مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ

Spread the love

مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ ! انقلاب سنڈے میگزین کے خصوصی کالم پر قلم برداشتہ کچھ سطریں :

معمول کےمطابق آج بھی انقلاب اخبار خرید کر پڑھ رہا تھا کہ نظر پڑی خصوصی سنڈے کالم پر، کئی سالوں سے انقلاب سمیت کئی اخباروں کا قاری ہوں، اخبار پڑھنا ہمارے گھر کی روایت ہے، والدِ محترم صرف انقلاب اور اب ممبئی اردو نیوز بھی پڑھا کرتے ہیں

پھر جب ہمارے بڑے بھائی صاحب پڑھنے لگے تو انقلاب کےساتھ ساتھ انڈین ایکسپریس، دی۔ہندو، ٹائمز، وغیرہ بھی پڑھا جانے لگا اور میں بھی پڑھ لیتا ہوں جب گھر پر ہوتا ہوں، اخبار پڑھنا ہمارے گھر کے ناقابلِ تبدیل معمول کی طرح ہے اگر کسی دن اخبار نہ آئے تو ہماری والدہ خود صبح صبح اخبار خریدنے نکل پڑتی ہیں، برسوں سے روزانہ شاہد لطیف صاحب کا تازگی بخش اداریہ پڑھنے کا معمول تو گھر میں ہے ہی، نادر کا فکر انگیز ” خود سوچ لو” بھی دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے

ایسے ہی شمیم طارق صاحب، آکار پٹیل، بھرت جھنجھن والا، پرویز حفیظ، اظہر مرزا، عاصم جلال، مبشر، مبارک کاپڑی کا راہ نما کالم، پروفیسر سید اقبال کا سائنسی کالم، خالد شیخ، جمال رضوی، پروفیسر مشتاق، اعجاز ذکاء سید ایسے حضرات کے کالم امی اور ابا پہلے خود جیسے تیسے پڑھ لیتے تھے

 

لیکن اب پڑھ کر سنانے کی ڈیوٹی ہم لوگوں پر عائد ہوچکی ہے، اس کےعلاوہ سعید احمد اور عبدالحئی صاحبان کی رپورٹنگ کو بھی خاص طور نوٹ کیا جاتاہے، سنڈے میگزین اور جمعہ میگزین کے خصوصی کالمز کا انتظار ہوتا ہے جس میں سعادت خان کا گوشہء بزرگان اور حمزہ فضل کا کالم گاؤں کی باتیں شوق اور ذوق سے پڑھا جاتا ہے

ہمارے والدین کی دلچسپی کے طفیل گھر کے دیگر افراد بھی انہیں پڑھ لیتے ہیں اور ذوق بھی منتقل ہوچکاہے، ان اشاعتوں کےعلاوہ میں، ھمہ رنگ، معاشیات اور ادب و ثقافت کو خاص طورپر پڑھتا ہوں، ان حضرات کےعلاوہ شکیل رشید صاحب کا کالم پڑھنے کے لیے ممبئی اردو نیوز کی بھی خریداری ہوتی ہے اور ہر ہفتہ ہمارے یہاں سے شائع ہونے والا کوکن کی آواز،

ہمارے موجودہ عہد کی بدقسمتی یہ ہےکہ کتابوں کےساتھ ساتھ اخبار خرید کر پڑھنے کی تہذیب ختم ہورہی ہے، جی ہاں یہ تہذیب ہے اور اخبار والے درحقیقت ” تہذیب والے ” ہوتےہیں ان کا شکرگزار ہوناچاہیے، اس لیے برجستہ جذبہء شکرگزاری اور اعتراف کے طورپر یادداشت کے سہارے یہ سطریں وجود میں آگئیں،

صحیح، شعوری، فکری اور معلوماتی اخبار کی اس تہذیب سے وابستہ رہنے کا کیا فائدہ ہوتاہے اور اس کو زندہ رکھنے میں حکمتیں پوشیدہ ہیں اس کو وہی سمجھ سکتاہے جو اس تہذیب سے آج بھی مربوط ہے۔ مسلسل پڑھتے رہنے والا انسان کبھی مایوس نہیں ہوتا ہر نئی سطر اسے ارتقاء کے نئے منازل کا خوشگوار سفر کراتی ہے، مجھے یقین ہے کہ ایک دن وہ ضرور آئےگا جب یہ دنیا مشینی زندگیوں سے بھاگ کر مٹی اور کاغذ کی آغوش میں لوٹے گی، کہ یہی اس کی اصل فطرت ہے۔

خیر بات بہت لمبی ہوگئی، مجھے تبصرہ کرنا تھا آج کے سنڈے میگزین پر، جسے صحافی قطب الدین شاہد نے نہایت سلیقے سے مرتب کیا ہے، عنوان ہے، ” ملک کے موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمانوں کا لائحہ عمل کیا؟ ” اس کےتحت کئی ایک مفید اور قیمتی مشورے ہیں لیکن بعض باتوں سے جن کا رخ یکطرفہ مسلم نوجوانوں پر ان باتوں سے اختلاف ہے،

یہ جتنے بڑے حضرات صبح شام مسلم نوجوانوں کو نصیحتیں کرتےہیں یہ اپنی عملی زندگی کے تقریباﹰ پچاس پچاس سال گزار چکے ہیں، انہوں نے جس بھارت کی تعمیر کی وہی آج کے مسلم نوجوانوں کو ملا ہے، آزادی کےبعد سے اب تک اس ملک کے مسلمانوں کی ملّی اور سیاسی کمان جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی وہ کس رخ پر تھے؟

ان کی کارگزاریوں کے نتیجے میں 2020 کی نسل کو ملنے والے بھارت میں اگر مسلم نوجوان گھٹن کا شکار ہے تو کیا اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا احتساب کرنے کی اور نتائج کے اعتراف کی ضرورت نہیں ہے؟ ہر ہندوتوا واقعے اور ظلم و ستم کے سنگھی ایپی۔سوڈ کےبعد مسلم نوجوانوں پر ہی نصیحتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے،

مسلم نوجوان آج کے بھارتی اسٹریم میں کس گھٹن اور ذہنی کرب کا شکار ہے کیا اس کا اندازہ ہے آپکو؟ ظالموں کو آڑے ہاتھوں لینے کی بجائے یکطرفہ مظلوموں پر نصیحتوں کے پہاڑ توڑنا کہاں کا انصاف ہے؟

حکمت و دانش کی باتوں اور راہ نمائی سے کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن موجودہ حالات میں صرف نوجوانوں کو مظاہروں اور ظلم کےخلاف ردعمل سے روکنے کی کوششوں کا اس کےعلاوہ کوئی مطلب نہیں کہ آپ انہیں ظلم پر برداشت سکھانا چاہتےہیں، ظلم برداشت کرنے والی قوم ذہنی غلامی میں مبتلاء ہوجاتی ہے اس کا ارتقائی سفر ممکن ہی نہیں ہے، اس رُخ پر کی جانے والی نصیحتیں امانت داری کےخلاف ہیں، مظلوموں کو سبق پڑھاتے رہنا ظالموں کے تکبر میں اضافے کا سبب ہوتاہے ۔

جوابدہی طے کیے بغیر کس بنیاد پر ہم آگے بڑھیں؟ ملت کے وسائل جن کےپاس تھے وہ پچاس سالوں تک کیا کرتے رہے کہ آج ہماری کہیں بھی شنوائی تک نہیں ہے، اجنبیوں سے بھی زیادہ اجنبی کےطور پر معاملہ ہورہاہے ہمارے ساتھ، ایک خاص پارٹی کے گویا خاندانی دشمن سمجھے جارہےہیں، اور جس خاص پارٹی کا بوجھ اٹھائے پھرتے رہے وہ پہچاننے کو تیار نہیں، سیاسی یتیمی کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ کون ذمہ داری لےگا؟ جن لوگوں کے پاس ملت کے انسٹیٹیوٹ تھے، جن کے ہاتھوں میں کمان تھی اُنہوں نے اپنی ماضی کی ذمہ داریوں سے انصاف کیا؟ اور کیا حال میں ان کا رخ منصفانہ ہے؟ اس سوال کا اعلیٰ سطحی واضح جواب ملنے سے پہلے نوجوانوں پر نصیحتیں وقت گزاری تو ہو سکتی ہیں تعمیرِ جہاں ہرگزنہیں ۔

عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو

تری نگہ سے پوشیدہ ہے آدمی کا مقام

تری نماز میں باقی جلال نہ جمال

تری اذاں میں نہیں ہے سحرکا پیام

ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج

صوفی و ملّا ملوکیت کے بندے ہیں تمام

✍️: سمیع اللہ خان

ksamikhann@gmail.com

15 thoughts on “مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *