اسلام میں خدمت خلق مطلوب بھی ہے اور مقصود بھی
اسلام میں خدمت خلق مطلوب بھی ہے اور مقصود بھی !
’’خدمت خلق‘‘ ایک ایساجا مع لفظ ہے،جو بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ’’خلق‘‘مخلوق کے معنی میں ہے اوراس کاروئے زمین پر رہنے والے ہر جاندارپراطلا ق ہوتا ہے ۔اسلام میں ا ن سب کی حتی الامکان خدمت کرنااوران کا خیال رکھنا ہمارا مذہبی واخلاقی فریضہ ہے۔ان کے ساتھ بہتر سلو ک وبر تاؤکی ہمیں ہدایت اللہ رب العزت نے بھی دی ہے اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں تاکید کرتی ہیں۔
قرآن مجیدمیں جگہ جگہ ایمان لانے والوں کی جن اہم صفا ت کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا،یتیموں کی دیکھ بھا ل کرنااورمسکینوں کو کھانا کھلانا شامل ہے۔اور ان صفات کی نہ صرف ترغیب دی گئی ہے،بلکہ ان صفات کو نہ اپنانے پر بھڑکتی ہوئی آگ کی وعیدبھی سنائی گئی ہے۔
اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ نے اپنی پوری زندگی دوسروں کی خدمت میں گزاری،آپ کی دعوت میں مخلوقات کی خدمت پر بہت زور ملتا ہے۔قربان جائیے اس نبی ﷺ کی ذات پر،جس نے عا لم انسانیت کی خدمت میں اپنی سا ری زندگی گزار دی اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔
جب آپ نے پہلی اسلامی ریاست کی بنیا د رکھی اس وقت آپ نے اپنے پہلے خطبے میں ارشاد فر مایا: ترجمہ:سلام کو عام کرو،کھانا کھلاؤ،صلہ رحمی کرو،راتوں کو قیام کرو، اپنے اس رویے کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا ؤگے۔(ترمذی جلد دوم،باب ماجاء فی فضل اطعام الطعام)
اس حدیث میں جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کے سا تھ اچھا برتا ؤکیا جائے اورضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ ایک اور موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے فر مایا: ترجمہ:اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔
(ترمذی،جلد دوم،باب ما جاء فی رحمۃ الناس) اس ارشاد میں نہایت متاثرکن انداز میں مخلوق پر رحم کرنے اور انسانوں کے ساتھ رحمت و شفقت کا برتا ؤکرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔یہ اسلام کی رحمت عامہ ہے جس کی تعلیم رحمتہ للعالمین ﷺنے دی ہے کہ انسان، انسان ہونے کی حیثیت سے ہمدردی کا مستحق ہے،خواہ اس کا تعلق کسی بھی قوم اور مذہب سے ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق وہی لوگ ہیں، جو اس کی مخلوق کے حق میں مہربان ہوتے ہیں۔لیکن جن کا برتا ؤمخلوق کے ساتھ ظالمانہ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کر دکھاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں۔لہٰذا جو لوگ انسانیت کے رشتے کو کاٹیں گے اللہ تعالیٰ ان سے اپنی رحمت کے رشتے کو کا ٹے گا۔جیسا کہ حدیث پاک میں آیا ہے کہ:
ترجمہ: رحم عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جو میرے ساتھ صلہ رحمی کرے اللہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے اور جو مجھ سے قطع تعلق کر لے اللہ بھی اس سے قطع تعلق کر ے۔(ترمذی جلد دوم،باب ماجاء فی رحمۃ الناس) اسلام میں خدمتِ خلق مطلو ب بھی ہے اورمقصود بھی۔دین کے مقاصد میں سے ہے کہ لوگوں کوجہنم سے بچایا جائے۔ اگر کسی کا گھر جل رہا ہو اور اس کو بچایا جائے تو یہ خدمت خلق ہے، اور اگر موت کے بعد وہ آگ میں گرنے والا ہو اور اس کو بچایا جائے تو کیا یہ خدمت خلق نہیں ہے؟
یقینایہ بھی خدمت خلق ہے۔گویا مومن کی پوری زندگی،چاہے وہ دعوتی نوعیت کی ہو، امدادی نوعیت کی ہو،غرض کسی بھی نوعیت کی ہوخیر خواہانہ ہو نی چاہیے۔یہ سب کچھ اسی خدمت خلق کے زمرے میں آتا ہے۔لیکن اس وقت امت کا سواد اعظم صرف مالی تعاون کو ہی خدمت خلق سمجھتا ہے۔اس کو یہ نہیں معلوم کہ مالی تعاون ضروری تو ہے، لیکن اگر ہم اس کے ساتھ انسانوں کی ابدی کامیابی میں تعاون نہ کریں،ان کو آگ میں جلنے سے نہ روکیں تو ہم سے اس کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دین میں خدمت خلق کا کتنا جامع تصور موجود ہے۔اس کی عکاسی انسان کی پوری زندگی،سوچ،ذہن،دل ودماغ سے ہونی چاہیے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ایک شعبہ قائم کر لے اور مطمئن ہو جائے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ہر صاحب ایمان کو دل کی گہرائیوں سے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا وہ ان خدمات کو انجام دے رہا ہے۔خدمت خلق کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ کے پاس پیسہ ہی ہوتبھی آپ یہ کام انجام دے سکتے ہیں ،بلکہ اس کے بغیر بھی آدمی پوری زندگی مخلوق کی خدمت کر سکتا ہے۔
