موسم گرما اور اس کے اثرات
موسم گرما اور اس کے اثرات
اظفر منصور
آسمان آگ برسا رہا ہے اور زمین اپنے اندر کی تمام تپش اگل رہی ہے، سورج کی کرنیں رخسار پر طیش کا طمانچہ مار رہی ہے تو ہوا اپنی حرارت سے جھلسا رہی ہے
یعنی ایسی شدت کی گرمی ہو رہی ہے کہ ماضی کے تمام ریکارڈ شدہ ٹمپریچر خواب غلط کی طرح مٹائے جا رہے ہیں، صحرائی علاقہ ہو یا درختوں اور تالابوں کے درمیان آباد بستیاں، موٹر گاڑیوں، فیکٹریوں، اور بڑی بڑی کمپنیوں کے ساتھ آسمان سے محو گفتگو عمارتوں کی آماج گاہ شہری علاقے ہوں یا ائیر کنڈیشنر ہاؤسز ہر جگہ پہنچ کر اس گرمی کی قہر آلود نگاہیں جسم و روح کو بیکل کئے ہوئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس ہوں یا دیگر سوشل سائٹس ہر جگہ افراتفری کا ماحول ہے، یہ سورج کی یہ تپش لوگوں کی جانیں بھی تلف کر رہی ہے، اور بیشمار مرض کے اثرات بھی مرتب کر رہی ہے۔ ہر زبان شکوہ کناں ہے
مختلف طریقے زیر تجربہ لائے جا رہے ہیں، بارگاہ ایزدی میں صدا دل پہنچانے کی پیہم سعی بھی کی جا رہی ہے، مگر اس کے باوجود کہیں سے کسی راحت کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
بلکہ گذشتہ سالوں کے تمام ریکارڈ گندم کی بالی کے اس دانے کی طرح منتشر ہوتے جا رہے ہیں جسے دہقاں ہاتھ میں اٹھا کر زور سے زمین پر مارتا ہے، یا تھریشر میں ڈال کر اسے ایک ایک کر کے بالیوں سے علیحدا کر لیتا ہے۔
گر یہی خورشید نے اپنی ناراضگی میں تخفیف نہیں کی، ٹمپریچر پچاس سے متجاوز رہا تو عین ممکن ہے کہ ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جائے، اور میدان محشر کی وہ گھڑی سامنے آ جائے جب لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں شرابور ہوں گے۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے کئی طرح کے سوالات ذہن میں پنپنے لگتے ہیں کہ ادھر چند سالوں میں گرمی کی شدت میں اضافے کا سبب کیا ہے؟
کیا ہم انسانوں نے رب العالمین کے غیظ و غضب کو اپنی نافرمانیوں اور خطاؤں کے سبب بھڑکا دیا ہے؟
جس کا اثر ہم اس تپش میں دیکھ رہے ہیں، یا ایسا ہے کہ ٹیکنالوجی کے نام پر ہم نے اس خدائی نظام سے لوہا لیا ہے، جس کے قوانین فطری اور طئے شدہ ہیں، بعض رپورٹس میں باضابطہ اس کا اعتراف کیا گیا ہے کہ موجودہ صنعتی دور نے گرمی میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے، اور یہ اضافہ ہر سال بڑھتے رہنے کی امید ہے
چناں چہ برطانیہ میں میٹ آفس (شعبۂ موسمیات) کا کہنا ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں گرمی کی لہروں کی لمبائی دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس شعبے کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہروں میں ایک اور موسمی رجحان یعنی ہیٹ ڈوم (گرمی کے گنبد) کی وجہ سے شدت یا طوالت آ سکتی ہے۔
اسی طرح سے اگر ہم مذہبی پہلو سے اس جان لیوا موسم کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ دنیا میں جب بھی خدا سے بغاوت و سرکشی، ظلم و عدوان، ناانصافی و چپقلش، فحاشی و عریانیت جیسے امراض سر اٹھاتے ہیں تو اللہ رب العزت بھی اسی طرح عقل مندوں کے لیے راہ راست اختیار کرنے کے اسباب پیدا فرماتے ہیں۔
تاکہ کوئی ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنے ایمان کی تجدید کرنے کا ارادہ کر لے۔ موسم گرما کو کبھی بھی رہائشی معاشرے کے لیے سود نہیں تسلیم کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ موسم اپنی ناقابلِ برداشت تپش سے انسان تو انسان جانوروں کو بھی جھلسا کر رکھ دیتا ہے۔
اس لیے ان سب سے قطع نظر ایسی جان کاہ گرمی میں اپنی حفاظت، اہل خانہ کی اعانت، پڑوسیوں کی معاونت، نطق و گویائی سے محروم مخلوقات کی نصرت بھی عین تقاضائے انسانیت ہے، اس لیے آج ہی یہ طئے کریں کہ اس گرمی کے برے اثرات سے اپنے تمام گرد و پیش کو بچائیں گے۔
اظفر منصور
8738916854