یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ماں سے

Spread the love

تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ماں سے

باپ کی شفقت و اہمیت کس لفظ میں کس طرح بیان کیا جائے اس ہستی کو جو سراپا رحمت بھی ہے, محبت بھی , محافظ بھی اور ہماری زندگی کی موجودگی کی وجہ بھی والد صاحب، ابا حضور، بابا جانی, ابوجی,پاپا جانی, دوست, محافظ,سایہ, کہا جاۓ یا زندگی، کس نام سے پکارا جائے کن الفاظ میں پکارا جائے ؟ انگریزی, اردو,فارسی بلکہ تمام زبانوں میں ایسا کوئی لفظ موجود ہی نہیں جس کو استعمال کر کے “باپ” کی ہستی کو بیان کیا جا سکے , یا باپ کے مکمل روپ کی عکاسی کی جاسکے۔

باپ ایک مقدس محافظ بن کر اپنی جان کی بازی لگا کر بھی اولاد کی حفاظت کرتا ہے۔کیسی صفت رکھی ہے قدرت نے “باپ” کی ذات میں جو اپنی سانس تک اولاد کی سانسوں میں شامل کر کے اسکی زندگی بڑھانےکاحوصلہ رکھتا ہےشاعرنےکیاخوب کہاہے۔

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں

میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں

لیـکن اکثر جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتاہے جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں ہے ہم سمجھتے ہیں کہ باپ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتاہے کبھی کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , ” اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی , کچھ بنایا ہوتا ۔

تو آج ہم بھی فلاں کی طرح عالی شان میں ہوتے لگژری گاڑیوں میں گھوم رہے ہوتے” کہاں ہو ? کب آؤ گے ? زیادہ دیر نہ کرنا ” جیسے باپ کے سوالات ہمیں انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں” سویٹر تو پہنا ہے نا کچھ اور بھی پہن لے بیٹا سردی بہت ہے ” انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں ہے اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس , کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر خود سُرخرو ہو جاتی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ اولاد کے لیے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے , اس ليے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں ۔

 

جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا پہلا ذمّہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ہر چیز سے بری الذمہ ہو جاتی ہیں وقت گزر جاتا ہے , اچھا بھی برا بھی , اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ہی ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گِرد منڈلاتے ہوئے دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔

جوانی , پڑھائی , نوکری , شادی , اولاد اور پھر وہی اسٹیج ، وہی کردار , جو نِبھاتے ہوئے , ہر لمحہ , اپنے باپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی ہر سوچ , احساس , فکر , پریشانی , شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ کے قہقہے اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر کرنا کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن رہنا کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا نظریں جھکائے انتہائی محویت سے ڈوب کر قرآن کی تلاوت کرنا یہ سب سمجھ میں آنا تو شروع ہو جاتا ہے ۔

لیکن بہت دیر بعد جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں , پوچھ ہی لیں ” بیٹا آپ کے ہاں گرم پانی آتا ہے ؟ ۔

“جب قہر کی گرمی میں رُوم کے کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو باپ کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے وہ یہ کہ ” کہیں میری اولاد گرمی میں تو نہیں جھیل رہی ہے “جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ , تھک ہار کر اللہ کی بارگاہ میں پناہ ڈھونڈتا ہے اللہ کے مقدس کلام سے سہارا لیتا ہے تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف , ایک ایک آیت پر , رُک رْک کر , بچوں کی سلامتی , خوشی ,۔ بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا رہا ہوگا ہر نماز کے بعد , اُٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہوں گے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ہمیں اپنی نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا رہا ہوگا سرِ شام کبھی کبھی , کمرے کی بتّی بُجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کِیا ؟

اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چْھونے , محسوس کرنے , اس کی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں یہ ایک عجیب احساس ہے جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں باپ کا چھونا , پیار کرنا , دل سے لگانا ۔

یہ تو بچپن کی باتیں ہیں باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے پیار کے لیے اس کے ہونٹ تڑپے ہونگے اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی ہر خواہش , ہر دعا , ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر , اولاد پر ہی , ختم ہو جاتی ہے۔

لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں گے کہ یہ ایک چُھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے کر دنیا سے جاتا ہے اولاد کے ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے اور یہ سب بہت شدت سے ہمیں محسوس ہوتا ہے جب ہم باپ بنتے ہیں بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے وقت پر دیکھ لے تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ وجان سے

یہ بات سچ ہے کہ میرا باپ کم نہیں ماں سے

محمد ہاشم اعظمی مصباحی

نوادہ مبارک پور اعظم گڈھ یوپی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *