حضور ﷺ کی قائدانہ و حکیمانہ حیات طیبہ

Spread the love

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ وحکیمانہ حیات طیبہ !

شمع فروزاں ۔۔۔۔۔۔ محمد محفوظ قادری رام پور یو۔پی

اللہ کے رسول رحمت دوعالم نور مجسم حضورصلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔جیسا کہ حدیث مبارک میں آتا ہے صحابہ کرام عرض کرتے ہیں یارسول اللہ! آپ کو نبوت کب عطا کی گئی ؟

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق روح اور جسم کی مرحلہ میں تھی ۔ یعنی ابھی حضرت آدم کے اس خاکی پتلے کے اندر روح نہیں ڈالی گئی تھی کہ اللہ نے مجھے نبی بنا دیا تھا

آپ ظاہری طور پر تمام نبیوں کے بعد میں تشریف لائے جبکہ آپ کے نور کی تخلیق درحقیقت سب سے پہلے ہی ہو چکی تھی

جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’سب سے پہلے اللہ نے میرے نور کو پیدا فرمایا‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان! اللہ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا ؟

نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے جابر!اللہ تعالیٰ نے تمام کائنات سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے پیدا فرمایا پھر یہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں جہاں چاہا سیر کرتا رہا اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم ،نہ جنت تھی نہ دوزخ،آسمان نہ زمین،چاند نہ سورج ، جن نہ انسان۔

بظاہر آپ اس عالم فانی میں سب کے بعد جلوہ گر ہو ئے ۔لیکن حقیقت میں آپ سب سے پہلے ہی نبی بنا دئے گئے تھے۔(حدیث)

آپ کی آمد سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد صدیوں تک اس روئے زمین پر ظلم بربریت قتل و غارت گری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی جہالت چاروں طرف عام ہو چکی تھی بے جا رسومات لوگوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے چاروں طرف کفر وشرک کا ماحول تھاجہالت اس قدر بڑھی ہو ئی تھی کہ لڑکی کی پیدائش کو منحوس سمجھ کر اس کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا

معاشرے میں سود خوری،جوابازی،عیاشی ،شراب نوشی جیسے برے کام عام ہوگئے تھے ۔ اور یہ سلسلہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد صدیوں تک اس روئے زمین پرجاری رہا اس پُر فتن دور اوران نازک حالات میں کوئی کسی کا پُرسان حال نہیں تھا نہ کو ئی ظالم کے ہا تھ کو روکنے والا تھا اور نہ کو ئی مظلوم کی فریاد کو سن نے والا تھا

اس کی وجہ یہ تھی کہ لو گ ایک اللہ کی عبادت کرنے کے بجائے بہت سے باطل معبودوں کی پرستش میں لگے ہو ئے تھے اور زندگی گزارنے کے لیے دینی اور دنیوی اعتبار سے کوئی دستورالعمل ان کے پا س نہیں تھا۔

اور یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہااس پُر فتن دور میں اللہ تعالیٰ نے تمام عالم انسانیت پر رحم فرمایا،اور رحم ہی نہیں فرمایابلکہ احسان عظیم فرماکرنبی رحمت نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری مخلوق کے لیے ہادی ورہبر بنا کر اِس عالم میں جلوہ گر فرمایاتاکہ آپ ان لوگوں کوکفرو شرک اورذلت ورسوائی کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان واسلام کے نور سے ان کے تاریک دلوں کو روشن کریں

اور اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے کاان کوطریقہ سکھائیں اور بے جا رسومات ودیگرخرافات کادنیا سے صفایا کریں اور ان لوگوں کوبتائیں کہ پوری کا ئنات کا خالق و مالک اللہ ہے اور اس کائنات کا نظام اللہ رب العزت کے ہی دست قدرت میں ہے اس کے حکم کے بنا کچھ نہیں ہو سکتا ۔

اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس دنیا میں جلوہ گر ہوتے ہیں توتمام جہانوں کیلئے رحمت بن کر ہی نہیں آتے ہیں بلکہ تمام انسانوں کے لیے ایک مکمل دین کے ساتھ مکمل نظام سیاست اور مکمل نظام زندگی لے کربھی جلوہ گر ہوتے ہیں گویا آپ جہاں دین کے شہنشاہ ہیں وہیں آپ دنیا کے سب سے بڑے قائد بھی ہیں ۔

آپ نے دنیا کو ایک ایسا دین عطا کیا ہے جوانسانوں کی فطرت کے عین مطابق ہے ساتھ ہی آپ نے دنیا کو ایک ایسا نظام سلطنت بھی عطا کیا جو بلا امتیازمذہب وملت تمام انسانوں کا سچا محافظ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوہ گر ہو نے سے پہلے دینی اور دنیووی رہنماؤں کے تمام طورطریقے الگ الگ تھے ۔

اوراکثرنبی اور پیغمبر اپنے آپ کو دنیوی تمام معاملات سے الگ رکھتے تھے۔اور دنیوی رہنماوحکمرانوں کادین سے کو ئی واسطہ نہیں تھا وہ ہمیشہ سے ہی دین سے دشمنی پیش کیا کرتے تھے دینی اور دنیوی رہ نماؤں کے آپسی اختلافات وٹکراؤکی وجہ سے بڑے بڑے فسادات وخونریزیاں ہوتی رہی ہیں ۔لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد دینی اور دنیوی بادشاہتوں کی تمام جداگانہ حیثیتیں ختم ہو گئیں ۔

بلکہ آپ نے دینی باد شاہت اوردنیوی سلطنت کوایک ساتھ جمع کر کے انسان کی عین فطرت کے مطابق ایسا نظام عمل تیار کیاکہ جس نے فرسودہ نظام رکھنے والی حکومتوں کی کا یا پلٹ دی یہاں تک کہ انسان کی ظالمانہ وجابرانہ سرکشیوں کوبدل ڈالا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے پیشواہیں ۔آپ نے جہاں پتھروں،ستاروں اور دیگر بے جا ن چیزوں کے پوجنے والوں کو خدائے واحد لاشریک کی پہچان کرائی وہیں یہ بھی بتایاکہ وہ دنیا میں اپنی حکومتیں قائم کرکے کیسے آزاداورپُرسکون زندگی گزار سکتے ہیں۔نبی آخرالزماں نے اپنے ماننے والوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ کی عبادت کے ساتھ دنیوی معاملات میں بھی پوری حصہ داری کے ساتھ شریک ہوں ۔

مسلمانوں کا دین اور دنیا دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں کا ایک دوسرے سے بہت قریبی رشتہ ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور دنیا کو ایک ساتھ جمع کرکے انسانوں کے سامنے جو فطری نظام سیاست پیش کیا

آپ خود اس کی ایک مکمل تنویر تھے ۔آپ کی کیفیت کا یہ حال تھا کہ کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کے پائوں مبارک پر ورم آجاتا تھا تو وہیں ذریعہ معاش کی فراہمی کے لیے بھی سب سے زیادہ سر گرم ومحنت کرتے ہوئے دکھا ئی دیتے تھے ۔اگرآپ ساری ساری رات عبادت الٰہی میں مستغرق نظر آتے تومیدان جنگ میں بھی شمشیر بکف دکھائی دیتے تھے ۔

اور مسجد نبوی کے ممبر سے وعظ و نصیحت کے ذریعہ انسانیت اور اخلاقیات کا درس دیتے تووہیں میدان جنگ میں تلوار چلاکر سر فروشی کی مثال بھی پیش فرمایا کرتے تھے ۔سچ تو یہ ہے کہ آپ کی مبارک زندگی مکمل نظام سیاست اور نظام حیات بھی ہے جس کے بعد آپ کے مان نے والوں کو کسی نئے دستور سیاست یا نظام حیات کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم آزادی کے سب سے بڑے علمبردار ہیں آپ اس بات کو اچھی طرح جان تے ہیں کہ جب تک کسی قوم کی اپنی حکومت نہیں ہو تی اُس وقت تک وہ آزادی کے ساتھ نہ تو اپنے دینی کاموں کوانجام دے سکتی ہے اور نہ دنیوی راحتوں سے فیضیاب ہوسکتی ہے اس لئے آپ نے شروع سے ہی دین مبین کی تبلیغ واشاعت کے ساتھ ایک ’’آزاد اسلامی حکومت‘‘کے قیام پر زور دینا شروع کردیا تھا

مسلمانوں کو غلامی کی ذلت سے نجات دلانے کے لیے پہلے آپ خود میدان عمل میں آئے اور دشمنان اسلام کا پوری جوا نمردی و جرأت سے مقابلہ کیاجو مسلمانوں کو مٹانے کی بھرپور کوششیں کر رہے تھے آپ بھی اس وقت تک کوشش کرتے رہے جب تک کہ آپ نے دشمنان اسلام کو زیر کرکے اسلامی حکومت کی بنیاد نہ رکھ دی۔

 

رحمت دوعالم نے اللہ کی طرف سے غیبی مددکے ذریعہ جو بے سرو سامانی کے عالم میں ایک ایسی مضبوط اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں اول و آخرنہیں مل سکتی ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اعلائے کلمتہ الحق کے جرم میں آپ کے خاندان والوں اور آپ کے وطن کے لوگوں نے اس قدر ستایا کہ آپ کو اپنے وطن عزیز مکہ کوچھوڑناپڑگیا۔مکہ سے ہجرت کرکے جب آپ مدینہ تشریف لائے توآپ کے مان نے والوں کی تعداد برائے نام تھی

لیکن آپ نے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ارادئہ مستحکم کے ساتھ مسلمانوں کی مختصر سی جماعت کو ساتھ میں لے کر دشمنوں کے بڑے بڑے لشکروں کو شکست فاش دی، اور اپنی طاقت کو اتنا بڑہالیا کہ آپ کے مخالفین کا آپ کے مقابلہ میں آنامشکل ہو گیا۔

بہر حال سرکار دوعالم کی معیت میں مسلمانوں نے بے شمار لڑائیوں میں اپنے دشمنوں پر شاندار فتوحات حاصل کیں اور نبی رحمت کے طفیل ملک عرب میں مسلمانوں کی ایک ایسی مظبوط حکومت قائم ہو گئی جس کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں جھکنے کے لیے مجبور ہوگئیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اسلامی حکومت کا دائرہ جزیرہ نما عرب سے نکل کر مشرق ومغرب کے اکثرممالک میں پھیلتا چلاگیا۔نبی علیہ السلام نے مسلمانوں میں جو ایمانی حرارت وقوت پیدا کی تھی اس کی بدولت مسلمانوں نے مختصر سے عرصہ میں دنیا کا اکثر حصہ فتح کر لیا تھامسلمانوں کی پہلی فتح،فتح مکہ تھی جسے خود رسول اللہ نے سرانجام دیا تھا

اس کے بعد طائف فتح ہوااور رفتہ رفتہ مسلمانوں کا پورے ملک عرب پر قبضہ ہوگیا۔مسلمانوں کی فتوحات کا دوسرا باب خلفائے راشدین کے دور سے شروع ہوتاہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مسلمانوں  نے شام پر حملہ کیا اور عراق کو فتح کر لیا۔اس کے بعد حضرت عمرفاروق اعظم ضی اللہ عنہ کادورحکومت شروع ہوتا ہے ۔

آپ کے دور حکومت میں بہت شاندار فتوحات نصیب ہوئیں شہر بعلبک فتح ہواشہزار وحمص کو مسلمانوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا ،بیت المقدس کے عیسائیوں نے اطاعت قبول کر لی مصر ،ایران وشام پر مسلمانوں کا مکمل قبضہ ہو گیا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں شمالی افریقہ فتح ہواساتھ ہی جزیرہ قبرص اور جزیرہ روڈس پر مسلمانوں نے قبضہ کیااور ایران کے باقی حصہ بھی فتح ہو گئے تھے۔خلفائے راشدین کے بعد بھی فتوحات کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا۔

بنو امیہ کے دور خلافت میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ اور سلطنت روما پر حملے کرکے اس کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا اور پورا ترکستان فتح کیا افغانستان میں فتوحات حاصل کیں اور ساتھ ہی نصف چین پر مسلمانوں نے قبضہ کیا۔فتوحات کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکتا ہے بلکہ اسپین ،پرتگال کا پوراعلاقہ اور جنوبی افریقہ پر بھی فتح حاصل کی ۔

اس کے بعد ہندوستان کا بھی ایک بہت بڑا حصہ فتح کیا ۔یہ تمام فتوحات مسلمانوں کو ستر،اسی سال کے اندراندر حاصل ہو گئی تھیں۔ان فتوحات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس اسلامی حکومت کی بنیاد اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی تھی اس اسلامی حکومت نے دنیا میں مختصر سے وقت میں کیسے کیسے کارنامے انجام دئے ہیں

حقیقت یہی ہے کہ ایک بھی مثال ایسی نہیں ملتی ہے کہ کسی قوم نے اتنے کم وقت میں دنیا کا نصف حصہ سے زیادہ فتح کیا ہو۔

اللہ کے رسول کی قائم کی ہوئی اس آزاد اسلامی حکومت نے اپنے جنگی کارناموں سے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھااس کے قیام کیلئے شہشاہ دو عالم نے کیسی کیسی مشکلات کا سامنا کیا اس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے

آپ نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے ایک ایسی مضبوط اسلامی حکومت قائم کی جس نے اپنے گھروں سے نکالے ہوئے بے سروسامان مسلمانوں کے سروں پر پوری دنیا کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا ۔رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی ایمان داری، سچائی، صبرو تحمل، بردباری،قناعت پسندی اور حوصلہ مندی کا ایک ایسا نمونہ ہے جو آپ ہی اپنی نظیر ہے۔

شمع فروزاں ۔۔۔۔۔۔ محمد محفوظ قادری رام پور یو۔پی

9759824259

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *