دور ماضی کا ایک درخشندہ ستارہ
حکیم عبدالمنان صدری ___ دور ماضی کا ایک درخشندہ ستارہ
ڈاکٹر محمد رحمت اللہ زین العابدین ، فاضل پور ،شاہ پور بگہونی ،سمستی پورفاضل پور شاہ پور بگہونی
ضلع سمستی پور کا ایک معروف ومشہور علاقہ ہے، جو عرصہ دراز سے علوم و فنون کا گہوارہ رہا ہے ، اس کی مٹی بڑی زرخیز اور مردم خیز رہی ہے اس کی خاک نے بڑے بڑے علما ،فضلا ،حکما ،ادبا، شعرا اور داعی و مبلغ پیدا کئے ہیں، اس علاقہ کے اسا طین علم و ادب کی ایک طویل فہرست ہے جن ہو ں نے زبان و قلم اور حرکت وعمل سے نمایاں کارنامے انجام دیئے ہیں۔
اس زرخیز مٹی نے علامہ عبدالعزیز محدث رحیم آبادی بانی دارالعلوم احمد یہ سلفیہ دربہنگہ مولانا عبد النور دیگمراوی بانی دارالتکمیل مظفرپور حکیم سالم توحیدی ،حکیم محمد سالم صدری ،ڈاکٹر عبد المبین ،محمد عمیر ثاقب رجسٹرار محمد سھیل رجسٹرار رحمہم اللّٰہ کو جنم دیا یہ وہ سپہ سالار ھیں جو گرجہ ہم لوگوں سے رخصت ھو گئے ھیں لیکن اپنے عزم حوصلے حرکت وعمل کے ایسے اثرات و نقوش چھوڑے ھیں کہ صدیوں بعد ، بھی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی کھ دیتی ہے شو خئی نقش پا کی۔
انھیں با کمال شخصیات میں جن کے علمی طبی سیاسی کارناموں دعوتی محاسن اور انتظامی مکارم کے ذکر سے دنیا ئے علم و بصیرت تا قیامت رطب اللسان رہے گی وہ حکیم عبد المنان صدری کی شخصیت تھی، آپ کی پیدائش 1905میں فاضل پور شاہ پور پگہونی ضلع سمستی پور میں ہوئی
ابتدائی تعلیم اس وقت کے رسم ورواج کے مطابق دی گئی اور قرآن کریم ابتدائی اردو ،فارسی ، انگریزی اور عربی کی کتابیں گھر پر رہ کر پڑ ھی، پھر انہوں نے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ کا رخ کیا اور متوسطہ تک کی تعلیم کے بعد مدرسہ رحیمیہ دھلی چلے گئے جو اس زمانے میں علوم حدیث کا مرکز تھا وہاں انہوں نے میاں نذیر احمد حسین محدث دھلوی سے علم حدیث حاصل کی میاں نذیر محدث دھلوی کے درس کا ان پر ایسا اثر ہوا کہ آخری عمر تک تشدد کی حد تک احادیث مبارکہ پر عمل کرتے تھےاور دوسروں کو بھی کرانے کی کوشش کرتے رہے
جب کہ وہ ذہنی اور عملی طور پر ملکی سیاست میں داخل ہو گئے تھے ، اور کانگریس پارٹی کی نمائندگی کرتے تھے، اسی وجہ سے آپ کی ملاقات لکھنؤ کے ایک کانفرنس میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ہوئی تھی
آپ لکھنؤ کے طبیہ کالج سے بھی علم طبابت میں سند تکمیل حاصل کی اور علم طبابت میں ایسا سکہ جمایا کہ دور دراز سے مریض آتے اور شفایاب ہوکر جاتے اور یہ بات مشہور ھےکہ علم طبابت میں ایسا ملکہ تہا کہ کسی مریض کا نبض نہیں پکڑتے تھے بلکہ مریض کے مزاج رنگ اور کیفیت دیکھ سن کر ھی دوا تجویز کردیتے تھے جس سے مریض بالکل شفایاب ہو جاتا تھا
لیکن عملی طور پر سیاست میں سرگرم ہونے کی وجہ سے باضابطہ اس پر دھیان نھیں دیا کیونکہ سیاست کے لیے آزاد وقت درکار ہو تا یے وقت میں بندھ کر اس کو انجام نہیں دیا جا سکتاہے
وہ بھی اس وقت آزادی کی تحریک پورے شباب پر تہی، آپ شب وروز ملک عزیز کی آزادی کے لیے جدو جہد کرتے ،، دوران طالب علمی سے ہی سیاست میں حصہ لینے لگے اور انگریزی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے لگے تھے ، مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کے سخت مخالف تھے زندگی بھر ہندو مسلم اتحاد و قومی ھم آہنگی کے لیے دل سے کام کرتے رھے، ایک نیک دل انسان تھے
ان کے عادات واطوار سادگی و بردباری دینداری وپرھیز گاری بیباکی وحق گویی آپ کا محبوب مشغلہ تہااگر ان کی زندگی کا سر سری طور پر بھی جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ھو جاتی ہے کہ ان کی شخصیت ایک انجمن کی طرح تھی اگر وہ مدرسہ رحیمیہ کے پروردہ تھے تو دوسری طرف علوم طب میں نابغہ روزگار تھے اور ملک عزیز کی آزادی کی لڑائی میں ان کی خدمات ایک ناقابل فراموش حقیقت ھے انھوں نے دینی ،ملی اور سیاسی بیش بہا خدمات جلیلہ انجام دیں
مگر افسوس کہ ان کی خدمات اور کارناموں سے دنیا آج بھی اس طرح واقف نھیں ہے جو ان کا حق تہا جب کہ ان کے کارناموں کو منظر عام پر لا کر آج کی نسل کو ان کے استفادہ کا موقعہ فراہم کیا جانا چا ہیے ، تاکہ اپنے وقت اور اپنے علم و فن کی ایک جید شخصیت کی خدمات وقت کی گرد میں دب کر نہ رہ جائے کسی بھی شخصیت کی خدمات کا مطالعہ و محاسبہ نہ کیا جانا اور لوگوں اسلاف کے کارناموں سے بے خبر رکھنا ان کے کردار کو مسخ کرنے کے مترادف ہے
بزرگوں کی علمی ادبی دینی سیاسی تدریسی تصنیفی تحریری اور تقریری خدمات کو اجاگر نہ کرنا بہت بڑی نا سپا سی اور نا انصافی ہے۔میں نے ان کی شخصیت کے کچھ پھلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ھے کیوں کہ ان کی پوری شخصیت کا احاطہ کرتا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے
میں پھلے عرض کرچکا ہوں کہ آپ میدان طبابت میں مہارت تا مہ رکھتے تھے اس کے تعلق سے ہمیں ایک واقعہ ھمیشہ یاد آتا رھتا ہے جسے میرے والد ماجد رحمہ اللّٰہ ھمیشہ سنایا کرتے تھے میرے والد رحمہ اللّٰہ مغربی بنگال کے ایک گاؤں رام پور ضلع اتر دیناج پور جو اسلام پور سب ڈویژن کے پورب دکھن میں واقع ہے سکونت پذیر تھے اس علاقہ کے زمی ندار جن کا نام ابھی میرے ذھن میں نھیں ہے
کسی موذی اور مھلک مرض میں مبتلا تھے کافی علاج ومعالجہ کے بعد بھی طبیعت تنزلی کی طرف مائل تھی اور بالکل قریب الموت تھے
ایک روز میرے والد رحمہ اللّٰہ عیادت کے لیے گیے سلام وکلام کے بعد حکیم عبدالمنان صدری رحمہ اللّٰہ سے تشخیص کا مشورہ دیا زمین دار مذکور فورا راضی ہو گیے اؤر میرے والد رحمہ اللّٰہ سے درخواست کی جلد سے جلد ان کے بلانے کا انتظام کیجیے اس زمانے میں مواصلات کا انتظام اتنا تیز رفتار نھیں تھا جتنا آج ہے والد رحمہ اللّٰہ نے خود فاضل پور کا سفر کیا اور حکیم عبدالمنان صدری رحمہ اللّٰہ کو آنے کی غرض بیان کی والد رحمہ اللّٰہ کو ان سے بھت گہرے تعلقات تھے انھوں نے کہا حالات بالکل خراب ہیں
آزادی کی لڑائی پورے زوروں پر ہے ہر طرف سیاسی رہ نماؤں کو انگریزوں کے ذریعہ پکڑ نے اور جیل بھیجنے کا سلسلہ شروع ہے یہ بھی کانگریس پارٹی کی نمائندگی کرتے تھے لیکن پھر بھی تیار ہو گئے اور جانے کا وقت مقرر کردیا اس وقت سفر اتنا آسان نھیں تھا جتنا ابہی ہے
بھر حال سفر کی صعوبتوں اور پریشانیوں کو جھیلتے ھو یے کٹیہار پہونچے پھر کٹیہار سے کشن گنج کا سفر چھوٹی لائن سے گیا اس وقت چھوٹی لائن ھی چلتی تھی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی تقریباً پچاس کیلو کی مسافت باقی تھی آج کی طرح سواری کی فراوانی نھیں تھی
اس لیے زمین دار صاحب ان کے اکرام واحترام میں اپنی خاص سواری بھیجی یہ اس وقت کے لئے بڑے فخر و عزت اور تکریم کی بات تھی آپ اس سواری سے تقریبا شام کے چھ بجے ان کے حویلی نما دولت کدہ پہونچے ،زمیندار نے بڑے عزت واحترام کے ساتھ استقبال کیا اور سلام وکلام کے بعد ان کو مہمان خانہ بھیج دیا
اور خدمت کے لیے کئی خادموں کو مقرر کر دیا ، مریض کو دیکھنے کے لئے صبح کا وقت مقرر کیا گھر والوں کو صبح کا بے چینی سے انتظار تھا
صبح ھوئی نماز کی ادائیگی کے بعڈ پیدل ھی علاقہ کا معائنہ کیا اور میرے والد رحمہ اللّٰہ سے مخاطب ہوکر فرمایا پڑا عمدہ علاقہ ہے آپ وہوا با لکل صاف ستھری اور صحت کے کافی معقول اور مفید ھے ، ناشتہ وغیرہ کا انتظام تھا لیکن انہوں کھا پھلے مریض کو دیکھنے کے بعد ھی ناشتہ وغیرہ کا انتظام کیا جایے پورے علاقہ میں گھما گہمی تھی ھر طرف سے لوگ ان کو دیکھنے اور ملنے کے لیے آنے لگے
بہرحال مریض کو تشخیص کے لیے لایا گیا کافی دیر معائنہ کر نے کے بعد دوا تجویز کر دی دوائیں دھلی سے منگوائی گئیں اور مریض بالکل شفایاب ھو گئے اور بہت لمبی عمر پائی پھر اسی شام والد رحمہ اللّٰہ کو ساتھ لے کر فاضل پور کے لیے روانہ ہو گئے یہ واقعہ میں نے صرف اس لیے تحریر کیا تاکہ میدان طبابت میں ان کے تبحر علمی کا اندازہ ہو سکے
اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات ہوں گے جو لوگوں کے سینے میں محفوظ ھونگے ، آپ کے بارے میں پروفیسر ارشد جمیل اپنی معر کتہ الآرا کتاب تاریخ کورو ڈیہ میں رقمطراز ھیں “حکیم عبدالمنان صدری ایک خوشحال اور متمول خاندان 1905 میں پیدا ہوۓ آپ کے والد منشی غلام علی فارسی کے عالم تہے اور دادا صدر علی علاقہ کے مقتدر شخصیتوں میں شمار ھوتے تھے
اس سے آگے پروفیسر لکھتے ھیں ” آپ کا داخلہ مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربہنگہ میں کرایا گیا جو اہل حدیث کا بھار میں سب سے بڑا دینی ادارہ ھے یھاں سے آپ نے متوسطہ تک کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تکمیل الطب کے لیے دھلی چلے گئے اور 1930تک یہاں آپ کا قیام رہا میں پھلے عرض کرچکا ہوں کہ آپ اوایل عمر سے ھی سیاست میں سرگرم ھو چکے تھے
اور کانگریس پارٹی کی نمائندگی کرتے تھے ،اس سلسلے میں پروفیسر صاحب رقمطراز ھیں “ہندوستان میں تحریک آزادی کا دور شباب تھا پورے ملک میں یہ تحریک چل رہی تھی حکیم صاحب بھی اس تحریک میں عملی طور پر شریک ہو گئے جمعیت العلماء ھند اس وقت مسلمانوں کی واحد تنظیم تھی جو گانگریس کے ساتھ اس تحریک آزادی میں سرگرم عمل تھی
حکیم صاحب جمعیت العلماء سے قریب ھو گئے اور جب دھلی میں مسلم طلبا جمعیت العلما کی نگرانی میں جمعیۃ الطلبہ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تو حکیم صاحب اس کے صدر نامزد ھوئے اور پڑی سرگرمی سے تحریک آزادی میں کود پڑے اسی دوران آپ کے والد ماجد رحمہ اللّٰہ اپنی علالت کی وجہ بتاکر آپ کو گھر واپس بلا لیا آپ اس وقت تک حکومت برطانیہ کی نظر میں آچکے تھے دلی ریلوے اسٹیشن پر آپ کے ساتھیوں کی ایک بڑی جماعت آپ کو رخصت کرنے آئی تھی جب پولس کو اس کی خبر ہویی تو آپ کو گرفتار کرنے کے لیے وہ اسٹیشن آئی اس وقت تک ٹرین روانہ ہو چکی تھی,,
اور گرفتار ھونے سے بچ گئے بلا شبہ آپ کی شخصیت کثیر الجھات تھی آپ بیک وقت عالم ، حکیم آزادی ہند کے جاں بحق سپاھی کتاب وسنت کے سچے شیدائی تھے ، یہ بات شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ھے کہ جامعہ ہمدرد نئی دھلی کے بانی و مؤسس حکیم عبد الحمید جیسی قد آور شخصیت حکیم عبدالمنان صدر ی کے ساتھی اور کلاس فیلو تھے
یقینا یہ ھم لوگوں کے لیے باعث صد افتخار ھے،مختصر علالت کے بعد آپ کا انتقال ١٩٨٨ میں ھو گیا اور پورا علاقہ ایک مشہور حکیم اور خادم قوم وملت آزاد ہند کےعظیم مجاہد سے محروم ہوگیا اور علوم و فنون کا ایک ذخیرہ ان کے ساتھ چلا گیا ، یہ کہنا بالکل مناسب ہوگا کہ :
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا۔