سادگی بخل اور سخاوت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

Spread the love

سادگی بخل اور سخاوت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

تحریر: ڈاکٹر عقیل احمد

سی۔ ایم۔ بی۔ کالج ،گھوگھرڈیہا،مدھوبنی

بہاراسلام ایک معتدل اور متوازن دین ہے جو ہر معاملے میں میانہ روی اور حکمت کا درس دیتا ہے۔ سادگی کو پسند کیا گیا ہے

لیکن بخل کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ حقیقی سادگی وہی ہے جو اعتدال پر مبنی ہو، جہاں انسان اپنی ضروریات سے غفلت نہ برتے اور نہ ہی سخاوت و بھلائی سے کنارہ کش ہو۔

بعض لوگ سادگی کے نام پر بخل کو اختیار کر لیتے ہیں، جو نہ صرف ان کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی باعثِ پریشانی بن جاتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنے وسائل کو توازن کے ساتھ استعمال کریں، اپنی جائز ضروریات پوری کریں

اور دوسروں کے لیے خیر و بھلائی کا ذریعہ بنیں، کیونکہ یہی طرزِ عمل حقیقی سادگی اور کامیاب زندگی کی پہچان ہے۔اللہ عزوجل نے قرآن میں فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ كَانَ بَیۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ﴿سورۃ الفرقان، آیت۶۷﴾

ترجمہ:”اور جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں، بلکہ ان کا طریقہ اس ( افراط وتفریط) کے درمیان اعتدال کا طریقہ ہے۔”(آسان ترجمہ قرآن ،مفتی تقی عثمانی)سادگی، بخل اور سخاوت کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے، کیوں کہ اسلام میں سادگی کا مطلب محض کم وسائل میں جینا نہیں بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق جائز ضروریات پوری کرنا اور دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔

بخل ایسی صفت ہے جو انسان کو خود غرض اور معاشرے کو تنگدست بنا دیتی ہے، جبکہ سخاوت دل کی وسعت اور اللہ پر بھروسے کی علامت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “سخی اللہ کا محبوب، لوگوں کا محبوب اور جنت کے قریب ہوتا ہے، جب کہ بخیل اللہ سے دور، لوگوں سے دور اور جہنم کے قریب ہوتا ہے۔” (ترمذی)۔

اس مضمون میں ہم سادگی، بخل اور سخاوت کے درمیان فرق، ان کے اثرات اور اسلام کی روشنی میں بہترین طرزِ زندگی پر گفتگو کریں گے تاکہ ہم اپنی زندگی میں وہ اعتدال لا سکیں جو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ ہمارے معاشرے کے لیے بھی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ بعض افراد بظاہر سادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، لیکن درحقیقت وہ بخل کی انتہا پر ہوتے ہیں۔ نہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں، نہ دوسروں کے کام آتے ہیں، نہ اپنے گھر والوں کو آسانی فراہم کرتے ہیں، اور نہ ہی معاشرتی فلاح و بہبود میں حصہ لیتے ہیں۔

ان کے طرزِ عمل سے نہ صرف ان کے قریبی لوگ بلکہ پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ سادگی کے نام پر ایسا طرزِ زندگی جو دوسروں کے لیے تکلیف دہ ہو، درحقیقت دین کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اسلام ہمیں سادگی اور قناعت کی تعلیم دیتا ہے

لیکن بخل اور خود غرضی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ نبی کریم ﷺ خود سادہ زندگی بسر کرتے تھے، مگر جب کسی کو ضرورت ہوتی تو سخاوت سے دریغ نہ کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: “سب سے بہترین مال وہ ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔” (مسند احمد)۔ ایسا طرزِ زندگی جو نہ صرف اپنے قریبی لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرے بلکہ معاشرتی تنگی کا باعث بھی بنے، وہ دراصل زُہد نہیں بلکہ فطری تقاضوں اور اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

اسلام ہمیں اعتدال کا راستہ اپنانے کی تعلیم دیتا ہے، جہاں نہ اسراف ہو اور نہ بخل، بلکہ ایک متوازن طرزِ زندگی اختیار کیا جائے جو اپنے اور دوسروں کے لیے باعثِ راحت ہو۔سادگی اور بخل میں فرقسادگی ایک پسندیدہ اور متوازن صفت ہے

جس کا مطلب ہے کہ انسان فضول خرچی سے بچے، حلال و جائز طریقے سے زندگی گزارے، اور دوسروں کے لیے نفع بخش ہو۔ جبکہ بخل ایک ناپسندیدہ صفت ہے، جس میں انسان ضرورت کے وقت بھی خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے، دوسروں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور اپنی دولت کو جمع کرنے میں لگا رہتا ہے۔

ارشاد خداوندی ہے:وَلَا تَجۡعَلۡ یَدَكَ مَغۡلُولَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ۞(سورۃ الاسراء (بنی اسرائیل) آیت ٢٩)ترجمہ:اور نہ تو(ایسے کنجوس بنو) اپنے ہاتھ کو گردن سے بندھ کر رکھو، اور نہ(ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل بھی کھلا چھوڑ دو جس کے نتیجے میں تمہیں قابل ملامت اور قلاش ہوکر بیٹھنا پڑے ۔(آسان ترجمہ قرآن ،مفتی تقی عثمانی)یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اسلام میں نہ اسراف (فضول خرچی) کی اجازت ہے اور نہ بخل کی، بلکہ اعتدال کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ نے بخل کو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے اور قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا:وَلَا یَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ یَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَیۡرًا لَّهُمۡ ؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡ ؕ سَیُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ یَوۡمَ الۡقِیٰمَةِ ؕ وَ لِلّٰهِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿سورۃ آلِ عمران، آیت ۱۸۰﴾”اور جو لوگ بخل سے کام لیتے ہیں جو انہیں اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے، وہ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے۔ ، اس کے برعکس یہ ان کے حق میں بہت بری بات ہے۔ جس مال میں انہوں نے بخل سے کام لیا ہوگا

قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، اور سارے آسمان اور زمین کی میراث صرف اللہ ہی کے لیے ہے ، اورجو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے

۔”آسان ترجمہ قرآن ،مفتی تقی عثمانی ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “سخی اللہ کے قریب، جنت کے قریب، اور لوگوں کے قریب ہوتا ہے، جب کہ بخیل اللہ سے دور، جنت سے دور، اور لوگوں سے دور ہوتا ہے۔” (ترمذی)ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: “جنت میں بخیل داخل نہ ہوگا۔” (مسلم)

یہ احادیث واضح کرتی ہیں کہ بخل صرف دنیا میں ہی نقصان دہ نہیں بلکہ آخرت میں بھی پریشانی کا سبب بنے گا۔ سادگی کے نام پر بخل اختیار کرنے والے افراد اپنے فائدے کے لیے دوسروں کی ضروریات سے آنکھیں چراتے ہیں۔ وہ نہ خود اچھی زندگی گزارتے ہیں اور نہ اپنے قریبی لوگوں کو کوئی سہولت دیتے ہیں۔

ان کی بے حسی کی وجہ سے معاشرے میں ایک قسم کی سرد مہری پیدا ہو جاتی ہے اور باہمی ہمدردی کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔بخیل افراد مالی معاونت کے معاملے میں حد درجہ محتاط رہتے ہیں اور جہاں خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔

چاہے قریبی رشتہ دار یا دوست ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی دولت کو خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے اس رویے کی وجہ سے رفتہ رفتہ تعلقات میں دوری آ جاتی ہے، اور خاندان والے ان سے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ مالی معاملات میں بے حسی کے سبب وہ اپنے قریبی احباب اور رشتہ داروں سے دور ہو جاتے ہیں، اور یوں ایک محدود اور بے کیف زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بخل تقویٰ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دینِ اسلام سخی اور فیاض لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “تمہارا اپنے اوپر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔” (مسلم)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں خرچ کرنے کو محض دوسروں کی مدد تک محدود نہیں رکھا گیا بلکہ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا بھی ایک عبادت ہے۔جب لوگ بخل کرتے ہیں اور اپنا مال خرچ نہیں کرتے، تو اس کا براہِ راست اثر معیشت پر پڑتا ہے۔

دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے اور ضرورت مند افراد کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسلام ہمیں دولت کو سماج میں متحرک رکھنے اور اسے مفید کاموں میں لگانے کا درس دیتا ہے تاکہ پورا معاشرہ ترقی کرسکے اور خوشحالی آئے۔

اگر مال دار طبقہ صرف جمع کرنے میں لگا رہے اور خرچ نہ کرے، تو اس سے معاشرے میں غربت بڑھتی ہے اور اقتصادی ناہمواری پیدا ہوتی ہے۔بخل سے نجات کے لیے اسلامی تعلیماتاللہ کا ارشاد ہے : وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُو۟لَـٰئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ(سورہ الحشر، آیت٩)ترجمہ:”اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہو جائیں وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں”(آسان ترجمہ قرآن ،مفتی محمد تقی )سخاوت اور ایثار ایسی اعلیٰ صفات ہیں جو انسان کے دل کو کشادگی اور روح کو بالیدگی عطا کرتی ہیں۔

یہ عادت نہ صرف دوسروں کی ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ بنتی ہے بلکہ دل میں محبت، اخوت اور ہمدردی کے جذبات بھی پیدا کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “سخاوت جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے، اس کی شاخیں دنیا میں لٹکی ہوئی ہیں، جو اس شاخ کو پکڑتا ہے، وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔” (مسند احمد)

ایثار وہ عظیم صفت ہے جو انسان کے کردار کو بلند کرتی ہے اور اسے دوسروں کے لیے نفع بخش بناتی ہے۔ یہ صفت ہمیں خود غرضی سے نکال کر بے غرضی کی راہ پر گامزن کرتی ہے، جہاں اپنی ضروریات پر دوسروں کی حاجات کو فوقیت دینا ایک معمول بن جاتا ہے۔

قرآن کریم میں صحابہ کرامؓ کی اس صفت کی یوں تعریف کی گئی:وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سورہ الحشر، آیت٩)ترجمہ:(اور یہ مال فئی) ان لوگوں کا حق ہےجو پہلے ہی سے اس جگہ(یعنی مدینہ میں)ایمان کے ساتھ مقیم ہیں ،جو کوئی ان کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے

یہ اس سے محبت کرتے ہیں،اور جو کچھ ان(مہاجرین) کو دیا جاتا ہے ،یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے ،اور ان کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں ،چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گذر رہی ہو۔ (آسان ترجمہ قرآن، مفتی محمد تقی)

یہی وہ صفت ہے جو نبی کریم ﷺ اور ان کے اصحاب کی زندگیوں میں نمایاں تھی۔ غزوہ یرموک کے ایک واقعے میں تین شدید زخمی صحابیوں نے پانی مانگا، مگر جب پانی پہلے کو دیا گیا تو اس نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا، دوسرے نے تیسرے کی طرف، اور جب تیسرے کے پاس پہنچا تو وہ اپنی جان، اللہ کے سپرد کر چکا تھا۔

اس ایثار کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔اللہ پر بھروسہ اور اس کی ذات پر کامل یقین کامیابی کی بنیاد ہے۔ جو شخص ہر حال میں اللہ پر توکل رکھتا ہے، وہ زندگی کی مشکلات میں بھی پرسکون رہتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی تمام معاملات کا بہتر انتظام کرنے والا ہے۔

یہ بھروسہ اور ایمان و اعتقاد انسان کو بخل اور حرص سے بچاتا ہے اور سخاوت و ایثار جیسی خوبیاں پیدا کرتا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے صدقہ دیتا ہے، تو وہ گھاٹے کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: “صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں آتی۔” (مسلم)

بلکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس عطا کرتا ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھنے والے لوگ زندگی کے ہر پہلو میں کامیاب رہتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کر کے دل کا اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یہی یقین انہیں نڈر، مضبوط اور دوسروں کے لیے نفع بخش بناتا ہے۔زکوٰۃ اور صدقہ دینا نہ صرف مالی عبادت ہے بلکہ روحانی اور سماجی اصلاح کا بھی ذریعہ ہے۔

زکوٰۃ مال داروں پر فرض ہے اور بخل سے نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مال کو سماجی بہبود کے لیے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ غریبوں کی مدد ہو، دولت چند ہاتھوں میں محدود نہ رہے اور معاشرہ خوشحال اور متوازن بنے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:سورہ آلِ عمران، آیت 92 کا متن درج ذیل ہے:لَن تَنَالُوا ٱلۡبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيۡءٖ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٞ(سورہ آلِ عمران، آیت٩٢)ترجمہ:”تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک ان چیزوں میں سے (اللہ کے لیے)خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں۔

اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو ، اللہ اسے خوب جانتا ہے۔(آسان ترجمہ قرآن، مفتی محمد تقی)زکوٰۃ دینے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور یہ دل کی سختی کو ختم کر کے ایثار و ہمدردی کے جذبات پیدا کرتی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”صدقہ بلا کو ٹالتا ہے اور عمر میں برکت کا سبب بنتا ہے۔” (طبرانی)

اسلام فضول خرچی اور بخل دونوں سے منع کرتا ہے اور ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی ضروریات پر بھی متوازن انداز میں خرچ کریں اور دوسروں کی مدد میں بھی کوتاہی نہ کریں، کیونکہ حقیقی سادگی وہی ہے جس میں اعتدال ہو اور جو دوسروں کے لیے باعثِ تکلیف نہ بنے۔

جو لوگ سادگی کے نام پر بخل کو اپناتے ہیں، وہ دین کی اصل روح سے ناواقف ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔” (بخاری)۔ ہمیں اپنے مال، وقت اور علم کو صحیح جگہ خرچ کرنے کی عادت اپنانی چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔

بخل ایک ایسی معاشرتی بیماری ہے جو نہ صرف انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے بلکہ معاشرے میں محرومی اور ناانصافی کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس کے برعکس، سخاوت اور میانہ روی ایک خوبصورت، پُرسکون اور خوشحال زندگی کی ضمانت ہیں۔

اسلام نے ہمیں نہ صرف اپنی ذات پر بلکہ دوسروں پر بھی خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے تاکہ ایک ایسا متوازن اور ہم آہنگ معاشرہ وجود میں آئے جہاں ہر شخص بھلائی میں حصہ لے اور ضرورت مندوں کی مدد کو اپنی سعادت سمجھے۔

اگر ہم حقیقی کامیابی چاہتے ہیں، تو ہمیں بخل اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے سخاوت اور اعتدال کی راہ اپنانی ہوگی، کیونکہ یہی طرزِ زندگی نہ صرف دنیا میں سکون اور عزت کا باعث ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کا ذریعہ ہے۔

Leave a reply

  • Default Comments (0)
  • Facebook Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *