باون گز کا قاتل

Spread the love

تحریر : ودود ساجد :: 52 باون گز کا قاتل (انقلاب میں شائع ہفتہ وار کالم رد عمل)

سری لنکا کے حالات خود ان سری لنکائیوں کے لیے غیر متوقع ہیں جو اپنے ملک کو ’غیر بودھوں‘ سے پاک کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے یہ نشانہ حاصل کرنے کی صلاحیت دیکھ کر ہی راجا پاکسا خاندان کو ملک کی باگ ڈور تھمائی تھی۔

انہیں یقین تھا کہ سری لنکا کی اقتصادی بدحالی کو خوش حالی میں بدلنے کی ’سفاکانہ صلاحیت‘ بھی گوٹابیا یا پاکسا خاندان کے اندر ہی ہے۔ یہ ملک نیم جمہو ری ہے۔ یہاں وزیر اعظم توہوتا ہے لیکن حکومت کا سربراہ صدر ہی ہوتا ہے

صدر ہی وزیر اعظم اور کابینہ کے مشوروں سے’اختیارات عاملہ‘ کا استعمال کرتے ہوئے فیصلے کرتا ہے۔

جس وقت سری لنکائی عوام پاکسا خاندان کو منتخب کر رہے تھے ان کے سامنے اس خاندان کا اور خاص طور پر ’گوٹابیا راجا پاکسا‘ کا ماضی اپنی کریہہ شکل کے ساتھ موجود تھا۔انہیں علم تھا کہ یہی شخص ہزاروں شہریوں کو گھیر کر ان پر بمباری کرکے موت کے گھاٹ اتارنے کا ذمہ دار ہے۔۔ بین الاقوامی سطح پر گوٹابیا کی بدنامی کے باوجود ووٹروں نے انہیں منتخب کیا۔

گوٹابیا 2009 میں جب ڈیفنس سیکریٹری تھے تو انہوں نے پہلے تو ہزاروں تملوں کو امان دینے کے وعدہ پر ’نوفائر‘ زون میں دھکیلا اور پھر دھوکہ سے 40 ہزار لوگوں کو گیس سے گھونٹ کر اور بمباری کرکے ماردیا۔

اس وقت ان کے بھائی مہندا راجا پاکسا صدر تھے۔ اسی دوران انہوں نے ایل ٹی ٹی اے کے لیڈر وی پربھاکرن کو بھی ماردیا تھا۔پاکسا خاندان نے سری لنکا کو ذاتی ملکیت میں بدل کر رکھ دیا تھا اوراس وقت بھی اس کے 12ممبران ہی حکومت چلارہے تھے۔ سری لنکا ایک عرصہ تک ’لبریشن ٹائیگرس آف تمل ایلم‘ یا ایل ٹی ٹی ای نامی تنظیم کی خونی دہشت کا شکار رہا ہے۔

ایل ٹی ٹی ای شمال مشرقی سری لنکا میں قائم تھی۔اس کا دعوی تھا کہ وہ 17 فیصد تمل ہندئوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے۔

یہ تنظیم شمال مشرقی سری لنکا میں تملوں کیلئے ایک الگ ریاست ’تمل ایلم‘ قائم کرنا چاہتی تھی۔اس تمل قوم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں انگریز اپنے چائے کے باغات میں محنت مزدوری کرانے کیلئے ہندوستان سے لائے تھے۔ان کا الزام تھا کہ سری لنکا کی اکثریتی آبادی اور خود حکومت ان کے ساتھ ناانصافی کرتی رہی ہے۔

تملوں اور (اکثریتی آبادی) بودھوں کے درمیان ہمیشہ کشمکش رہی۔اس کشمکش کا سبب لسانی اور ثقافتی فرق بھی تھا۔ تمل ہندو سری لنکائی لہجہ میں تمل زبان بولتے ہیں اور بودھ زیادہ تر سنہالی زبان بولتے ہیں۔

سری لنکا کے بودھ اپنی زبان کے تئیں اتنے متعصب ہیں کہ پارلیمنٹ میں سرکاری زبان کے ایکٹ (1956کی شق 33) کے مطابق یہ قانون پاس کردیا گیا تھا کہ سیلون (سری لنکا کا پہلا نام) میں انگریزی کی بجائے صرف سنہالی زبان ہی بولی جائے گی۔

اس کے بعد تملوں کابڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔تمل سینٹر فار ہیومن رائٹس کے مطابق 1983 سے 2004 تک دو لاکھ سے زیادہ عام تمل مارے گئے یا لاپتہ ہوگئے‘ جبکہ 50 ہزار جنگجو بھی ہلاک ہوئے۔ 1987 میں حکومت ہند کے دبائو کے تحت سری لنکا نے زبان کے ایکٹ میں ترمیم کی اور سنہالی کو پہلی سرکاری زبان‘ تمل کو دوسری اور انگریزی کو رابطہ کی زبان قرار دیا گیا۔لیکن اس وقت تک زبان اور ثقافت کی بنیاد پر نفرت کا درخت تناور ہوچکا تھا۔

راجیوگاندھی کے زمانے میں سری لنکا میں ہندوستان نے امن بردار فوج بھیجی تھی۔اس پر تمل ٹائیگرس ناراض تھے۔سری لنکا کے دورہ کے دوران جب راجیو گاندھی ’گارڈ آف آنر‘ کا معاینہ کر رہے تھے ان پر ایک ناراض سپاہی نے بندوق کی بٹ سے حملہ کیا تھا۔پھر تامل ناڈو کے سری پیرمبدور میں ان پر خود کش حملہ کرکے تمل دہشت گردوں نے انہیں ہلاک کردیا تھا۔

تمل ٹائیگرس کو یہ بھی شبہ تھا کہ سری لنکا کے مسلمان ان کی مخبری کرتے ہیں اور ان کے مخالف ہیں۔جبکہ دوسری طرف سری لنکا کے بودھوں کی تنظیم ’بودو بالا سینا‘ بھی مسلمانوں سے نفرت کرتی تھی۔اس طرح دس فیصد کے آس پاس سری لنکائی مسلمان چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس گئے۔ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان شمال مشرقی سری لنکا کے مختلف علاقوں سے اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

حالاں کہ بعد میں ایل ٹی ٹی اے کے لیڈر ویلو پلی پربھاکرن نے مسلمانوں سے یہ کہہ کر معافی مانگ لی تھی کہ مسلمانوں کو باہر نکالنے کی مہم ہماری بہت بڑی سیاسی غلطی تھی۔لیکن بودھوں نے مسلمانوں سے نفرت کا کھیل جاری رکھا۔۔ گوٹابیا کے آنے کے بعد مسلم مخالف مہم میں حکومت بھی شامل ہوگئی۔3 اگست 1990 کو ’کٹن کوڑی‘ کی مسجد میں جب تین سو لوگ عشاء کی نماز میں مصروف تھے 30 مسلح دہشت گردوں نے اندھا دھند گولیاں برساکر 147 مسلمانوں کو شہید کردیا تھا۔

 

حکومت‘ عینی شاہدین اور بچ جانے والوں نے تمل ٹائیگرس کو مورد الزام قرار دیا تھا لیکن خود ایل ٹی ٹی ای نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ یہ کام بودو بالا سینا کا ہے۔

2012 کی مردم شماری کے مطابق سری لنکا میں 20 لاکھ مسلمان ہیں۔جبکہ تملوں کی تعداد 30 لاکھ ہے۔ ان میں سری لنکن‘ انڈین اور مورس تمل شامل ہیں۔1981میں مسلمانوں کے ایک دانشور گروپ نے سری لنکن مسلم کانگریس قائم کی تھی۔یہ ایک سیاسی پارٹی تھی اور اس کا منشور ہر مکتب فکر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہر سری لنکائی کی فلاح کیلئے کام کرنا تھا۔

اس گروپ نے اکثریتی آبادی ’بودھوں‘ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ 21 ویں صدی کے سری لنکا کی تعمیر وترقی میں مسلمان بھی برابر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے قائد ایم ایم ایچ اشرف تھے۔حالانکہ اس جماعت کے قیام سے پہلے سے بھی کچھ مسلمان سیاست میں متحرک تھے۔ایم اے بکیر مارکر1977سے 1983 تک پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر رہے۔ مسلمانوں کی ایک اور پارٹی ’مسلم نیشنل الائنس ‘ قائم ہوئی۔نویں پارلیمنٹ میں دونوں مسلم جماعتوں کا ایک ایک ممبر جیت کر پہنچا تھا۔لیکن بودو بالا سینا نے مسلسل نفرت بھری مہم چلائی اور مسلمانوں کیلئے سیاسی مہم میں حصہ لینا مشکل ہوگیا۔

اس کے باوجود وہاں مسلمان اپنے دین و مذہب پر قائم اور عامل رہے۔ سری لنکا میں سرکاری طور پر دینی مدارس کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا لیکن وہاں 200 سے زائد مدارس کے ساتھ ساتھ 800 کے قریب مسلم اسکول بھی قائم تھے۔اس کے علاوہ بیرووالا میں ایک اسلامک یونیورسٹی بھی کام کر رہی تھی۔ 13 مارچ 2021 کو راجا پاکسا انتظامیہ نے مسلم خواتین کے برقعہ اوڑھنے اور ایک ہزار سے زیادہ مدارس اور اسکولوں پر پابندی کا اعلان کردیا۔

یہی نہیں برقعہ اور مدارس کے خلاف متنازعہ انسداد دہشت گردی قانون (پی ٹی اے) کے استعمال کا بھی اعلان کردیا۔پی ٹی اے کو حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک خوفناک سیاہ قانون قرار دیتی ہیں۔ اتفاق یہ ہے کہ یہ قانون بھی ہندوستان کے یو اے پی اے کی طرح ہے جو ملزم کو دوسال تک انصاف طلبی کے حق سے محروم رکھتا ہے۔اس قانون کے تحت پولیس کسی کو بھی مشتبہ بتاکر گرفتار کرکے جیل میں ڈال سکتی ہے۔

نومبر 2019 میں جب گوٹابیا نے الیکشن لڑا تھا تو ملک سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ’انتہاپسندوں‘ کی جڑ پر حملہ کرکے انہیں مٹادیں گے۔سری لنکا کے بودھوں کو ان کی یہ ادا پسند آئی تھی۔

نہیں معلوم کہ تمل ہندئوں نے کیا رویہ اختیار کیا لیکن اپریل 2019 میں ایسٹر کے موقع پر مبینہ طور پر آئی ایس آئی ایس کی دہشت گردانہ بمباری کے بعد سری لنکا کے مسلمانوں سے نفرت میں قومی سطح پر اضافہ ہوگیا تھا۔ یہ نفرت اس وقت عروج پر پہنچی جب کورونا کے دوران وفات پاجانے والے مسلمانوں کو قبرستان میں یہ کہہ کردفن ہونے نہیں دیا گیا کہ اس سے زیر زمین پانی خراب ہوگا۔

ایسی اموات کیلئے ’نذرآتش‘ کرنے کو لازمی قرار دیدیا گیا۔یہاں تک کہ محض 20 دن کے ایک نوزائیدہ بچے کو بھی نذر آتش کرنے پر مجبور کیا گیا جو مشتبہ طور پر کورونا ٹیسٹ ہونے کے بعد مرگیا تھا۔پولیس نے مسلم علاقوں میں ایک خوفناک مہم چلاکر اس امر کو یقینی بنایا کہ کورونا سے مرنے والے مسلمانوں کی لاشیں جلائی جائیں۔

حقوق انسانی کے عالمی اداروں اور اقوام متحدہ کے دبائو کے بعد کچھ ہی دن پہلے حکومت نے اس متنازعہ حکم کو واپس لیا۔ کولمبو سے انڈین ایکسپریس کے صحافی شبھاجیت رائے نے لکھا ہے کہ گوٹابیا اور مہندا مسلسل ’سنہالافخر‘ کی مہم کو آگے بڑھاتے رہے جس سے بودو بالا سینا کو مسلمانوں کے خلاف تشدد برپا کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔ 2009 میں جس وقت گوٹابیا نے ایل ٹی ٹی ای کے لیڈر وی پربھاکرن کو ہیبت ناک طور پر ہلاک کیا تھا دانش علی کی عمر 18سال تھی۔

دانش کا کہنا ہے کہ گوٹابیا کو اس وقت ہر سری لنکائی ہیرو مان رہا تھا۔ لیکن میں اور میرے اہل خانہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ گوٹابیا ایک نسل پرست ہے جو اقلیتی مسلمانوں پر اکثریتی سنہالا کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ دانش علی اعلی تعلیم کیلئے آسٹریلیا چلے گئے تھے۔آج ان کی عمر 31 سال ہے اوراس وقت وہ ’ارگلایا‘ مہم کا نمایاں چہرہ ہیں۔

دراصل سری لنکا کے عوام کی یہی وہ متحدہ مہم ہے جس نے پاکسا خاندان کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کردیا۔گوٹابیا نے اپنے مخالفوں کو ہی نہیں بلکہ نکتہ چینوں تک کو اپنے آہنی ہاتھوں سے خاموش کردیا۔ایسے تمام صحافیوں کو ’سفید وین‘ کے ذریعہ اغوا کرکے ٹھکانے لگادیا جنہوں نے گوٹابیا پر تنقید کرنے کی جرات کی۔ سفید وین کا واقعہ بہت مشہور ہے۔

اس میں ’سنڈے لیڈر‘ کے ایڈیٹر ’لتھانسا وکرما تنگے‘ کو 2009 میں ہلاک کردیا گیا تھا۔28 سالہ فائنانسر’سنکاجیا سیکرے‘ کا کہنا ہے کہ گوٹابیا کو اس کے ’اعمال بد‘ نے زمین دوز کردیا۔اس نے کہا کہ یہ المیہ ہی ہے کہ جس لیڈر نے ’سنہالا فخر‘ کے نام پر سری لنکا کے عوام کو آپس میں بانٹ دیا تھا آج انہی عوام کے اتحاد کے سبب وہ روبہ زوال ہوگیا۔

’گوٹابیا کہانی‘ کا ایک پہلو سری لنکا کی معیشت کا ڈوب جانا بھی ہے۔

لوگ ’سنہالافخر‘ کا نشہ کرکے مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کا کھیل کھیلتے رہے اور گوٹابیا چین اور ہندوستان سے قرض در قرض لے کر’سری لنکا کی تعمیر‘ کے نام پر اپنے خاندان کی تجوریاں بھرتے رہے۔جب سری لنکا مختلف پروجیکٹوں میں چین کے قرض تلے دب گیا تو ایک وقت وہ آیا کہ گوٹابیا حکومت نے اپنی سب سے بڑی بندرگاہ اور اس سے ملحق زمین کو چین کو 99سال کی لیز پر دیدیا۔اس کے عوض چین نے اسے 1.1بلین ڈالر دئے جس سے حکومت ملک کی معیشت کو چلارہی تھی۔ گوٹابیا نے قرض لے کرایک ساتھ بڑے بڑے تعمیراتی پروجیکٹ شروع کردئے جو کبھی پورے نہ ہوسکے۔

یہاں تک کہ 190ملین ڈالر سے تعمیر انٹرنیشنل ایرپورٹ چالو نہ ہوسکا اور آج وہاں گائوں والے اپنی کالی مرچ کی فصل پھیلاکر خشک کرتے ہیں۔

سری لنکا کی اس کہانی میں آپ کو کچھ اور دیکھنے اور موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں۔صرف یہ سمجھنا کافی ہے کہ دنیا بھر میں جو حکمراں قوم پرستی کے نام پر اپنے شہریوں کو لڑائیں‘ اپنی خواہشات کے مطابق دیو قامت تعمیرات کرائیں اور جو ملک کی معیشت کی طرف سے بے فکر ہوجائیں آج نہیں تو کل ان کا انجام گوٹابیا جیسا ہونا ہے۔

معاشرہ کے وہی طبقات جنہیں بانٹ کر وہ اپنے اقتدار کو جلا بخشتے ہیں ایک دن حکمرانوں کے ہی خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجاتے ہیں۔انگریزی ناول ’دی اسپائر‘ کے مصنف ولیم گولڈنگ نے 1964میں لکھا تھا: خدا کی مرضی کے خلاف جو طاقتور حکمراں اپنی خواہشات کی پیروی کا انتخاب کرتا ہے اس کا بنایا ہوا سونے کا محل ڈوب جاتا ہے۔۔۔

15 thoughts on “باون گز کا قاتل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *