سچر کمیٹی رپورٹ کا محرک جاتا رہا
سچر کمیٹی رپورٹ کا محرک جاتا رہا
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
ہمارے سابق وزیرِ اعظم اور ممتاز ماہرِ معاشیات ڈاکٹر منموہن سنگھ گزشتہ رات (26/ دسمبر 2024) کو 92/ سال کی عمر میں آں جہانی ہو گئے۔ ان کی قیادت میں، بھارت نے اقتصادی اصلاحات کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی معیشت کو مستحکم کیا۔ ان کی پالیسیوں نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا اور لاکھوں افراد کو غربت سے نکالا۔
ان کی سادگی اور علمی قابلیت نے انھیں عالمی سطح پر احترام کا مقام دلایا۔یوں تو ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بیوروکریسی اور سیاست دونوں میدانوں میں اپنی جداگانہ پہچان بنائی لیکن بطور مسلم ہمارے لیے ان کی جو حیثیت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور رکھنی چاہیے، وہ 2005 میں جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں سچر کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر سنگھ نے یہ کمیٹی اس لیے تشکیل دی تھی کہ بھارتی مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت کا صحیح جائزہ لیا جا سکے اور -ہر قسم کے نظریاتی اختلاف کی گنجائش کے باوجود- اس بات کا کشادہ قلبی کے ساتھ اعتراف کیا جانا چاہیے کہ ان کا یہ اقدام اقلیتوں کے تئیں بے شک مخلصانہ اور اپنے نتائج کے اعتبار سے نہایت مفید ثابت ہوا۔
بہت ممکن ہے ازیں قبل بھی اقلیتوں کی ٹھیک ٹھیک صورت حال کا جائزہ لیا جاتا رہا ہوگا اور پرائیویٹ سطح پر بھی بہت سارے سروے ہوئے ہوں گے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ راست وزیر اعظم کی نگہداشت میں ہوئے اس آفیشیل سروے کی حیثیت سب سے ممتاز رہی۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ نے زمینی حقائق کے جو انکشافات سامنے رکھے، وہ بہت پریشان کن تھے اور زیر نظر مضمون میں ہمارا مدعا، وہی انکشافات ہیں۔رپورٹ نے یہ ثابت کیا کہ بھارتی مسلمان تعلیمی اور معاشی میدانوں میں دیگر برادریوں کے مقابلے کافی پس ماندہ ہیں اور اس کمیٹی نے حقیقت حال سامنے رکھنے کے ساتھ ہی حکومت کو اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے مخصوص پالیسیاں بنانے کی ترغیب بھی دی۔ اس اجمال کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:
سچر کمیٹی کا مقصد اور طرز کار:۔
سچر کمیٹی کا مقصد مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لینا اور ان کے لیے مناسب حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ کمیٹی نے ملک بھر میں مختلف علاقوں کا دورہ کیا، مسلمانوں کے مسائل کو سمجھنے کے لیے عوامی اجلاس منعقد کیے اور مختلف سماجی و اقتصادی پہلوؤں کا تجزیہ کیا اور جب رپورٹ مکمل تیار ہو گئی تو 2006 میں پارلیمنٹ میں پیش کی گئی، جس کے بعد اسے وسیع پیمانے پر عوامی بحثوں اور تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سچر کمیٹی نے پایا کہ:
۔(الف) مسلمان اکثر ایسے علاقوں میں آباد ہیں، جنھیں
“Muslim Concentrated Areas” کہا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں بنیادی سہولیات، انفراسٹرکچر اور ترقی کے مواقع کی شدید کمی ہے جیسے صحت کے مراکز، اسکول، کالج، اور دیگر عوامی خدمات نہایت محدود ہیں، جو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
۔(ب) رپورٹ میں ذکر کیا گیا کہ مسلمانوں کو بھرتی کے عمل میں اکثر تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے وہ سرکاری اور نجی سیکٹرز میں نوکریاں حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں جیسے کئی نجی ا
دارے مسلمانوں کو روزگار دینے میں جھجکتے ہیں، اور سرکاری اداروں میں بھی انھیں اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے۔
۔(ج) مسلم عورتوں کی حالت رپورٹ میں خاص طور پر تشویش کا باعث بنی۔ انھیں تعلیم، صحت، اور روزگار کے مواقع میں شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کے اسباب میں مسلم عورتوں کی شادی کی عمر، تعلیم کے مواقع، اور صحت کے مسائل تھے۔
۔(د) مسلمانوں کے گھروں کی اوسط آمدنی بھی قومی اوسط سے کم تھی، اور ان کی معیشتی حالت غیر مستحکم تھی۔(ھ) مسلمانوں کو مالی قرضے حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا تھا، اور ان کی قرضوں تک رسائی بہت محدود تھی۔
۔(و) مسلمان اکثر پس ماندہ علاقوں میں رہتے تھے جہاں بنیادی سہولیات کی کمی تھی۔ ان کے پاس صحت، صفائی، اور پینے کے صاف پانی کی کمی تھی۔
۔(ز) رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کے اکثر علاقے سوشل انڈیکیٹرز (جیسے کہ تعلیم، صحت، وغیرہ) کے لحاظ سے پس ماندہ ہیں۔
۔(ح) لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کم تھی۔ 2004 کے انتخابات میں لوک سبھا میں صرف 4% نشستیں مسلمانوں کے پاس تھیں۔
۔(ط) ریاستی اسمبلیوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم تھی، اور ان کی سیاسی آوازیں اکثر نظر انداز کی جاتی تھیں۔اعداد و شمار کے تناظر میں:-(ی) بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 13.4% تھی، جو کہ ملک کی دوسری بڑی مذہبی اقلیت ہے۔
۔(ک) مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 59.1% تھی جو کہ قومی اوسط 64.8% سے کم تھی
۔(ل) ہائر ایجوکیشن میں مسلمانوں کا تناسب صرف 4% تھا، جبکہ دیگر اقلیتوں اور ہندوؤں میں یہ شرح زیادہ تھی۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں جیسے کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی
۔ (IIT) اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ (IIM) میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم تھی۔(م) مسلمانوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ یعنی تعلیم مکمل کیے بنا بیچ میں اسکول چھوڑنے کی شرح بھی زیادہ تھی، خاص طور پر پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے مراحل میں
۔(ن) سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب صرف 4.9% تھا، جو ان کی آبادی کے تناسب سے کافی کم تھا۔
۔(س) ملک کی پولیس فورس میں مسلمانوں کا حصہ صرف 3.2% تھا۔
۔(ع) پبلک سیکٹر کے اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 7.2% تھی، جو کہ ان کی آبادی کے تناسب میں کم تھی۔
۔(ف) مسلمانوں کی تقریباً 31% آبادی سطح غربت کے نیچے زندگی گزار رہی تھی، جو کہ قومی اوسط 26% سے زیادہ تھی۔
سچر کمیٹی کی سفارشات:۔
۔ (الف) مسلمانوں کو بھارت میں “پس ماندہ طبقے
” (Backward Classes) میں شمار کیا جانا چاہیے تاکہ انھیں بھی دیگر پس ماندہ طبقات کی طرح خصوصی تحفظ اور فوائد مل سکیں
۔(ب) مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی تعلیمی وظائف اور اسکیمز کا اجرا ہونا چاہیے
۔(ج) سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لیے خصوصی کوٹہ متعین کیا جانا چاہیے
۔(د) مسلمانوں کے اقتصادی حالات بہتر بنانے کے لیے معاشی ترقی کے خصوصی پروگرامز اور قرضے فراہم کرنے کی اسکیمز جاری ہونی چاہیے۔
۔(ھ) مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لیے سیاسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
رپورٹ کے بعد: اثرات و اقدامات:۔
سچر کمیٹی رپورٹ کا پہلا پہل ری ایکشن یہ ہوا کہ بھارت میں مسلمانوں کی حالت کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر گفتگو شروع ہوئی اور رپورٹ کے بعد مسلم تنظیموں، سیاسی پارٹیوں، اور سول سوسائٹی کی جانب سے مسلمانوں کے حقوق اور ان کی بہتری کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں اور نتیجتاً حکومت نے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے جیسے “پروگرام فار مائنارٹی ویلفیئر” اور “پرائم منسٹرز 15 پوائنٹ پروگرام”۔
لیکن ان اقدامات کے باوجود، سچر کمیٹی کی بیش تر سفارشات پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا، اور مسلمانوں کی حالت میں مجموعی طور پر بہتری نہیں آ سکی تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس دستاویز نے ایک سنگ میل کا کام کیا،
مسلم مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے اور انھیں مین سٹریم میں شامل کرنے کی طرف توجہ مبذول کی، مسلمانوں کو اپنی ترجیحات طے کرنے کا راستہ دکھایا اور ساتھ ہی اندرونی سطح پر کرنے کے کاموں کے لیے گویا ایک مکمل خاکہ پیش کیا۔
تحریر:- خالد ایوب مصباحی شیرانی
چیرمین:- تحریک علمائے ہند