خدمت خلق یہ بھی ہے کہ آپ کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ایک آدمی مال سے خالی ہاتھ تو ہو سکتا ہے لیکن وہ دل سے دوسروں کا خیال رکھ سکتا ہے، یہ بھی بہت بڑی خدمت ہے۔آپ کی زبان سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے،جب بھی بولیں بھلی بات بولیں،دوسروں کا برا نہ سوچیں،ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں،لوگوں سے مسکرا کر ملیں یہ سب انسانوں کی خدمت میں شامل ہے۔ پیغمبراسلام ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:حقیقی مسلم وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(بخاری شریف اول،باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ) انسان کے لیے دوسروں پر اپنا مال خرچ کرنا بہت مشکل کا م ہوتا ہے۔
کیوں کہ اس سے اس کو شدید محبت ہوتی ہے۔لیکن اگر انسان کو اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین ہو، تو وہ کبھی بھی اللہ کی محبت پر مال کو ترجیح نہیں دے گا۔ایسی صورت میں اس کو اپنے رب کا وعدہ ہمیشہ یاد رہے گا: میرے راستے میں خرچ کرومیں اسے دو چند کرکے دوں گا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو خطاب کرتے ہوئے کیا ہی پیارا جملہ ارشاد فرمایاتھا:’’اپنا مال خداوند کے پاس رکھو،کیوں کہ انسان کا دل وہیں ہوتا ہے جہاں اس کا مال ہوتاہے‘‘۔
تمام آسمانی مذاہب میں مال کو جمع کر کے رکھنے سے منع اور مال جمع کر رکھنے والو ں کے لیے تبا ہی وبر با دی کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ اپنے جیسے بے سہارا انسانوں پر اپنا مال خرچ کیا جائے۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ آدمی بہت ما ل دار ہو۔تھوڑا مال ہو تب بھی اس طرح کی خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔کیوں کہ اللہ ہر ایک کی استطاعت سے بخوبی واقف ہے، وہ دلوں کے حال جانتا ہے اور اللہ کے نزدیک نیتوں ہی پر نیکیوں کادارومدارہیں۔ایک حدیث میں ہے:
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم شریف اول،باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ) خدمت خلق کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی صلاحیت اورطا قت وقوت اللہ تعالیٰ کی راہ میں لگائے۔اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور حالات کے لحاظ سے بدلتی بھی رہتی ہیں۔
اسلام میں بے شمار تعلیمات ایسی ہیں:
اگر اندھے کو راستہ نہیں ملتا،کسی نے اسے راستہ بتا دیا تو یہ بھی خدمت ہے اورراستے سے تکلیف دہ چیز(پتھر،کانٹاوغیرہ)کوہٹانا صدقہ ہے۔اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میںپانی ڈالنا اوراپنے مسلمان بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔(کتب حدیث)
اس طرح کے بے شمار مواقع قدم قد م پر آتے رہتے ہیں ۔ضرورت بس دل کی رضامندی، نیت کی درستگی اور اللہ پر پختہ ایمان کی ہے۔
قرآن کریم میں اجتماعی کامو ں کو ترجیح دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی امت کو مجتمع رہنے کی تا کیدفرمائی ہے۔اکیلے نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت کی نماز کوستائیس گنا افضل قرار دیا گیا ہے۔یہ سب با تیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اگر خدمت خلق کا فریضہ بھی ایک نظم اور اجتماعیت کے ساتھ ہو تو وہ نہایت اچھے طور سے انجام پائے گا۔کیونکہ اجتماعی کاموں میں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کام جلداز جلد اورایک سسٹم اور نظم وضبط کے تحت پورے ہوتے ہیں۔
نیکی اور خدمت کے بہت سارے کام ہیں۔لیکن یہ سارے کام تبھی درست اور باعث اجر وثواب ہوں گے جب آدمی کی نیت خالص ہو، کوئی اور غرض وغایت نہ ہو،کوئی دنیوی مفاد پیش نظر نہ ہو۔انسان کو اس کے کام کا اجر وثواب صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے۔اگر ہماری نیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جو کچھ ہم خدمت کر تے ہیں،کھانا کھلا تے ہیں،لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں،کسی کا دل نہیں دکھاتے یہ صرف اللہ کی رضا اور آخرت میں نجات کے لیے ہے تواس پر اجر ہے اور دوسرے فوائد بھی کئی گنا حاصل ہوں گے۔
اگر نیت خالص نہ ہو تو آپ بیٹھ کر بار بار اس بات کا رونا روتے رہیں کہ ہم نے اتنا کام کیا اس کے باوجود لوگ ہمیں نہیں مانتے یاہماری نہیں سنتے تو یہ سب چیزیں نیت کی خرابی کا نتیجہ ہیں۔ یادرکھیے! سارا کام جو ہم کر رہے ہیں یہ بندوں کے لیے نہیں بلکہ اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کے ہم بندے ہیں اورہم پر یہ اللہ کا حق ہے۔
نعیم الدین فیضی برکاتی ،ریسرچ اسکالر
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز(نیوز پورٹل ومیگزین)
پرنسپل:دارالعلوم برکات غریب نوازکٹنی(ایم ۔پی)
mohdnaeemb@gmail.com 9792642810
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- دہلی میں دو طوفان
- گھڑا جب پاپ کا بھرتا ہے ایک دن پھوٹ جاتا ہے
- مہاراشٹر کا سیاسی بحران اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے،اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
- اس نا خدا کے ظلم و ستم