یہ حقیقت ہے افسانہ نہیں

Spread the love

یہ حقیقت ہے افسانہ نہیں

دوہزار چودہ  2014  سے لے کر اب تک ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ہر اعتبار سے فتنے ، آزمائش ، درد و کرب آہ اور صدمۂ جانکاہ کا دور رہا ہے ـ یوں تو امت مسلمہ اور بھی مشکلات و مسائل سے دو چار ہے، ایک قیامت سے جان چھوٹتی نہیں کہ دوسری قیامت دستک دے دیتی ہے ـ

حساس دل کے لیے گویا ہر لمحہ عذاب ہے ــ لگا کے درد پیوند اوڑھتے رہیے ہوئی ہے زندگی آج اک عذاب کی چادر سن 2014 میں بی جے پی ہندتوا نظریات کے ساتھ اقتدار میں آئی اور مسلمانوں کے افکار ، جائیداد اور مقدسات پر شب خون مارنا شروع کیا، اس یلغار کا اثر یہ ہوا کہ حق بولنے والی زبان آہستہ آہستہ لکنت زدہ ہوگئی

اول تو تھوڑی تھوڑی چاہت تھی درمیاں میں

پھر بات کہتے لکنت آنے لگی زباں میں ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے(مسلم کش فسادات ، ماب لنچنگ، گھر واپسی جیسی مہم ) ہم اسے عالمی سطح پر اسلام کے خلاف ہونے والی منظم سازش سے الگ نہیں دیکھ سکتے

آج یہودیت و صیہونیت کی تغلب پسندانہ ذہنیت مسلم بچیوں کی کوکھ میں ہندو خون اور مسلم بچوں کی زباں پہ کفریہ نعرہ دیکھنا چاہتی ہے ـ ( اس ناپاک مقصد میں ۲۰ % فیصد وہ کامیاب بھی ہوچکے ہیں ) ؁ 2017 میں یوپی کے گوشے گوشے میں مہاسبھائیں ہوئی اور مسلمہ کو مشرکہ بنانے پر غور کیا جانے لگا اور اب تک ایک رپورٹ کے مطابق 8 لاکھ مسلم بچیاں فتنۂ ارتداد کے ناپاک چنگل میں پھنس چکی ہیں ـ

ہوسکتا ہے 2030 ؁ تک اس کی شرح میں اضافہ ہوکر 16 لاکھ ہوجائے ــ اس وقت سے لے کر اب تک مسلمان اور ان کے قائدین تماشا بیں ہیں نہ ماضی کا محاسبہ اور نہ حال پہ نظر اور نہ ہی مستقبل کی فکر ــ

انیس دہلوی نے کہا تھا ؂ آپ کا کوئی سفر بے سمت بے منزل نہ ہو زندگی ایسی نہ جینا جس کا مستقبل نہ ہو بابری مسجد کے غیر منصفانہ فیصلہ پر ہم نے خاموشی سے تائید کی بعض مفکر و مدبر نے تو یہ بھی کہا تھا کہ بھائی چارگی کے نام پر ایک مسجد کو قربان کردینا چاہیے اور اب معاملہ یہ ہے کہ ” بابری تو جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے ” کا نعرہ ان کے بچے بوڑھے جوان کی زبان پر ہے۔

آزادي افکار سے ہے ان کي تباہی رکھتے نہيں جو فکر و تدبر کا سليقہ ہو فکر اگر خام تو آزادي افکار انسان کو حيوان بنانے کا طريقہ! دنیا حیرت زدہ ہے کہ کل تک جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے یورپ لرزہ بر اندام ہوجاتا تھا آج بھیگی بلی بنے اپنے ہی وطن میں اپنے گلشن اجڑنے کا تماشا دیکھ رہے ہیں

ہر کوئی یہی چاہ رہا ہے کہ کوئی صلاح الدین ایوبی پیدا ہو لیکن خود کے گھر سے نہیں بلکہ بغل والے گھر سے البتہ ! بعض تنظیمیں اور بعض سرفروشان اسلام ان سب معاملے میں سرگرداں ہیں لیکن ان پر بھی نکلیل کسنے کی بھرپور تیاری ہوچکی ہے ــ (

اللہ تعالی ان کا حامی و ناصر ہو) اور ہماری یہ حالت ہے کہ ہم آپس ہی میں الجھے ہوئے ہیں کتنی عجیب بات ہے کہ آر ایس ایس ہر ایک کو ہندو بنانے پہ تلا ہے اور ہم ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرنے پر لگے ہیں ـــ آئے دن اخبار کی سرخیاں ” فلاں مسلم لڑکی ہندو بنی ” ملتی ہیں لیکن ہمیں بے حسی نے اس قدر گھیر لیا ہے کہ ہمارے ماتھے پر شکن تک نہیں ہوتا

یاد رکھیں ! یہ حقیقت ہے افسانہ نہیں اگر ہم اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں تو یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ کل آنے والا دور گھٹا ٹوپ ظلمت کا دور ہوگا ہر مسجد کے نیچے ایک مندر اور ہر گھر کے نیچے ایک مورتی کا دعوی ہوگا ـ اور سجادگان حرم و پیران زمن کو بھی گزارا نہیں ہوگا ــ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریکہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیریترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانییہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

✍ محمد ذاکر حسین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *