سورہ رعد ایک مختصر تعارف
سورہ رعد ایک مختصر تعارف
محمد عبدالحفیظ اسلامی
اس سورۃ مبارکہ کا نام ’’الرعد‘‘ ہے، کیونکہ اس کی ایک آیت میں یہ کلمہ مستعمل ہے۔ ’’یسبِحُ الرعدُ بِحَمدِہ‘‘ اس سورہ میں جملہ آیات 43 ۔ اور کلمات 855 ، حروف 6053 ، رکوع 6 ہیں ۔ سورۃ ہذا کا نزول مکہ میں ہوا یا مدینہ میں؟ اس بارے میں علمائے کرام کی آراء مختلف ہیں۔ خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے دونوں قول مروی ہیں۔ آیات کا مضمون مکی سورتوں سے بڑی مناسبت رکھتا ہے۔
علامہ آلوسی نے یہ کہہ کر اس اختلاف کو ختم کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے لیکن اس میں کئی آیتیں ایسی بھی ہیں جو مدنی ہیں۔(روح المعانی، ضیاء القرآن) ۔
اس کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورۃ بھی اسی دور کی ہے جس میں سورۃ یونس ، ہود اور اعراف نازل ہوئی ہیں۔ یعنی زمانہ قیام مکہ کا آخری دور ، انداز بیان سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدت دراز گزر چکی ہے، مخالفین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں۔
مومن بار بار تمنائیں کررہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھاکر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایاجائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ میرے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمنان حق کی رسی دراز ہورہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبراؤ۔
پھر آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہوچکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتاہے کہ اگر قبروں سے مُردے بھی اُٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعہ کو بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔ ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی۔ سورۃ کا مدعا پہلی ہی آیت میں پیش کردیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ جو کچھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پیش کررہے ہیں وہی حق ہے۔ مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے۔
ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید ، معاد اور رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے۔ ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی فوائد سمجھائے گئے ہیں۔ ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے۔ پھر چوں کہ اس سارے بیان کا مقصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ہے ، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے۔ اس لئے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف ، ترہیب ، ترغیب اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگ اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آجائیں ۔( تفہیم القرآن جلد دوم ص 440)۔
خلاصہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے، طبع ذات دین ،من گھڑت معبودان کی بندگی وپرستش چھوڑ کر ایک خداے لا شریک کے، عبادت کی دعوت پیش کرتے ہوے اسی کام پر ایک طویل عرصہ مکہ میں گزارچکے ، لیکن مشرکین مکہ قرآن حکیم کی اس بنیادی دعوت کو صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ (نوع انسانی کی دنیا وآخرت بنانے کی طرف بلانے والی عظیم ہستی) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو معمورمن اللہ اور اپنے حق میں فائدہ مند نہ جانا بلکہ مخالفت کا کوئ موقع نہ چھوڑا ، حلاں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سارے بندوں کو ایک ایسی واضح تعلیم دے رہے تھے جو خود انہی کے لیے ہمیشہ کے نقصان سے بچانے والی دعوت ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کی لائی ہوئی تعلیم کے ذریعہ سارے بندے اپنے مالک کی ناشکری و نافرمانی کے انجام بد سے ڈر کر زندگی بسر کریں تو روز جزاء، اللہ کے آگے مجرم بن کر کھڑے رہنے سے بچ جا تے ہیں !!! ۔
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مخلصانہ طور پر عمل کرکے عنداللہ اچھی جزاء پاسکتے ہیں، اسی بات کی تیاری کروانے کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جدوجہد جاری رکھی لیکن لوگوں نے آپ کی قدر ناجانی بلکہ آپ کو تکلیفیں پہنچائ گئ
لہذا ان ناقدروں کو بتایا جارہاہے کہ اللہ پر ایمان لاکر اپنے برے اعمال سے توبہ کرو اور اطاعت کی روش و اعمال صالحہ اختیار کرو گے تو ایک مقررہ وقت تک اطمینان و سکون کی برکت والی زندگی بسر کر سکو گے! اور آخرت بھی کامیاب رہے گی۔
اس سورۃ کی آخری آیات میں یہ واضح کردیا کہ دیکھو ! آج جس دعوت حق کے مقابل جو کچھ بری چالیں چلی جارہی ہیں اس سے پہلے کےلوگ بھی اپنی سی چالیں چل چکے ظلم وجبر کے تیر استعمال کر چکے یعنی سب کچھ کوشیشیں کی جاچکیں!لہذا جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر رہے ہیں وہ خوب جان لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ تعالی کی طرف سے بیھجے ہوے بلاشک وشبہ رسول برحق ہیں اور آپسے پہلے جتنے بھی رسول گزرے ہیں یہی تعلیم لے کر آے تھے جو اب محمد رسول اللہ لے کر تشریف لا چکیں ہیں۔
موجودہ نوع انسان کو بھی اس میں یہ سب ہےکہ دوجہاں کا امن وسکون چاہیے تو بس اللہ پر ایمان لائے اس کی بھیجی ہوئی کتاب قرآن مجید کی قدر کی جاے، اور یہ مقدس کتاب جس پر نازل کی گئ ہے ان متبرک ہستی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا مخلص طور پر اقرار اورآپکی غزت وقدردانی کرے ٫ جس کے بغیر کامیابی کا تصور ناممکن ہے۔
مسئلہ فلسطین عالمی ضابطہ حیات کے پس منظر میں