کھرگے کے سامنے چیلنج

Spread the love

کھر گے کے سامنے چیلنج

از قلم : مشرف شمسی 

کانگریس کے صدر کا انتخاب خوش اسلوبی کے ساتھ انجام پذیر ہو گیا ہے ۔چوبیس سال بعد کانگریس کو گاندھی خاندان کے باہر کا شخص بطور صدر ملا ہے ۔ توقع کے عین مطابق  پارٹی  کے بزرگ رہنماء اور گاندھی خاندان کے وفادار ملکا ارجن کھر گے کانگریس کے صدر کی حیثیت سے منتخب ہوئے ہیں ۔پارٹی کی کمان اب گاندھی خاندان کے پاس نہیں ہے لیکن کانگریس پارٹی پر اب اور زیادہ مضبوط کنٹرول گاندھی خاندان کا ہونے کا امکان ہے۔

کیوں کہ پارٹی کے عوامی رہنماء راہل گاندھی ہی ہونگے۔لیکن اب حزب اختلاف کانگریس کی ناکامی کے لئے راہل گاندھی یا پرینکا گاندھی کو ذمےدار ٹھہرا نہیں سکتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کانگریس کا کوئی بھی صدر منتخب ہو جائے لیکن گاندھی خاندان کے بنا کانگریس بطور سیاسی جماعت متحد نہیں رہ سکتی ہے اور نہ ہی کانگریس کا وجود ہی باقی رہ پائے گا ۔

غیر گاندھی خاندان سے کانگریس کے صدر کا انتخاب ہو جانے سے پارٹی ایک بڑے مسئلے سے باہر ضرور آ گئی ہے لیکن کانگریس کا اصل مسلہ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے ۔

خاص کر اُن ریاستوں میں جہاں کانگریس پہلے سے کمزور ہے ۔ساتھ ہی جن ریاستوں میں کانگریس مضبوط ہے اور اس کا سیدھا مقابلہ بی جے پی سے ہے وہاں  کانگریس کی قیمت پر عام آدمی پارٹی اپنے لوک لبهانے پرچار سے اپنی زمین بناتی جا رہی ہے۔کسی بھی ریاست میں عام آدمی پارٹی کے اُبھرنے کا مطلب ہے کانگریس کا صفایا سمجھا جانے لگا ہے ۔

دلّی میں سالہا سال کانگریس نے حکومت کی ہے لیکن گزشتہ تین اسمبلی چناؤ سے عام آدمی پارٹی حکومت میں ہے اور کانگریس ایک ایک سیٹ کے لیے ترس رہی ہے ۔یعنی کانگریس کا گزشتہ تین اسمبلی چناؤ سے دلّی میں کھاتہ نہیں کھل  پایا ہے۔جبکہ بی جے پی کے ووٹ بینک میں کسی طرح کا فرق نہیں پڑ رہا ہے ۔پنجاب میں بھی عام آدمی پارٹی کانگریس کے ووٹ کی قیمت پر حکومت میں آئی ہے۔

حالانکہ پنجاب میں بی جے پی اپنے دم پر حکومت بنانے کی حثیت نہیں رکھتی ہے۔گجرات میں عام آدمی پارٹی کو اس یئے کھڑا ہی کیا گیا ہے کہ بی جے پی کا مقابلہ آمنے سامنے کا نہیں ہو سکے۔سہ رخی مقابلے میں اس بات کے امکان ہیں کہ بی جے پی اپنے کور ووٹ کے ساتھ ایک بار پھر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے ۔

ملکا ارجن کھر گے کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہماچل پردیش اور گجرات کے چناؤ میں کانگریس کی کامیابی کا ہے۔کھر گے کس طرح سے عام آدمی پارٹی کے ساتھ انتخابی مفاہمت کر کے بی جے پی کو حکومت میں آنے سے روکتے ہیں ۔

عام آدمی پارٹی کھلے طور پر کانگریس کے ساتھ انتخابی مفاہمت نہیں کر سکتی ہے لیکن کانگریس اور عام آدمی پارٹی میں سیٹوں کو لے کر ایک انڈر سٹینڈنگ ہو سکتی ہے۔اگر واقعی عام آدمی پارٹی بی جے پی کو دونوں ریاستوں میں اقتدار سے باہر دیکھنا چاہتی ہے تو کانگریس سے انڈر سٹینڈنگ کرنی ہی پڑے گی ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ پارٹی نے بی جے پی سے سپاری لے کر اُسے جیتانے کی کوشش کر رہی ہے ۔

راہل گاندھی اس وقت پیدل یاترا پر ہیں ۔اب کانگریس کے نئے صدر کی ذمےداری بنتی ہے کہ راہل گاندھی کو گجرات اور ہماچل پردیش کے چناؤ میں کس طرح سے استعمال کیا جائے یا پھر راہل گاندھی کی یاترا کو چناؤ میں بنا استعمال کیے جاری رہنے دی جائے ۔ لیکن چناؤ میں پرچار کے لیے جانا ہے یا نہیں یہ بات راھول گاندھی پر بھی بہت حد تک منحصر کرتا ہے ۔

راہل گاندھی پیدل چلتے ہوئے گجرات اور ہماچل کے عوام کو سندیش دینا چاہتے ہیں یا گجرات اور ہماچل کے عوام کے سامنے رو برو جا کر اپنا پیغام دینا چاہتے ہیں یہ راہل گاندھی اور صدر کو فیصلہ کرنا ہے ۔جو بھی ہو راہل گاندھی کے پیدل یاترا سے کانگریس کو کتنی کامیابی ملے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس یاترا سے راہل گاندھی کی  تصویر  ایک seasoned سیاسی رہنما  کی شکل میں ضرور اُبھر کر سامنے آ رہا ہے ۔

گجرات اور ہماچل پردیش کا چناؤ اور اس کے بعد راجستھان ،مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کا چناؤ اور پھر 2024 کا لوک سبھا چناؤ میں ملکا ارجن کھر گے اور گاندھی خاندان مل کر کس طرح کی حکمت عملی بناتے ہیں کہ ہر طرح سے مضبوط بی جے پی کو شکست دے پانے میں کانگریس  کامیاب ہو پاتی ہے اور کانگریس رہنماء عوام کو یہ بھروسہ دلا پاتے ہیں کہ اُنکے منتخب اراکین منتخب ہو کر بھی پارٹی چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں نہیں جائیں گے ۔

میرا روڈ ،ممبئی

9322674787

3 thoughts on “کھرگے کے سامنے چیلنج

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *