں آئی ہے ۔
کرناٹک جسے جنوب بھارت کا دروازہ کہا جاتا ہے سوشلسٹ اور سماجوادی رام کرشن ھیگڑے نے بی جے پی کا ساتھ لیا اور بی جے پی ہیگڑے کے کندھے پر بیٹھ کر کرناٹک میں پیڑ رکھنے میں کامیاب ہوئی اور آج کی تاریخ میں بی جے پی کرناٹک میں حکومت کر رہی ہے۔
ہریانہ کی بات کریں تو سماجوادی دیوی لال کے خاندان نے بی جے پی کو ریاست میں پیڑ رکھنے کا موقع دیا اور آج بھی بی جے پی اُنہیں کے بدولت ہریانہ میں حکومت میں ہے۔
بہار میں نتیش کمار ضرور اب لالو پرساد یادو کی پارٹی کی حمایت سے وزیر اعلی بنے ہیں لیکن بہار میں بی جے پی کو بڑا کرنے میں یقیناً سماجوادی نتیش کمار کا کردار اہم رہا ہے۔
نتیش کمار لالو یادو کی مخالفت میں بی جے پی سے اتحاد کیا اور آج نتیش کمار کی پارٹی بی جے پی کے ساتھ چناؤ لڑنے کے باوجود بی جے پی سے تقریباً نصف سیٹ ہی حاصل کر سکی۔
ملائم سنگھ یادو نے باضابطہ بی جے پی سے کوئی اتحاد نہیں کیا لیکن ملائم سنگھ کے بعد اکھلیش یادو نے بی جے پی یا فرقہ پرست طاقتوں سے لڑائی میں سنجیدگی نہیں دکھائی ہے۔بلکہ اکھلیش یادو اپنی سیاست بچانے کے لئے خاندان کے کسی نہ کسی فرد کو بی جے پی کے ساتھ جوڑے رکھا ہے ۔بھلے ہی اُسے کنبے میں دراڑ کے طور دکھایا جا رہا ہو ۔
کہنے کا مطلب صاف ہے کہ سماجوادی اور سوشلسٹوں کے لیے فرقہ پرست پارٹیاں کبھی اچھوت نہیں رہی ہے بلکہ کانگریس کو کمزور کرنا اور اُسے حکومت سے بے دخل کرنا سماج وادیوں کا ایک مقصد رہا ہے ۔
سوشلسٹ اور سماجوادی رام منوہر لوہیا اور مدھو ڈندواتے کے درمیان اسلئے آپس میں اختلاف رہتا تھا کہ لوھیا کانگریس کو حکومت سے بے دخل کرنے کے لیے سنگھ کا ساتھ لینے میں کوئی بھی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے ۔جب کہ مدھو دنڈواتے کی ایسی سوچ نہیں تھی۔وہ سنگھ سے دوری بنا کر سیاست کرنا پسند کرتے تھے ۔
کانگریس کی مخالفت میں جے پی آندولن دراصل فرقہ پرست سنگھ اور سماجوادی لوگوں نے مل کر لڑا تھا اور اسی جے پی آندولن کے بعد 1977 میں جب جنتا پارٹی کی سرکار قائم ہوئی تھی تو سنگھ اور سماج وادیوں نے مل کر سرکار بنائی تھی ۔
اس آندولن نے ملک کو بڑے بڑے رہنماء دیئے لیکن سنگھ نے سماج وادیوں سے اس رشتے کا خوب استعمال کیا اور کانگریس کو پوری طرح سے اقتدار سے باہر کرنے میں کام یاب ہوئی ۔سماج وادیوں نے اپنا نمبر ون سیاسی دشمن کانگریس کو دیکھا اور کانگریس کو ختم کرنے اور خود اقتدار تک پہنچنے کے لیے سماجوادی رہ نماؤں نے فرقہ پرست بی جے پی کو جگہ دیا۔
جارج فرنا دیس جیسا سوشلسٹ اقتدار میں شامل ہونے کے لیے اٹل بہاری واجپائی کو وزیر اعظم بنانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی ۔
اب بی جے پی بھسما سور بن چُکا ہے ۔اس نے سماجوادی کو اقتدار تک پہنچنے کے لیے سیڑھی بنایا ۔ اب مودی حکومت میں اسی بچے کھوچے ہوئے سماج وادی رہ نماؤں کو کانگریس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے سیاست سے بے دخل کر دینا چاہتے ہیں ۔
لیکن داد دینی چاہیے لالو یادو کو جس نے بیماریوں کے باوجود جیل جانا پسند کیا لیکن بی جے پی کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔
لالو یادو کے علاوہ بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست سے صرف اور صرف کمیونسٹ پارٹیاں لڑتی نظر آ رہی ہیں ۔اور بی جے پی اور سنگھ سے ملک کو بچانے کے لیے آخری لڑائی کمیونسٹوں کی قیادت میں ہی لڑی جائیگی۔
کانگریس بھی اپنے آپ کو بچانے کے لیے کمیونسٹوں کی پالیسی اپنا کر مودی سرکار پر حملھ آور ہے۔لالو یادو ہو یا کانگریس یا پھر دوسری علاقائی پارٹیاں جو اپنے وجود بچانے کی لڑائی لڑ رہی ہیں وہ سبھی تبھی مودی حکومت کو شکست دے سکتی ہے
جب عام آدمی کے مفاد کی لڑائی لڑے گی اور عام آدمی کی لڑائی ہمیشہ کمیونسٹ ہی لڑتی رہی ہے۔ لیکن سماج وادیوں اور کانگریس کی مجبوری ہے کہ بی جے پی کی کارپوریٹ پالیسی کے خلاف عام آدمی کے مفاد کی خاطر لڑائی لڑے۔
لیکن سماج وادیوں اور سوشلسٹوں نے بی جے پی کو حکومت میں لا کر ملک کا جو نقصان کیا ہے وہ نا قابل تلافی ہے۔ اگر آنے والے لوک سبھا چناؤ میں سماج وادی نتیش کمار اور لالو یادو بہار میں بی جے پی کو روک دیں اور اکھلیش یادو اور مایاوتی بی جے پی کو اُتر پردیش میں روک دیں اور اُسے حکومت تک پہنچنے میں کام یاب نہیں ہونے دیئے تو کچھ حد تک سماج وادی رہنماؤں کے گناہ دھل جائیں گے ۔
میرا روڈ ،ممبئی
9322674787
Pingback: ہندو مسلم کارڈ کے خلاف بہار کے وزیر کی سیاسی چال ⋆ مشرف شمسی