لہولہان فلسطین اوربے حس مسلم حکمراں
لہولہان فلسطین اوربے حس مسلم حکمراں
سرفرازاحمدقاسمی حیدرآبادرابطہ: 8099695186
تقریبا دو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ بندی کو توڑتے ہوئے اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ پر حملے تیز کردئیے ہیں اور رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں بھی ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی ہے
رمضان جیسے مقدس مہینے میں غزہ پر بمباری جاری رکھ کر اسرائیل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے انسانی حقوق یا مذہبی احترام کی ہرگزکوئی پرواہ نہیں ہے
اس مقدس مہینے میں بھی اسرائیلی حملے جاری ہیں جس پر دنیا خاموش تماشائی ہے جو یقینا باعث تشویش ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا منصوبہ ہے،غزہ ایک بار پھر سے لہولہان ہے،اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں وہاں اب تک 50 ہزار سے زائد غریب فلسطینی شہید کردئیے گئے
جب کہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگ زخمی ہیں،’فلسطین الیوم’ نامی اخبار نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ اسرائیل کا مقصد صرف حماس کا خاتمہ نہیں بلکہ پورے غزہ کو غیر آباد کرنا ہے
اخبار نے لکھا ہے کہ اسرائیلی منصوبے کے تحت مسلسل بمباری کے ذریعے غزہ کے شہریوں کو مصر یا دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے،اس کے لیے فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ عام شہریوں کا قتل عام بھی کیا جا رہا ہے تاکہ خوف و ہراس پھیلایا جا سکے،غزہ کے بنیادی ڈھانچے( ہاسپٹلس،اسکولس،آبی و برقی نظام) کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا تاکہ یہاں زندگی ناممکن ہو جائے،اس بات کی تصدیق اسرائیلی ذرائع ابلاغ سے بھی ہوتی ہے
اسرائیلی اخبار’یدیعوت احرونوت’ اور ‘ہاٹرز’ کے مطابق اسرائیل نے حماس کو مکمل ختم کرنے کے لیے ایک طویل مدتی منصوبہ بنا رکھا ہے،جس میں غزہ کو غیررہائشی علاقہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن اس طرح کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ غزہ میں شہداء کی تعداد بڑھنے کے باوجود فلسطینی عوام اپنے حق کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں
ہر تباہ شدہ گھر سے ایک نیا مزاحمت کار پیدا ہورہا ہے،فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکرز ایجنسی(انروا )کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیلی حکام،غزہ پٹی میں اشیائے خرد و نوش کے داخلے کو جان بوجھ کر روک رہے ہیں،انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کہا کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ میں بنیادی اورضروری سامان کی ترسیل کو روکنے کے تین ہفتے مکمل ہو چکے ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ خوراک نہ دوائی نہ پانی نہ ایندھن، ایک دم گھٹنے والا محاصرہ جو جنگ کے پہلے مرحلے میں تھا،انہوں نے مزید لکھا کہ ہردن جو امداد کے بغیر گزرتا ہے
اس کا مطلب ہے کہ زیادہ بچے بھوکے سو رہے ہیں،بیماریاں پھیل رہی ہیں اور محرومیاں بڑھ رہی ہے،کھانے کے بغیر ہر دن غزہ کو بھوک کے شدید بحران کے قریب لاتا ہے،لازرینی نے اس بات پر زور دیا کہ امداد روکنا غزہ کے عوام کے خلاف اجتماعی سزا ہے
کیوں کہ غزہ کی آبادی کی اکثریت بچوں،خواتین اور عام مردوں پر مشتمل ہے،انروا کے کمشنر جنرل نے ناکہ بندی کو ہٹانے،انسانی امداداورتجارتی سامان کی بلاتعطل اور وسیع پیمانے پر داخلے پر زور دیا،دو مارچ سے قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے جنوب مشرق میں کارم ابو سالم کراسنگ کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے امداد سامان اور ایندھن کے داخلے کا عمل تعطل کا شکار ہے،ان کا یہ بیان غزہ کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے کہ وہاں کس طرح کے حالات درپیش ہیں
رفح میونسپلٹی نے خبردار کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے گورنری کے تل السلطان محلے کو نسل کشی کا نشانہ بنایا جارہا ہے،ہزاروں شہری جن میں بچے،خواتین اور بوڑھے شامل ہیں چاروں طرف سے اسرائیلی فوج کے شدید محاصرے اور بمباری میں پھنسے ہوئے ہیں،جن کے بچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کو اپنی تکلیف کی فریاد پہنچانے کا کوئی ذریعہ ہے
میونسپلٹی نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ پڑوس سے مواصلاتی رابطے مکمل طور پر منقطع ہو چکے ہیں اور صحت کی خدمات کے مکمل خاتمے کے درمیان،خاندان،پانی،خوراک یا ادویات کے بغیر ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں،انہوں نے زور دے کر کہا کہ زخمیوں کو خون بہانے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے،بچے محاصرے اور مسلسل بمباری کی وجہ سے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں
انہوں نے بتایا کہ ایمبولینس اور سول ڈیفنس کے عملے کا 36 گھنٹے سے زائد عرصے سےکوئی پتہ نہیں،وہ زخمیوں کو بچانے کے لئے تل السلطان جا رہے تھے تو ان سے رابطہ منقطع ہو گیا،انہوں نے کہا کہ امدادی کارکنوں کو نشانہ بنانا اور ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالنا ایک گھناؤنا جنگی جرم ہے،تمام بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے،میونسپلٹی نے اس بات پر زور دیا کہ تل السلطان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا کی انکھوں کے سامنے ایک نسل کشی ہے،جس میں شرمناک خاموشی اور غیر منصفانہ بین الاقوامی بے عملی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے
میونسپلٹی نے اس جرم کا مکمل طورپر ذمہ دار قابض اسرائیلی کو ٹھہرایا،عالمی برادری اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو ان قتل عام کے سلسلے میں خاموشی اور بے عملی کا ذمہ دار ٹھہرایا،میونسپلٹی نے پھنسے ہوئے شہریوں کو بچانے کے لیے فوری اور فیصلہ کن بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کیا جس میں فائرنگ کی زد میں ان کے فوری انخلاع کے لئے محفوظ راہداریوں کو کھولنا
نیز زخمیوں اور خوراک،پانی یا پناہ کے بغیر پھنسے ہوئے افراد کو فوری طور پر انسانی امداد فراہم کرنا شامل ہے،انہوں نے قابض اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ رفح اور تل السلطان پر اپنی وحشیانہ حملوں کو فوری طور پر روکے اور ایمبولینس اور سول ڈیفنس کے حملے کے بارے میں معلومات فراہم کریں میونسپلٹی نے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی خاموشی کا مطلب ان قتل عام میں براہ راست ملوث ہونا ہے
اس سے پہلے کہ تل السلطان اپنے مکینوں اور بچانے والوں کے لئے اجتماعی قبر میں تبدیل ہو جائے،دنیا کو اب کاروائی کرنی چاہیے،فلسطینی بچوں کا اتنے بڑے پیمانے پر قتل نسلی صفائی کی ایک منظم پالیسی ہے،رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 200 فلسطینی بچے شہید ہوچکے ہیں
ان حملوں میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں شہیدہوئی ہیں،جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں،اسرائیل کی یہ حکمت عملی فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے بے دخل کرنے اور ان کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے،غزہ میں بچوں کا سب سے بڑا قتل عام جاری ہے جس میں مغربی ممالک شریک جرم ہیں اوراقوام متحدہ کی خاموشی انسانیت کے ضمیر کے لیے ایک گہرا زخم ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ جہاں فلسطینی عوام کے لیے ایک انسانی بحران بن چکی ہے وہیں خود اسرائیلی شہری بھی اس کے بھاری بوجھ تلے دبے رہے
نتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی حکومت نے طاقت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کی لیکن اندرونی سطح پر عوامی بے چینی اور مخالفت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے،اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کی قیادت پر جہاں دنیا کے بیشتر ممالک کی جانب سے تنقیدیں کی جا رہی ہیں وہیں اسرائیل کے اندر بھی ان کے خلاف عوامی برہمی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے
تل ابیب،حیفہ اور یروشلم سمیت کئی بڑے شہروں میں احتجاج اس کی واضح مثال ہے جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی معیشت بحران کا شکار ہے اور جنگی اخراجات نے عام شہریوں پر بوجھ بڑھا دیا ہے اسرائیلی تجزیہ کاروں اور سیاسی مفسرین کے مطابق اسرائیلی عوام کی بڑی تعداد یہ بات مانتی ہے کہ غزہ میں جاری جنگ کا کوئی واضح مقصد نہیں ہے اور اس جنگ نے اسرائیل کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے،اسرائیل نے امریکہ کی شہہ پر غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ وہ غزہ پر بڑے پیمانے پر حملہ کر کے پورے علاقے پر قبضہ کر لے اور فوج کی مدد سے اس پر حکومت کرے۔
فینانشل ٹائمز اور ہاریٹز کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکومت غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے بعد بڑی تعداد میں فوج تعینات کرے گی۔ یہ تعیناتی 50 ہزار فوجیوں کی ہو سکتی ہے۔ غزہ کی مقامی آبادی کو بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا منصوبہ بھی ہے۔اس سے فلسطینیوں اور عرب ممالک کے مسائل بڑھ سکتے ہیں،اسرائیل نے اکتوبر 2023 سے غزہ میں متواتر اور شدید حملے کیے ہیں۔اس سے قبل بھی اسرائیل متعدد بار غزہ پر حملے کر چکا ہے۔
تاہم وہ غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا،اب تک اسرائیلی افواج لڑائی کے بعد عارضی طور پر پیچھے ہٹ گئی ہیں لیکن ان کا واپسی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔وہ غزہ پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے۔اسرائیل نے ایک نیا منصوبہ بنایا اسرائیل کے نئے منصوبے میں غزہ پر قبضہ کرنے کے لیے 50,000 فوجی (5 جنگی ڈویژن) تعینات کرنا شامل ہے۔ اس منصوبے میں غزہ میں فوجی حکمرانی نافذ کرنا اور اس کی آبادی کو زبردستی المواسی علاقے میں منتقل کرنا بھی شامل ہے۔المواسی ایک چھوٹا انسانی علاقہ ہے
اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد چھوٹی جگہ پر رہنے پر مجبور ہو سکتی ہے،مشرق وسطی کے تین اہم ممالک میں بدامنی کے اشارے دے دئیے گئے۔ترکی میں احتجاج کی آڑ میں فسادات شروع ہوگئے ہیں،ڈونالڈ ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطی ویٹکوف نے آج انٹرویو میں مصر اور سعودی عرب میں حالات کی خرابی کا خدشہ ظاہر کردیا ہے
انھوں نے کہا کہ مصر میں معاشی بدحالی کے خلاف عوام اٹھ سکتے ہیں،جبکہ سعودی عرب میں نئی نسل کی جانب سے محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تحفظات ہیں،ایلچی نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرے تو ان متوقع مشکلات سے انھیں نجات مل سکتی ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی برادری کی جانب سے یوکرین کے مسئلے پرتو فوری رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے
لیکن فلسطین کے حق میں صرف بیانات جاری کرنے تک محدود ہے اقوام متحدہ کی قراردادیں کاغذوں کی زینت بنی ہوئی ہے،مغربی دنیا خصوصا امریکہ اور یورپی ممالک کی اسرائیل کو مکمل فوجی اور سفارتی تائید فراہم ہے،اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کو انصاف دلانے والا کوئی نہیں ہے اور فلسطین کے مسلمان انتہائی بے بسی کا شکار ہیں،اسرائیل مسلسل بین الاقوامی اورانسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی کررہاہے لیکن عالمی طاقتیں تماشائی بنی ہوئی ہیں،ایسے میں سوال یہ ہے کہ دنیا جس امن وامان کی متلاشی ہے وہاں امن وسکون کیسے قائم ہوگا؟
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جنگ بندی پیریڈ مظلوم فلسطینیوں کےلئے خطرناک ثابت ہوا،غزہ میں غداروں اور مخبروں کا نیٹ ورک قائم کیا گیا،قابض اسرائیلی بمباری سے غزہ کے سب سے متاثرہ علاقے بیت لاہیا کے زعماء اور سربرآوردہ عرب شخصیات نے مزاحمتی تنظیم کے خلاف ہر قسم کے پروپیگنڈے اور مخالفت کی کوششوں کو مسترد کردیا ہے
اور کہاہے کہ اسرائیلی ظلم کا کوئی جواز نہیں ہے،مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے،خیال رہے کہ اسرائیل اور اس کے عرب وفاداروں نے جنگ بندی کے دوران غزہ میں بڑے پیمانے پر جاسوس اور غداروں کا نیٹ ورک قائم کیاہے جس کی شرانگیز سرگرمیوں کا اسرائیل کی دوسری جارحیت کے ساتھ آغاز ہوا ہے،داخلی غداروں اور مخبروں کے باعث جہاں مقاومت اورحماس کے اہم اوراچھے کمانڈر نشانہ بن رہے ہیں وہیں جنگ کے خلاف مظاہروں کی آڑ میں مقاومت کی مخالفت کی جارہی ہے۔تاہم فلسطینی مزاحمت جاری ہے اور غداروں کے چہرے بے نقاب ہوں گے،یحیٰی السنوار نے اپنے دور میں غزہ میں مخبروں اور غداروں کے خلاف موثر کارروائی کی تھی
لیکن اب ایک بارپھر مخبری کا نیٹ ورک قائم ہوچکا ہے،جنگ بندی کے دوران مزاحمت کاروں کی جاسوسی ہوئی ہے،جنگ بندی کے دوران امداد کی آڑ میں جانے والے بیرونی اداروں میں بڑے پیمانے پر جاسوس داخل ہونے سے غزہ کی مزاحمتی تنظیموں کے بارے میں بہت خطرناک جاسوسی ہوئی ہے،اہم مزاحمتی ذمہ داروں کو ٹارگٹ کرنا بہت خطرناک جاسوسی کا نتیجہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کی موجودگی اب بھی مزاحمتی تنظیموں کی تقویت کا ایک اہم راز ہے،کچھ ہمسایہ ممالک کے بارے بھی شکوک وشبہات ہیں۔امن کے قیام کے لیے منصفانہ فیصلے کے ساتھ ساتھ ایک مستحکم جدوجہد ضروری ہے جس کے بغیر خطے اور عالمی سطح پر سلامتی واستحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا
ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج حماس تنظیم کو حتمی شکست دینے کی کوشش میں غزہ کی پٹی کا کنٹرول واپس لینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے اس طرح محصور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے طویل مدت قبضے کی راہ ہموارہو جائے گی،یہ بات برطانوی اخبار ‘فائنانشل ٹائمز’ نے بتائی اس حوالے سے منصوبوں سے باخبر کئی افراد نے بتایا ہے کہ مذکورہ تجویز جس کو ابھی اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے منظور نہیں کیا ہے،یہ اسرائیلی فوج کے نئے سربراہ کا فارمولہ ہے
اسے دائیں بازو کے شدت پسند اسرائیلی وزراء کی غیرسرکاری حمایت حاصل ہے، اخبار کی رپورٹ کے مطابق دو اسرائیلی ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کی بدولت یہ منصوبہ ممکن ہو گیا ہے،جو بائیڈن انتظامیہ کا اصرار تھا کہ اسرائیل غزہ پر دوبارہ قبضہ یا اس کی اراضی کو ضم نہ کرے۔غزہ کی مزاحمتی تنظیم حماس نے فلسطینی عوام،عالم اسلام اور دنیا کے آزاد لوگوں سے جمعہ،ہفتہ اور اتوار کو غزہ،یروشلم اورالاقصی کے دفاع میں اور قابض اسرائیلی ریاست کے جرائم کے رد عمل میں احتجاج کی اپیل کی ہے حماس نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے
اس کا عام متحرک ہونے کا مطالبہ قابض صیہونی دشمن کی طرف سے اس کی وحشیانہ جارحیت میں اضافہ اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف جاری قتل عام،مغربی کنارے،بیت المقدس اور مبارک مسجد اقصی میں اس کے جرائم کے رد عمل میں سامنے آیا ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری غزہ میں نہتے شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پرخاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور امریکی انتظامیہ عام فلسطینی نسل کشی کی نیتن یاہو کی پشت پناہی کررہی ہے
حماس نے شہر شہر قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں قابض صیہونی ریاست کی جارحیت اور فلسطینی نسل کشی کی مہم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی اپیل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان مبارک ایام میں صیہونی دہشت گرد ریاست امریکی اور مغربی مدد سے نہتے فلسطینیوں کی قتل و غارت گری کی مرتکب ہورہی ہے،غزہ کے لاکھوں آبادی کا مکمل محاصرہ جاری ہے،لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں ایسے میں غزہ کی حمایت اور اس کی زخموں پر مرہم رکھنے القدس اور القصہ کی حمایت فلسطینی عوام کی حمایت کافی ریاست کے جرائم میں امریکی حمایت کو بے نقاب کرنے کے لیے عالمی سطح پر مظاہروں کی اپیل کی جاتی ہے حماس نے مغربی کنارے بیت المقدس اور مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے فلسطینی عوام سے اپیل کی کہ وہ مسجد اقصی کے لیے اپنا رخت سفر باندھ لیں زیادہ سے زیادہ وقت مسجد اقصی میں گذاریں
غزہ بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حمایت میں تمام علاقوں میں قابض فوج اور اس کے آباد گروہوں کے ساتھ جھڑپوں میں مصروف رہیں حماس نے ملک کے اندر اور باہر فلسطینی عوام سے 30 مارچ یوم الارض کے موقع پر بے گھر کرنے اور فلسطینی علاقوں کے نام نہاد صیہونی ریاست سے الحاق کی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے حق واپسی اور آزادی کے عزم کی تجدید کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کی ہے
حماس نے عرب ممالک اور مسلمانان عالم کے ساتھ دنیا کے آزاد لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آنے والے جمعہ ہفتہ اور اتوار کو لاکھوں کے حوالے سے ہونے والے اس احتجاجی مظاہروں کی حمایت میں احتجاج کریں غاصب ریاست اور اس کے حامیوں پر دباؤ ڈالیں صیہونی اور امریکی سفارت خانوں کا محاصرہ کریں اور فلسطینی عوام لوگوں کے خلاف نسل کشی کے جرائم کو بے نقاب کریں حماس نے عالم اسلام کی سیاسی قیادت اور علما سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین میں جاری کشت و خون روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ایوان حکومت اور ممبر و محراب سے فلسطینی کاز کی حمایت میں آواز بلند کریں
اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین اپنے مقدس مقامات اور اپنی بقا کے دفاع کے لیے جائز مزاحمت کا حق رکھتے ہیں مگر امریکہ اور مغربی طاقتیں مسلسل قابض ریاست اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی مضموم کوشش کررہی ہے امریکی قومی سلامتی کے مشیر کے حالیہ شرمناک اور متعصبانہ بیانات نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ مظلوم کے بجائے ظالم کے شانہ بشانہ کھڑا ہے حماس نے کہا کہ ان بیانات میں جلاد اور مقتول کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایک سفاک اور قابض حکومت ہے اسے اپنے ناجائز قبضے کے دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اسکے باوجود امریکہ کی منافقانہ اور گھٹیا پالیسیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر ناجائز تحفظ فراہم کیاجارہاہے،جسکی وجہ سے فلسطینی عوام کی نسل کشی کا یہ بھیانک سلسلہ بدستور جاری ہےمسلم دنیا کے عوام فلسطینی مظلومین کی حمایت میں سڑکوں پر نکل کرغزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔دنیا بھر میں چار درجن سے زائدایسے ممالک ہیں
جن کے سربراہ اور حکمراں مسلمان ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ظلم وستم کے اس طوفان کو سب خاموشی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں،کوئی فیصلہ کن لائحہ عمل ان کے پاس نہیں ہے،سب کے سب ڈرے سہمے ہیں کہ کہیں ہماری حکومت نہ چلی جائے،حیرت یہ ہے کہ متعددمسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بے چین ہیں
اسرائیل نے ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں جن ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تیاریاں مکمل کی ہیں ان میں سعودی عرب،انڈونیشیا،سلطنت عمان، مالدیپ،بنگلہ دیش،ملائیشیا،جزر القمر، موریطانیہ، الجزائر،چاڈ اور لیبیا کے نام شامل ہیں۔ پاکستان کے بارے میں عبرانی میڈیا کا کہناہے کہ پاکستانی عوام کا دباؤ بہت شدید ہے جس کے باعث شاید سفارتی تعلقات ممکن نہ ہوں لیکن کچھ روابط ضرور ہوں گے،انڈونیشیا سے اسرائیل باقاعدہ جوتے، کپڑا اور خوردنی تیل منگوا رہا ہے۔ اردن اور دیگر ممالک میں فلسطین کے حق میں زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں مگر مسلم حکمراں بدستور شرمناک بے عملی کا شکار ہے
اردن میں عوامی احتجاج نے ثابت کر دیا کہ امت مسلمہ کے دل آج بھی اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں لیکن حکمراں طبقہ محض کھوکھلے بیان کی حد تک محدود ہے مسلم حکمرانوں کی یہ کیسی بے حسی ہے کہ جب امت مسلمہ کے پاس لاکھوں کی افواج اور بے پناہ وسائل موجود ہیں تو پھر فلسطین کے مظلوموں کی عملی مدد کیوں نہیں کی جا رہی ہے؟ غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے،معصوم بچوں اور خواتین کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا ہے،مگر مسلم حکمراں بزدلانہ خاموشی کے ساتھ یہ ظلم دیکھ رہے ہیں
آج ضرورت ہے کہ ہم فلسطینیوں کے حق میں پرزور طریقے سے اپنی آواز بلند کریں تاکہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ یہ غیرت مند قوم ہے جو ہر ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے یہ ہمارے لیے انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے کہ مسلم حکمرانوں کے پاس عملی اقدامات اٹھانے کی طاقت موجود ہونے کے باوجود وہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی سطح پر موثر سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈالنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں،دنیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم او آئی سی بھی محض زبانی بیانات کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے،اب وقت آگیا ہے کہ مسلم ممالک فلسطین کے حق میں مشترکہ اور فیصلہ کن حکمت عملی مرتب کریں فلسطین کے مظلوم عوام کو صرف الفاظ کی تسلیاں نہیں فوری اور عملی امداد کی ضرورت ہے
اگر مسلم حکمران اب بھی خاموش رہے تو تاریخ انھیں بزدلی،بے حسی اور خیانت کے الزامات کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھے گی،امت مسلمہ کے عوام کو اپنے حکمرانوں پر شدید دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں فوری ٹھوس اور فیصلہ کن اقدامات کریں،فلسطین کی آزادی صرف فلسطینی عوام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری امت مسلمہ کا مقدس فریضہ ہے اگر آج اس ظلم کے خلاف عملی اقدامات نہ کئے گئے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اورشایدہماری نسلیں اس بزدلی کے داغ کو دھونے کے قابل بھی نہیں ہوں گی
نہتے اہل غزہ کے ساتھ صرف یمن کے حوثی کھڑے ہونے کا حق ادا کررہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اب تک حوثیوں نے امریکا کے 174 جنگی بحری جہازوں اور 145 مال بردار جہازوں کو نشانہ بنایا ہے،سوشل میڈیاپر کسی نےلکھا کہ ملعون حاکموں تم پر بے شمار لعنتیں تمام مسلم حکمراں خاموش ہیں،کوئی کچھ نہیں بول رہا،کہیں کچھ بھی سگبگاہٹ نہیں،غزہ میں لوگ دانے-دانے کو ترس رہے ہیں-لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں-اسرائیل بھیڑئیے کی طرح نہتے غزہ والوں پہ ٹوٹ پڑا ہے مگر افسوس کہ ۔۔۔۔معصوم پھول جیسے بچے-بچیاں بغیر ماں-باپ کے بھوکے پیاسے بلک رہے ہیں-
زندگی قیامت کا منظر دیکھ رہی ہے،کسی کے دل میں اپنے بھائیوں کے لئے درد نہیں، کوئی اسلام کے لئے مر مٹنے کو تیار نہیں۔۔۔۔ بس دعا،بس دعا۔۔۔۔۔ خلیفہ ترکیہ بھی حجرے میں دعا و تسبیح میں لگے ہیں۔۔۔۔ایک طرف بے بسی ہے تو دوسری طرف بے حسی،یاد رکھو تمہاری خاموشی بھی تمہیں یہ دن ضرور دکھاۓ گی،تمہیں بھی ان حالات سے گزرنا ہوگا”حیرت یہ نہیں کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ پر ہونے والے بےتحاشہ حملوں پر عرب حکمراں خاموش کیوں ہیں؟
خطرہ یہ ہےکہ خدانخواستہ “مزاحمت غزہ” منظر سے ہٹ گئی تو یہ عرب، اسرائیلی یلغار کو کتنے گھنٹے اور کتنے ہفتے روک پائیں گے؟کیونکہ اسرائیل کا ہدف صرف فلسطین یا غزہ نہیں بلکہ پورا عرب ہے،اگر یہ خاموشی یونہی برقرار رہی تو یقیناَ اسرائیل کا ناپاک قدم رکنے والا نہیں ہے،مذمت اور صرف مذت یہ کسی مسئلے کا بالکل حل نہیں ہے،اسرائیل کا یہ قدم ہر اس ملک کی طرف بڑھ رہا ہے یا بڑھے گا جو “گریٹر اسرائیل” میں آے گا۔”ہم تباہ ہو رہے ہیں، ہم مارے جا رہے ہیں
ہم ذبح کیے جا رہے ہیں،ہم جلائے جا رہے ہیں،ہماری نسل ختم کی جا رہی ہے۔۔۔۔” یہ شمالی غزہ کے صحافی حسام شبات کے الفاظ ہیں۔ یہ ویڈیو جاری کرنے کے کچھ دیر بعد اسرائیلی فضائی حملے میں وہ شہید ہو گئے۔اس آخری پیغام میں انہوں نے اہل غزہ کی حالت اور دجال کے ہاتھوں جاری نسل کشی کی سنگینی کو بیان کیا ہے۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے،لیکن حکمرانوں نے اب بھی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں،امت مسلمہ قرآن کے”انما المؤمنون اخوۃ”اور حدیث پاک کے اس اصول” مثل المؤمنین فی توادھم و تراحمھم و تعاطفھم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسھر الحُمّیٰ ” کے تحت سرحدی بندشوں سے آزاد ہے
چناں چہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اگر کسی مسلمان کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو دوسرے خطے کے مسلمان کو اس کی تکلیف اپنے دل میں محسوس کرنا چاہیے یہی اسلام کی تعلیم اور منشاء نبوی ہے چناں چہ اہل غزہ کی تکلیف پر درد کا احساس اور جذبات کا اظہار عین ایمانی حرارت کی علامت ہے
اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے تو وہ منافق ہےاس سلسلے میں ماضی کے واقعات سے دلائل پیش کرنا بے حسی ہے،موجودہ وقت میں یہودیوں کے ہاتھوں فلسطین میں جاری مسلم نسل کشی پر عرب حکمرانوں کی خاموشی بلکہ دشمنوں کی اندرونی حمایت مسلم تاریخ کی گھٹیا ترین حرکت ہے اور اس سے بھی ذلیل حرکت ان کے خصیہ برداروں کا اس مذموم عمل کا دفاع کرنا ہے کیوں کہ یہودی قوم کی دشمنی،سفاکی اور مکاری قرآن و سنت سے ثابت ہے اور ان سے دوستی انتہائی ناپسندیدہ عمل اورجرم عظیم ہے۔
(مضمون نگار معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)