ابوجان آپ کی کمی بہت محسوس کرتا ہوں
ابوجان آپ کی کمی بہت محسوس کرتاہوں
ازقلم: (مفتی) محمد شمس تبریزقادری علیمی
(بی،ایڈ.ایم.اے.ایم فل) مدارگنج، ارریہ. بہار۔
آج سے پانچ سال قبل ۲۳/ جمادی الاخری ۱۴۳۹ ھ مطابق ۱۲/مارچ ۲۰۱۸ء بروز پیر صبح کے تقریباً ۹/بج کر ۳۵/منٹ پر اللہ رب العزت عزوجل کی ایک عظیم اور بے مثال نعمت والد محترم کے سایہ ٔ عاطفت سے محروم ہوگیا۔ اس دن صبح صادق سے ہی ایسا محسوس ہورہاتھاکہ آج کوئی عظیم سانحہ میری زندگی میں رونما ہونے والاہے یہی وجہ تھی کہ اس دن ایک دانہ بھی منہ میں نہیں ڈالاتھا۔ میری موجودگی میں جب والد محترم کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تومجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ واقعی ابو جان اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔
ڈاکٹرنے نبض دیکھا اور حرکت قلب ونفس کو ساکت پاکر کہا کہ اب آپ کے والد اس دارِ فانی سے دارِ بقا کوچ کرچکے ہیں۔ اس دن مجھ بد نصیب کے سر پر غم واندوہ کاپہاڑ ٹوٹ پڑا،پاؤں تلے زمین نکل گئی ، آنکھیں اشک بار اور قلوب واذہان مضطرب ہوگئے ۔یقین جانیں انسانی افکار وخیالات اور الفاظ جتنے بھی خوب صورت اور معانی ومفاہیم سے پُر ،ادب و احترام سے لبریز ہوں والد محترم کی جدائی ورحلت کاغم اس قدر شدید ہے جو قلم کی گرفت میں نہیں آسکتااور دل کے دروکرب کو بیان کرنامیرے لئے ناممکن ہے۔
میری زندگی میں کوئی ایسا دن نہیں آتاکہ جب والد محترم کی یاد نہ آتی ہو۔ اندرونِ قلب ایک طوفان اٹھتاہے جسے قرطاس وقلم سے ظاہر کرنے کی کوشش کرتاہوں مگر قلبی طوفان کی لہر کاغذپر کہاں آسکتی ہے،موجِ بحر کی طرح کبھی سر سے گزرتی ہے کبھی جذباتی چٹانوں سے ٹکراکر واپس آتی ہے۔اگر حقیقی نگاہوں سے دیکھاجائے تو زندگی چیزوں کی دستیابی اور سہولتوں کی فراوانی کانام نہیں بلکہ زندگی انسانی احساسات،جذبات اورہمدردی وغمگساری کا نام ہےاگرچہ زندگی بہت سی چیزوں کوپاکر کھونے کانام ہے مگر میرے جذبات واحساسات والد محترم کی جدائی پر آنکھوں کواشکبارکردیتے ہیں۔
موت ایک اٹل اور لاینحل حقیقت ہے اس سے کسی کوانکارنہیں ہے۔ہر کسی کو یہ معلوم ہے کہ جو یہاں آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن خالق حقیقی کی بارگاہ میں ضرور جاناہے اور اپنے اعمال کی جزا پاناہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا کبھی بھی والد محترم نے مجھ سے گھریلو کام میں لگے رہنے کونہیں کہا بلکہ جب بھی کہاتویہی کہ آپ کو محنت ومشقت سے پڑھ کرایک عالم باعمل بننا ہے۔اور محض رضائے الٰہی کے لئےعلم دین کے حصول میں رغبت دلائی۔
پہلی مرتبہ تقریباً پچھہتر کلومیڑدور’’ دارالعلوم مصطفائیہ ،چمنی بازار پورنیہ بہار‘‘ میں داخل کیا۔اس وقت میں’’ ارریہ ضلع ‘‘کا تنِ تنہا طالب علم اس ادارہ میں تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اول روز مجھے لے کر مدرسہ پہنچے تو وقت ِ رخصت والد محترم نے قطبِ پورنیہ حضور شیخ جمال الحق مصطفیٰ بندگی رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ میں یہ جملہ کہاتھا’’کہ آج سے سب کچھ یہی بزرگ ہیں میں کوئی نہیں ہوں اپنادکھ ،درد ان سے ہی کہنا اور دل جمعی کے ساتھ علم حاصل کرنا‘‘یہ کہتے ہوئے گھر چلے گئے اورتقریباً ڈیڑھ مہینے بعد بقرعیدکی تعطیل میں آئے ۔
بزرگوں سے اس قدر پختہ عقیدت تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتا،کوئی مصیبت آجائے یاکسی کام میں رکاوٹ کاسامنا ہو تو سفر وحضر میں آنکھیں بند کرکے اولیاء اللہ کویاد کرتے اور امداد پاتے تھے۔ جب اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ــ’’مخدوم اشرف مشن،پنڈوہ شریف ،مالدہ ،مغربی بنگال ‘‘ جانا ہوا تو وہاں داخلہ کے لیے کسی سے شناسائی تو تھی نہیں اور ہوتی بھی تو کوئی فائدہ نہیں تھا کیوں کہ اس ادارہ میں
کسی کی پیروی نہیں چلتی بہرحال دس شوال المکرم بعد نمازِ فجر مرشدِحضورمخدوم اشرف جہانگیر سمنانی سیدنا سرکار مخدوم العالم شیخ علاؤ الحق والدین گنج نبات ابن اسعد خالدی لاہوری پنڈوی رحمۃاللہ علیہما کے آستانہ پر حاضر ہوااور والد محترم نے کہا:’’کہ مخدوم پاک سے عرض کروحضور! میں آپ کےغلاموں کے غلاموں میں ادنیٰ غلام کا بچہ ہوں اور آپ کے قدموں میں رہ کر علم حاصل کرناچاہتاہوں اور یہاں میرا کوئی نہیں ہے آپ مجھے قبول فرمالیں اور یہاں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں!‘‘۔
ان الفاظ سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ بزرگوں سے کس قدر قلبی لگاؤ تھا۔قارئین ! سن ۲۰۰۰ ء میں والد محترم کے ساتھ دہلی کے خواجاؤں اور وہاں سے سلطان الہند اور سرکار حاجی سید وارث علی ودیگر اولیاء اللہ رضوان اللہ علیہم کی بارگاہوں میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی اور صغرِ سنی ہی سے محبوبانِ خدا کے تصرفات واختیارات پر یقین کامل ہوگیااور ان اولیائے کرام کے فیوض وبرکات کے طفیل اور والدین کی دعائے سحرگاہی کے وسیلے اللہ رب العزت عزوجل نے دین متین کاعالم ومفتی بنادیا۔
والد کارشتہ ماں کے بعد تمام انسانی رشتوں میں مقدس اور اعلیٰ تصور کیاجاتاہے۔ انسان کی زندگی میں بہت سے نشیب وفراز دیکھنے کوملتے ہیں لیکن کوئی دن اس قدر اندوہ ناک اور تاریک نہیں ہوگا مگر وہ دن کبھی بھلایا نہیں جاسکتا جب والدین میں سے کوئی ایک ہم سے رخصت ہوتے ہیں۔وہ باپ ہی ہیں جو آگ اور چلچلاتی دھوپ کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو سخت ترین گرمیوں میں بھی ٹھنڈک اور عیش وآرام کے اسباب مہیا کرتے ہیں۔بلامبالغہ میرے والد ایک ایسے عظیم شخص تھے
جنہوں نے اپنی پوری زندگی ہم سب کی تربیت وپرداخت اور محبت والفت کےلئے وقف کردیا تھا۔جب میں مزکزعلم وفن ’’جامعہ علیمیہ ،جمداشاہی،بستی،یوپی‘‘میں زیرتعلیم تھا توہر ماہ چار/پانچ ہزار روپے بھیجاکرتے اور اکثر فرمایاکرتے تھے کہ آپ کو دینی تعلیم سے فراغت کے بعدعصری علوم کے لئے یونیورسٹی بھی جاناہے ۔ اور فرمایاکرتے کہ ’’روپے ،پیسے کی فکر بالکل نہیں کرنی ہے جہاں سے ہوگا میں انتظام کروں گابس آپ کو علم حاصل کرناہے‘‘۔
والد محترم کی آمدنی کم ہونے کی وجہ سے میں یونیوسٹی نہ جاسکا اورعلمی وفکر دانش گاہ ’’مخدوم اشرف مشن،پنڈوہ شریف،مالدہ ،مغربی بنگال ‘‘میں درس وتدریس کے فرائض انجام دینے میں مصروف ہوگیا توجب کبھی گھر جاتاوالد محترم کو روپے دیتاتو فرمایاکرتے کہ’’آپ کی تنخواہ کم ہے اور ذاتی اخراجات بھی ہیں فاصلاتی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اس لیے آپ اپنےپاس رکھیئے‘‘۔
باپ جب تک زندہ رہتے ہیں ان کواپنی فکر نہیں بلکہ ہمیشہ اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کی فکر ستاتی ہے۔ یہی وجہ ہے والد خون ،پسینہ بہاکر اپنی اولاد کواچھے لباس،بہترین مکان اور اعلیٰ تعلیم فراہم کیا کرتے ہیں۔خود دوسروں کے مظالم کو سہہ لیا کرتے ہیں مگر اپنی اولاد کو غمزدہ نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔
والد کی زندگی میں ہم جیسی اولاد معاشرے کے رسم ورواج کے بندھن سے مکمل آزاد ہوتی ہیں۔باپ کی محبت وشفقت بھری ایک نظر اولاد کو مکمل تروتازہ بنادیتی ہے۔اس حقیقت سے بھی کوئی انکارنہیں کہ باپ کی موجودگی اولاد کوزندگی کے پیچیدہ راستوں پربے خطر چلنے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے ۔ باپ چاہے کتنے ہی ضعیف اور عمر دراز کیوں نہ ہوں وہ گھر کی رونق ہیں ۔ والدین کے انتقال کے بعد ہی اولاد کو اپنے سروں پر سایہ فگن درخت کی قدروقیمت کااحساس ہوتاہے ۔
باپ کا رشتہ بعدوصال ختم نہیں ہو جاتا وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہونے کے بعدبھی ہم سے وابستہ رہتے ہیں۔ان کی دعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ان کی زندگی میں ان پر روپے خرچ کرنے سے ہماری دولتوں میں اضافہ ہوتارہتا ہے اور دنیاسے چلے جانے کے بعد ان کی قبر پر دعاکرنے پر عمر ، عزت اور دولت وشہرت میں بڑھوتری ہوتی رہتی ہے۔
باپ ہمیں دنیا میں ہرطرح کی مصیبتوں اور بلاؤں سے بچانے کی فکرمیں رہتے ہیں اور جون /جولائی کی شدت والی دھوپ میں خود جل کر پسینے بہانے والاباپ کبھی ہمیں دھوپ میں جانے نہیں دیتے اور ہمیشہ ٹھنڈی چھاؤں میں زندگی گزارنے کا سامان مہیا کیا کرتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا ہی خوب لکھاہے:
میرے ہر اچھے برے کام ان کے دھیان میں رہتے تھے
ہم گھر میں نہیں ان کے دل وجان میں رہتے تھے
میں نئے نئے کپڑے پہن سکوں عید کے موقع پر
اسی لیے والد میرے پُرانے قمیص وبنیان میں رہتے تھے
مجھے لگتا تھاکہ والد کے ہر فیصلے کڑے ہوتے ہیں
اب جانا کہ کڑے فیصلوں سے ہم پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں
ہم جب باپ بنے تو سچ مچ یہ محسوس کیا کہ بچّے ،بچّے ہوتے ہیں بڑی مشکل سے بڑے ہوتے ہیں
قارئین ! دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں آیاہے۔ جانے والے چپ چاپ چلے جاتے ہیں مگر دنیا ان کی اچھائی یابرائی کویاد رکھتی ہے۔
والد محترم ایک ایسے شخص تھے جن کی موت پر اپنوں سے کہیں زیادہ غیروں نے آنسوں بہائے تھے۔ وہ بھی علاقائی غیرمسلموں نے بہت زیادہ ان کے انتقال پرغم وسوگ منایااور آج بھی جب کسی پرظلم ہوتاہے اور علاقائی اثرورسوخ والے منہ دیکھا فیصلہ کرتے ہیں تو لوگ برملا بول پڑتے ہیں کہ آج فلاں موجود ہوتے تو ناانصافی نہیں ہوتی ۔
اس مطلبی دنیا میں جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کے لئے کوشاں نظر آتاہے ایسے پُر فتن زمانے میں بھی والد محترم اکثر غریبوں کی مدد کے لئے بلاکسی معاوضہ کے حق فیصلہ کرتے تھے۔ صبح سویرے گھر سے کبھی چائے نوشی کرکے کبھی ناشتہ یابغیر کچھ کھائے پیئے دوسروں کافیصلہ کرنے چلے جاتے اگر کبھی کسی فریق نے کھانابنایااور بہت ضد کیاکہ کھا لیجئے
تو آپ منع فرمادیاکرتے اور کہتے کہ آج نہیں کھاؤں گا کیوں کہ اگر آج کھالیاتو دوسرافریق سمجھے گاکہ اس کانمک کھایاہے اسی لیے اس کے حق میں فیصلہ کردیاجب کہ میں حق فیصلہ ہی کرتاہوں ۔جب کبھی شادی وغیرہ کے موقع پر وقت ملاتو کھالوں گا مگر آج نہیں۔غور کریں کہ آج اہل ِعلم وثروت رشوت لے کرغلط فیصلہ کیاکرتے ہیں ۔
والد محترم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے علمائے کرام سے سناہے کہ حق فیصلہ کرنے والوںکو اللہ تعالیٰ دوست رکھتاہے اور قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ملے گا اس وقت دنیامیں حق بولنے اور درست فیصلہ کرنے والوں کواللہ رب العزت اپنے عرش کاسایہ عطافرمائے گا۔
علاقے میں رہنے والے شرابی ، جواری، زانی ، سود ورشوت اور حرام خورنیز اگرکوئی دودھ میں پانی ملاکر فروخت کرنے والاہوتاتو اس کے گھر کھانانہیں کھاتے اور اس کے نل سے نکلنے والا پانی بھی استعمال نہیں کرتے اورہم سب کو سختی سے منع کردیتے تھے۔جن کوجو بولتے حق بولتے اور حق کے سوا کچھ بھی نہیں بولتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کے انتقال پر ظالمین وحاسدین بھی یہ بولنے پر مجبور ہوگئےکہ’’ آج حق بولنے والاآدمی دنیاسے رخصت ہوگیا‘‘۔اللہ رب العزت کی بارگاہ بے نیاز میں ہمیشہ دعاگوہوں کہ مولیٰ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ۔آمین ۔
آج کی اولاد کے لیے ان اشعار کے ذریعے ضروری پیغام :
اپنی جگہ مت کاٹو ! کوئی فریاد کام نہ آئے گی
گھر کاآنگن چھوڑ کوئی جائیداد کام نہ آئے گی
اگر ستایا اس باپ کو جس نے تمہیں نازوں سے پالا ہے
بڑھاپے میں تمہارے لیے تمہاری اولاد کام نہ آئے گی
ابوجان! میں جب دنیامیں آپ کمی محسوس کرتا ہوں
تھکی آنکھوں کے پردے میں نمی محسوس کرتاہوں
Stabrazalimi786@gmail.com
-
- نیٹ NET، جے آر ایف کیا ہے اور کون سے طلبا وطالبات یہ امتحان دے سکتے ہیں؟
- دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت مدرسہ بورڈ کا حالیہ ہدایت نامہ
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نیٹ جے آر ایف اردو کی تیاری کیسے کریں ؟؟
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مقصد زندگی جینے کی آرزو اور منزل
- وکالت کا پیشہ اور دینی مدارس کے فارغین
- فارغین مدارس ممنوعہ تنظیموں سے ہوشیار رہیں