روزگار کی فراہمی حکومت ناکام

Spread the love

پی چدمبرم ( سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس۔ روزگار کی فراہمی حکومت ناکام

) ملک میں بڑھتی بیروز گاری اور اس کے خطرناک رجحان میں مسلسل اضافہ سے متعلق راقم نے متعد د مضامین لکھے جس کا مقصد حکومت کو جو اس سلسلے میں خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے، بیدار کرنا تھا اور چناں چہ حکومت نے میرا کالم ( جو انڈین ایکسپریس“ کی اشاعت مورخہ 22 فروری میں شائع ہوا ہے ) پڑھ کر ایک طرح سے میرے دلائل کو سلیم کیا ہے ۔

اور بالآخر بڑھتی بیروز گاری کی حقیقت کے بارے میں جان کر بیدار ہوئی اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ مرکزی حکومت نے اعلان کیا کہ 10 لاکھ مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتیاں کی جائیں گی۔

اگر دیکھا جائے تو ملک میں ہر خاندان ملازمتوں و روزگار کے فقدان سے متاثر ہے ۔ ملک میں ملازمتیں اور روز گار نہیں ہے اور خاص طور پر کووڈ ۔ 19 کے بعد سے تو اس معاملے میں ہمارا برا حال ہے جب کہ سال 2021-22 کوڈ 19 کے معاشی اثرات سے ابھر آنے کا سال رہا تاہم اب بھی ہم پوری طرح سنبھل نہیں پاۓ ہیں ۔

بیروز گاری کے ساتھ ساتھ مہنگائی نے ہر ہندوستانی کی کمر توڑ رکھی ہے اور آج یہ حال ہوگیا کہ ہندوستان کو جن بڑے چیلنجر کا سامنا ہے ۔اس میں بیروز گاری سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2014ء کے لوک سبھا انتخابات میں مسٹر نریندرمودی نے جنہیں بی جے پی نے عہدہ وزارت کے لیے اپنا امیدوار بنایا تھا، عوام سے بلند بانگ وعدے کئے، ایسے وعدے جو ان کی دوسری میعاد میں یا حکومت کے 8 سال کی تکمیل کے باوجو د وفا نہ ہو سکے ۔

مودی نے وعدہ کیا تھا کہ اگر بی جے پی حکومت بناتی ہے تو ہر سال 2 کروڑ ملازمتیں فراہم کی جائیں گی ۔ مودی کے اس وعدہ کے بعد لوگوں میں ایک نئی امید جاگی تھی اور وہ سوچنے لگے تھے کہ بیروز گاروں کو اب روزگار ملے گا، ملازمتیں حاصل ہوں گی لیکن ان کی آواز میں اندھے بھکتوں کے ڈھول کی تھاپ میں کہیں دب کر رہ گئیں۔

بھکتوں نے مودی کے تمام وعدوں کو ایک طرح سے نگل لیا۔ باالفاظ دیگر ہضم کر لیا۔ حد تو یہ ہے کہ بھکتوں کو مودی کا وہ وعدہ بھی یاد نہیں رہا جس میں انہوں نے پرزور انداز میں کہا تھا کہ بیرونی ملکوں کے بینکوں میں جمع کر کےرکھی گئی بلیک منی ( کالا دن ) ملک واپس لایا جائے گا اور ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کرائے جائیں گے، مجھے شبہ ہے کسی نے اس وعدہ کا حساب کتاب کیا ہو گا یا نہیں۔

بہر حال 2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو کام یابی حاصل ہوئی اور اس نے مرکز میں حکومت تشکیل دی جس کے بعد سالانہ 2 کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے اور ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کروانے سے متعلق وعدوں کے بارے میں تمام باتیں بند کر دی گئیں۔ ویسے بھی عوام عام طور پر ہر چیز فراموش اور معاف بھی کر دیتے ہیں حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی سالانہ 2 کروڑ ملازمتوں کی فراہمی اور بیرونی ملکوں کی بینکوں میں جمع کالادھن واپس لانے کے وعدوں کو پورا کرنے کی بجائے مودی حکومت یو پی اے کی شروع کردہ اسکیمات کے نام تبدیل کرنے میں مصروف ہوگئی۔ یہاں تک کہ اس نے یو پی اے کی ہر اسکیم کو اپنی اسکیم قرار دینا شروع کر دیا ۔

مثال کے طور پر MGNREGA اسکیم غریبوں کو روز گار فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی لیکن مودی حکومت نے اس کی مذمت اور برائی شروع کر دی چوں کہ حکومت اس کی متبادل اسکیم ایجاد نہیں کرسکتی تھی، اس لیے مجبوراً MGNREGA کو برقرار رکھا گیا۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ، بیروزگاری کا مسئلہ پیدا ہوا اور وقت کے گذرنے کے ساتھ بیروزگاری کے مسئلہ نے ابتر شکل اختیار کرلی ۔ آپ کو بتادوں کہ عالمی سطح پر دو پیمانے ہوتے ہیں ۔ پہلا پیمانہ جملہ افرادی قوت ہے اور دوسرا پیمانہ افرادی قوت کی شرح شرکت (LFPR) ہے۔

یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندوستان میں 430 ملین لیبر فورس یا افرادی قوت پائی جاتی ہے ۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ LFPR اس جملہ لیبر فورس کا متناسب ہے جو سر دست ملازم ہیں یا ملازمتوں اور روزگار کی تلاش میں ہیں۔ اس کا فیصد مئی 2022ء میں 13.42 تھا۔(CMIE ذریعہ ) جو ساری دنیا میں ایک بدترین فیصد ہے (امریکہ میں یہ فیصد 63% ہے اسی ایم ای آئی نے جو

حساب کتاب لگایا ہے کہ لاکھوں مزدوروں نے لیبر مارکٹوں کو چھوڑ دیا اور یہاں تک کہ ملازمتوں کی تلاش بھی روک دی اور امکانی طور پر ایک روز گار اور ملازمت حاصل کرنے میں ناکامی کے باعث مایوسی کا شکار ہوئے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ مارکٹ میں کوئی روز گار اور ملازمتیں دستیاب نہیں ہیں ۔ حالیہ عرصہ کے دوران جس ڈاٹا کا انکشاف ہوا ہے، اس کے مطابق جن خاندانوں نے روزگار کے حامل تھے،ان کافیصد 8.7 ٪ رہا جب کہ ایسے خاندان یا گھر جس میں ایک ملازم ہے، ایسے گھر 0.%  68 ہے۔ ایسے گھر جن کے دو یا دو سے زائد افراد ملازم ہے، ان کا فیصد 2.24 ہے۔ اس کے علاوہ  % 20 ایسے ہیں جوتنخواہوں کے حامل جابس ہیں ۔ 50 بر خود کے کاروبار سے منسلک ہیں اور مابقی یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں ۔

جون 2021ء میں سی ایم آئی اس کے کنزیومر پیرامنڈس ہاؤز ہولڈ سروے کے مطابق متوسط گھرانہ کی ماہانہ آمدنی  ,15000 روپے تھی جب کہ ان کا خرچ , 000  11 روپے بتایا گیا۔ اس قسم  کی تباہ کن لیبر مارکٹ میں جبکہ خاندان میں موجود واحد کمائی کرنے والا فرد یا خاتون روز گار سے محروم ہوئی جیسا کہ کورونا وباء سے متاثر سال میں ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خاندان مایوسی اور غربت کے دل دل میں دھنس گیا۔ غریب لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ڈاٹا میں بتایا گیا کہ ناقص غذا اور بھوک کی شرح میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔

2014ء سے اب تک 8 سال کا گذر چکا ہے ۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ روز گار سے محروم ہوئے ۔ چند سو روز گار کے مواقع پیدا کیے گئے LFPR میں گراوٹ آئی اور بیروز گاری میں اضافہ ہوا۔ ہم روتے رہے لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور اس نے اقدامات کرنے کی بجاۓ مشکوک اعداد وشمار میں پناہ لی۔ ایک مرحلہ پر پکوڑے فروخت کرنے کا مشورہ تک دیا گیا اور اسے بھی روز گار میں شامل کر دیا گیا۔ راقم نے 22 فروری 2022 ءکو جو کالم لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ روز گار اور ملازمتوں کو چھپا دیا گیا

-4 حکومت دستاویزات کے مطابق حکومت میں 000,65,34 منظورہ جائیدادیں ہیں۔ مارچ 2020 ءتک 243,72,8 مخلوعہ جائیدادیں تھیں جن میں سے 146,56,7 گروپ  کی جائیداد میں تھیں ( ذریعہ : ‘دی ہندو سماج کا ہر طبقہ اس سے متاثر ہوا اور ایس سی ، ایس ٹی سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ اگر پچھلے 18 ماہ میں 10 لاکھ افراد کی بھرتیاں کی جاتی ہے تو اسے یقینا اچھا آغاز کیا جاسکتا ہے لیکن پہلے ہی سے اس طرح کی جن جائیدادوں کی نشاندہی کی گئی ، ان 10 لاکھ میں سے 243,728 کو نکال دیا جاۓ تو صرف 757,27,1 جائیداد میں مخلوعہ رہتی ہیں ۔ اس ضمن میں حکومت کو بہت کچھ کرنا ہے ۔

ملک میں ایسے لاکھوں ملازمتیں میں جن کی نشاندہی کی جانی باقی ہے یا انہیں دریافت کرنا یا ان کی تخلیق باقی ہے، جیسے کہ اساتذہ کی جائیداد میں محققین کی جائیداد میں، لائبریرین کی جائیداد میں کھیل کود کے کوچس ، ٹرینرس، فزیوتھراپی، کونسلوں، اکٹروں، نرسیس، نیم طبی عملہ، لیاب پیشین، حفظان صحت اور کنزروینسی ورکرس ،سٹی پلانرس، مس ، زرعی عہد یدار، فوڈ پروسیسری، ماہر افزائش و مویشیان اور ماہی گیروں کی مخلوعہ جائیدادیں۔

ویسی بھی ترقی پذیر ملک میں بنیادی’ملازمتیں ہیں لیکن ایسالگتا ہے کہ حکومت روز گار کے ان مواقع سے بے خبر ہے ۔ ایک بات ضرور ہے کہ سرکاری ملازمتوں کو چھوڑ کر ملک کے نجی شعبہ میں خاص طور پر سمندروں دریا ، ندیوں اور آبی ذخائر کے ساتھ ساتھ ڈرائی لینڈ اگریکلچر کے شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے ہیں ۔

اگر ان شعبوں پر جزوی طور پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تو روز گار کے لاکھوں مواقع یا ملازمتیں پیدا کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر پیٹل ٹرانسپورٹ لیجئے ،7.24 فیصد گھرانوں میں ذاتی کار یا موٹر بائیک یا سائیکل نہیں ہے۔ گھریلو ساز و سامان کے شعبہ پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے۔

صرف 24 ٪ گھرانوں میں ایرکنڈیشنر یا ایر کولر پاۓ جاتے ہیں۔ ان اشیاء کو واجبی قیمتوں پر لاکھوں گھرانوں کو سر براہ کرتے ہوۓ ملک میں مینوفیکچرنگ گنجائش کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ان شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا کر کے لاکھوں زندگیاں خوشگوار بنائی جاسکتی ہیں ۔اس کیلئے روز گار پر مودی حکومت کی سب سے زیادہ توجہ ہونی چاہئے تھی لیکن اس نے 8 سال ضائع کر دیئے اس نے روز گار کے مواقع پیدا کرنے کی بجائے ملک کے عوام کو تقسیم کر کے سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کی جس نے نتیجہ میں ہندوستان کو معاشی نقصان بھی ہوا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *